منگلورو 31/جولائی (ایس او نیوز) سابق وزیر اعلیٰ کرناٹکا اور یو پی اے۔2کے دور میں مرکزی حکومت کے وزیر خارجہ رہے ایس ایم کرشنا کے داماد اور ’کیفے کافی ڈے‘ کے مالک وی جی سدھارتھ کی لاش بدھ کے دن صبح 6.30بجے ہوئیگے بازار علاقے میں ندی اور سمندر کے سنگم کے قریب کنارے پر پڑی ہوئی ملی ہے۔
موصولہ رپورٹ کے مطابق الال کے ایم ایل اے یو ٹی قادر نے بتایاہے کہ وینلاک اسپتال میں پوسٹ مارٹم کے بعد لاش چکمگلوروضلع کے چیتن ہلی کافی اسٹیٹ لے جائی جائے گی اور وہاں شام کو آخری رسومات انجام دی جائیں گی۔
یاد رہے کہ پیر کی رات کو منگلورو کے قریب سفر کے دوران’کیفے کافی ڈے‘ کے مالک سدھارتھ نے ڈرائیور کو پُل پر کار روکنے کے لئے کہا تھا۔ اور پھر فون پر بات چیت کرتے ہوئے تھوڑی دور پیدل نکل جانے کے بعد وہ غائب ہوگئے تھے۔ بعد میں ایک ماہی گیر نے بتایاتھا کہ اس نے پُل پرسے چھلانگ لگاتے ہوئے ایک شخص کو دیکھا تھاجو سدھارتھ جیسا لگ رہا تھا۔ اب دو دن بعد اس پل سے تقریباً500میٹر کی دوری پر جولاش برآمد ہوئی ہے اس کی کلائی پر موجود سمارٹ واچ اور انگلی میں پہنی ہوئی انگوٹھی سے سدھارتھ کے طور پر شناخت کر لی گئی ہے۔
کروڑپتی تاجر اور مشہور’کیفے کافی ڈے‘چین کے قائم کردہ اور دیگر کچھ نامور کاروباری ادارے چلانے والے وی جی سدھارتھ نے خودکشی سے قبل ایک تحریر چھوڑ ی ہے جس میں انفورسمنٹ ڈپارٹمنٹ کے ڈی جی کی طرف سے ٹیکس کے سلسلے میں ہراساں کیے جانے اور ناقابل ادائیگی قرض کے زبردست بوجھ کے تلے دبے ہونے کا ذکر ہے۔ لیکن انفورسمنٹ افسران نے اس بات کی تردید کی ہے اور خودکشی نوٹ پر موجود دستخط بظاہر جعلی دکھائی دینے کا شبہ ظاہر کیا ہے۔ اس کے علاوہ کروڑوں روپے غیر محسوب دولت اور ٹیکس کی عدم ادائیگی کے سلسلے میں ان سے جو تفتیش ہورہی تھی اس تعلق سے کرناٹکا کے مشہور سیاستداں ڈی کے شیوکمار کے معاملات سے بھی ان کا مشکوک تعلق ہونے کی باتیں بھی ہوا میں گردش کررہی ہیں۔ کرناٹکا کے ایک او رسیاستداں کو بھی ان معاملات سے جوڑ کر دیکھا جارہا ہے۔
کہا جارہا ہے کہ مارچ 2018سے کافی ڈے انٹرپرائزز کی مشکلات شروع ہوگئی تھیں جب اس گروپ سے متعلقہ ’مائنڈ ٹری‘ نامی کمپنی کے شیئرز فروخت کرنے کا اعلان کیاتھا۔اس کے بعد سے کافی ڈے کے شیئرزکی قیمت مارکیٹ میں تیزی کے ساتھ گرنے لگی تھی۔اور سرمایہ کاروں نے اس کمپنی کے قرضے کی صورتحال اور استحکام پر شکوک وشبہات ظاہر کرنے لگے تھے۔کمپنی کے پاس کروڑوں روپوں کے قرضہ جات کی صحیح صورتحال اور ان کی ادائیگی کے تعلق سے سرمایہ کاروں کے سوالات کے جوابات نہیں تھے۔اس طرح وہ اپنے سرمایہ کاروں کو مطمئن کرنے میں ناکام رہے۔جبکہ کمپنی کا قرض بڑھ کر 6,500کروڑ روپے تک پہنچ گیاتھا۔