ٹریبیونل نے محمد محسن کی معطلی منسوخ کردی
بنگلورو،26؍اپریل(ایس او نیوز) بنگلور بنچ کے سنٹرل اڈمنسٹریٹیو ٹریبیونل(سی اے ٹی)نے آئی اے ایس آفیسر محمد محسن کی معطلی کو منسوخ کرتے ہوئے بلا تاخیر حکومت کرناٹک میں ان کے سابقہ عہدے کا چارج لے لینے کا اہل قرار دیا ہے، سی اے ٹی کے ممبر جج کے بی سریش کے احکامات قانون کے ساتھ کھلواڑ کرنے، انصاف کا گلا گھونٹنے والوں اور وزراء وغیرہ کی چاپلوسی کرنے بلا جواز اقدام کرنے والوں کے منہ پر تمانچہ ہے، کرناٹک کیڈر کے آئی اے ایس آفیسر محمد محسن کو اوڑیشہ میں انتخابی مشاہد مقرر کیا گیا تھا، ان پر الزام ہے کہ 16 اپریل 2019 کو انہوں نے ایس پی جی سکیورٹی حاصل شخص وزیر اعظم نریندر مودی کے ہیلی کاپٹر کا سمبھلپور میں جائزہ لیا۔اس الزام کے تحت کہ ایس پی جی سکیورٹی حاصل شخص کی سوار کا جائزہ لینا، انتخابی کمیشن کی ہدایات کی خلاف ورزی ہے، محمد محسن کو معطل کردیا گیا، اپنی معطلی کو محمد محسن نے چیلنج کیا، جس پر سی اے ٹی نے یہ فیصلہ سنایا ہے کہ ان کی معطلی بے بنیاد دلائل پر کی گئی ہے، سی اے ٹی نے اس تعلق سے مارچ2013 کے کرناٹک ہائی کورٹ کے احکامات کا بھی حوالہ دیا ہے، ہائی کورٹ نے الیکشن کمیشن کے اسی طرح کے احکامات کو2013 میں منسوخ کردیاتھا،
اور عدالت کے احکامات میں واضح طور پر کہا گیا تھا کہ انتخابی مشاہد کے طور پر مقرر کئے گئے آفیسر کو ان کے اصل عہدے پر دوبارہ بلاتاخیر برقرار کیا جائے، محسن کے معاملے کی تفصیلات پر روشنی ڈالتے ہوئے سی اے ٹی نے کہا ہے کہ الیکشن کمیشن نے کہا ہے کہ ایس پی جی سکیورٹی والوں کا چند وجوہات کی بنیاد پر معائنے نہیں کیا جاسکتا، سی پی جی سکیورٹی حاصل شخص سے کیا برتائو کیا جانا چاہئے، اس تعلق سے کیا ضابطے ہیں ان کا جائزہ لینے کے بجائے ٹریبیونل اس بات پر غور کرتے میں دلچسپی رکھتا ہے کہ قانون کی بالا دستی قائم ہو، محمد محسن پر عائد الزامات کی بنیاد سمبھلپور کے سپرنٹنڈنٹ پولیس اور ایس پی جی کے ادے نامی شخص کی شکایت پر ہے، جنہوں نے کچھ فاصلے سے ہیلی کاپٹر کی ویڈیو گرافی کرنا قبول کرلیا تھا، محمد محسن نے جائے وارادات کا دورہ کیا تھا اور لگتا ہے کہ ویڈیو گرافی سے پہلے ہی وہاں سے چلے گئے تھ، انوہں نے ہدایت دی تھی کہ صرف ایس پی جی افسروں کی مشورے سے ہی ویڈیو گرافی کی کارروائی کی جائے،بعد میں ایس پی جی سکیورٹی عملے نے الیکشن کمیشن سے شکایت کی تھی کہ ایس پی جی سکیورٹی والوں کا جائزہ لینا ان کی نجی زندگی میں دخل اندازی ہے، عرضی گزار کے وکیل نے دلیل دی ہے کہ کرناٹک میں وزیر اعظم کے قافلے(ہیلی کاپٹر اور کاروں پر مشتمل) سے بھاری یکسوئی کو دوسری سواریوں میں منتقل کرکے لے جایا گیا، لہٰذا ان رپورٹوں کے سبب شبہے کی بنیاد پر ایس پی جی سکیورٹی حاصل شخص کی سواری کا جائزہ لینا، ڈیوٹی نبھانے والے آفیسر کی دیانتداری کہلاتی ہے، بکسوں کی منتقلی پر سوال ضرور اٹھائے گئے، مگر کوئی کارروائی نہیں کی گئی،
کرناٹک کے وزیر اعلیٰ کمار سوامی کی نجی سواریوں کی بھی انتخابی افسروں نے جانچ کی ہے، جبکہ کمار سوامی بھی ایس پی جی سکیورٹی کے زمرے میں آتے ہیں، اسی طرح اوڑیشہ کے وزیر اعلیٰ کی سواریوں کی بھی جانچ کی گئی، ان واقعات کی روشنی میں وزیر اعظم کی سواری کی جانچ پر جو واویلا مچایا جارہاہے، اور ایک دیانتدار آفیسر کے خلاف غیر ضروری کارروائی کی گئی وہ انصاف اور قانون کی کھلی خلاف ورزی ہے، انتخابات کے دوران بلا شبہ سرکاری افسروں اور عاملے پر الیکشن کمشنر کے اختیارات ہوتے ہیں،لیکن جیسے ہی انتخابی کارروائی مکمل ہوجائے گی، الیکشن کمیشن کے اختیارات بھی خود بخود ختم ہوجائیں گے، بہر حال ٹریبیونل( سی اے ٹی) اس معاملے پر الیکشن کمیشن کی جانب سے جواب موصول ہونے پر از سر نو غور کرے گا، لہٰذا بادی النظر میں الیکشن کمیشن کی جانب سے محمد محسن کی معطلی کے احکامات جاری کرنا غلط ہے،عرضی گزار محمد محسن حکومت کرناٹک میں اپنے سابقہ عہدے پر بلاتاخیر دوبارہ جوائن کرسکتے ہیں، چونکہ ٹریبیونل اس معاملے کا پوری طرح سے تصفیہ کرنا چاہتی ہے، لہٰذا تمام متعلقہ مدعیان عالیہ کو اندرون چار ہفتے جواب داخل کرنے کی ہدایت دیتے ہوئے ڈاکٹر کے بی سریش، ممبر جج نے شنوائی کی، آخری تاریخ 3 جون 2019 مقرر کی ہے۔