چشمہ تعصب کا نہیں انسانیت کا لگائیں۔ ۔۔۔۔ (از:۔مدثراحمد)
کہاجاتاہے کہ حضرت یوسف علیہ السلام نے جب مصرکی باگ ڈور سنبھالی تو انہوں نے سب سے پہلے وہاں کے لوگوں کیلئے اگلے14 سال کیلئے منصوبہ بندی یعنی پلاننگ کی کہ کس طرح سے ان کیلئے سہولیات فراہم کی جائیں،چونکہ حضرت یوسف علیہ السلام اللہ تعالیٰ کے نبی تھے تو انہیں اس بات کا الہام ہواکہ آنے والے دنوں میں کیا ہوسکتاہے،اسی وجہ سے انہوں نے قحط سالی کااندازہ لگاکر 7سال کااناج ذخیرہ کروایا،لوگوںسے خوب محنتیں کروائیں اور غلہ اکٹھاکیا۔اس واقعہ سے ہمارے لئے ایک سبق یہ ملتاہے کہ ہمیں مستقبل کیلئے بھی تیاریاں کرنی ہونگی اور کسی بھی واقعہ سے نمنٹے کیلئے تیاریاں کرنی ہونگی۔جب یوسف علیہ السلام کے دورمیں قحط آیاتو یوسف علیہ السلام نے ذخیرہ کئے گئے اناج کوپوری پلاننگ کےساتھ تقسیم کیا جس کی وجہ سے مصرکے لوگ قحط سالی سے بچ گئے اور اللہ کے اس برگزیدہ بندےنے پوری انسانیت کیلئے کام کیا۔
اس وقت ملک بھر میں کوروناسے حالات بدترین ہوتےجارہے ہیں۔ہر طرف نفسی نفسی کا عالم ہے،حکومتیں صرف مریضوں کے اعداد وشمارات بتارہی ہیںنہ کہ ان مریضوں کو جو سہولت پہنچانی ہے،اُس تعلق سے کسی طرح سے منظم انتظامات کے تعلق سے وضاحت نہیں دے رہی ہیں۔جب بھی کو ئی آفت ،مصیبت،فسادات یا وباء پھیلتی ہے تواس کا سب سے زیادہ اثر اقلیتوں پر پڑتاہے،اس وقت بھارت میں اگر اقلیتی ہیں تو وہ مسلمان ہیں،تو ظاہرسی بات ہے کہ کوروناکی وباء،لاک ڈائون،اسپتالوں میں علاج،مزدورطبقہ ومتوسط طبقے کاگھر چلنا،عام لوگوں کی ضروریات پوری ہونایہ سب متاثر ہونگی۔ایسے میں مسلمانوں کا وہ طبقہ جو مالدارہے اور جن کا زکوٰۃ نکلتاہےاورجو لوگ رمضان میں نیکیاں کمانے کے مقصد سے کچھ بڑے بڑے کام انجا م دینا چاہتے ہیں وہ تمام مل کر حکمت عملی سے کا م کریں۔اس وقت کوروناجیسے مہلک حالات میں بھی مدرسوں کی تعمیرومسجدوں کی تعمیر کابیڑااٹھایاجارہاہے اور ا س کیلئے بھی باقاعدہ طور پر چندے بھی اٹھائے جارہےہیں،اگر مدرسوں میں تعلیمی سرگرمیاں جاری ہیں تو اساتذہ کا حق ہے کہ انہیں تنخواہوں سے نوازاجائے اور مسجد میں امام و موذن ہیںتو ان کی تنخواہ جاری کی جائے،لیکن مدرسوں میں سینکڑوں طلباء کی تعلیم کا غلط حوالہ دیکر یا پھر مسجدوں کی تعمیر کیلئے دل کھول کر چندہ دینے کی اپیل کرکے ،ضرورتمندوں کےحق کو نہ چھینیں، یقیناً مسجد ومدرسوں کا راستہ بھی ثواب اور نیکی کا راستہ ہے،اُسی طرح سےخداکی مخلوق کی خدمت کا راستہ بھی نیکی اور بھلائی کا راستہ ہے۔اب رمضان ہے،کم وبیش ہر محلے میں رمضان کٹ پہنچائے گئے ہیں،لیکن رمضان کے بعد بھی حالات سدھرنے والے نہیں ہیں،ایسے میں خدمت خلق کیلئےہمیں منصوبہ بندی کرنے کی ضرورت ہے،راشن ،دوائی،کفن دفن جیسے معاملات کیلئے ایک دوسرے کا تعائون کرنے کیلئےاپنے زکوٰۃ فطرےاور چندوں کو محفوظ رکھیں،جب جان سلامت ہو توسب ہوسکتاہے،مسجدکی تعمیر بھی آگے چل کرکی جاسکتی ہے،مدرسے کی مددبھی کی جاسکتی ہے،عبادتیں بھی کی جاسکتی ہیں،لیکن جب جان ہی نہ رہے گی تو کیسےاور کس پر ہم شکوہ کرینگے۔وقت سنگین ہے،ہم وقت کی نزاکت کو نہیں سمجھ رہے ہیں،حریف قومیں اُن کے اپنے ہیلپ سینٹر بنارہے ہیں،اُن کے اپنے دکانداروں کواناج ذخیرہ کرنے کیلئے تعائون کررہے ہیں تاکہ آنے والے دنوں میں ذخیرہ کئے گئے اناج کو اُن کی قوموں میں تقسیم کیاجائے۔ہم اور آپ دیکھ رہے ہیںکہ کس طرح سے سکھوں کی ایک تظیم خالصہ نے انسانی خدمت کیلئے کوویڈ سینٹر قائم کیا ،اب انہوںنے300 آکسیجن سلنڈرفراہم کئے ہیں جوجہاں ضرورت ہوں وہاں پہنچایاجارہاہے۔مشکل وقت میں ایسا کام ہوناچاہیےنہ کہ اس بات کی بحث ہوکہ مسجدکو کوویڈسینٹر بنایاجائے یا نہیں۔مسجد کوبیماروںکی تیماداری کا مرکز بنایاجائے یانہیں،زکوٰۃ کو کوویڈسینٹرکیلئے خرچ کیاجائے یا نہیں۔یہ سب بحث ومباحثے وہ لوگ کررہے ہیں جن کا عملی حلقے میں کوئی وجودہی نہیں۔اگر ڈاکٹر مریض کو مسلمان سمجھ کر چھوڑ دے تو ہر مسلمان موت کے منہ میں چلا جائیگااور ایک مسلم ڈاکٹر ہندو کا علاج کرنا چھوڑ دے تو وہ نہ صرف ہندوئوں کاقاتل ہوگا بلکہ وہ ساری انسانیت کا قاتل کہلائیگااور وہ لوگ جو یہ کہہ رہے ہیںکہ تعصب کی وجہ سے مسلمان زیادہ مررہے ہیں،تو ان کیلئے جواب یہ ہے کہ کانگریس کے دورمیں جو اسپتال و ڈاکٹر مریضوں کا علاج کررہے تھے وہی ڈاکٹر اورد اسپتال بی جے پی کے دورمیں بھی کا م کررہے ہیں۔چشمہ تعصب کا نہیں انسانیت کا لگا کر کا م کرناچاہیے۔
(مضمون نگار شموگہ سے شائع ہونے والے روزنامہ آج کا انقلاب کے ایڈیٹر ہیں)