رٹا اسکولنگ سسٹم؛ کیا اس " گلے سڑے " اور " بوسیدہ " نظام تعلیم کو ہی جاری رکھا جائے گا ؟ تحریر: جہانزیب راضی

Source: S.O. News Service | By I.G. Bhatkali | Published on 9th February 2018, 12:17 AM | اسپیشل رپورٹس |

شمالی یورپ کا ایک چھوٹا سا ملک فن لینڈ بھی ہے جو رقبے کے لحاظ سے 65 ویں جبکہ آبادی کے اعتبار سے دنیا میں 114 ویں نمبر پر ہے ۔ ملک کی کل آبادی 55 لاکھ کے لگ بھگ ہے ۔ لیکن آپ کمال دیکھیں اس وقت  تعلیمی درجہ بندی کے اعتبار سے فن لینڈ پہلے نمبر پر ہے جبکہ ” سپر پاور ” امریکا 20ویں نمبر پر ہے ۔2020 تک فن لینڈ دنیا کا واحد ملک ہوگا جہاں مضمون ( سبجیکٹ ) نام کی کوئی چیز اسکولوں میں نہیں پائی جائیگی ۔ فن لینڈ کا کوئی بھی اسکول زیادہ سے زیادہ 195 بچوں پر مشتمل ہوتا ہے جبکہ 19 بچوں پر ایک ٹیچر ۔ دنیا میں سب سے لمبی بریک بھی فن لینڈ میں ہی ہوتی ہے ، بچے اپنے اسکول ٹائم کا 75 منٹ بریک میں گذارتے ہیں ، دوسرے نمبر پر 57 منٹ کی بریک نیویارک کے اسکولوں مٰیں ہوتی ہے اور یہاں اگر والدین کو پتہ چل جائے کہ کوئی اسکول بچوں کو ” پڑھانے” کے بجائے اتنی لمبی بریک دیتا ہے تو وہ اگلے دن ہی بچے اسکول سے نکلوالیں ۔

خیر  ، آپ دلچسپ بات ملاحظہ کریں کہ پورے ہفتے میں اسکولوں میں محض 20 گھنٹے ” پڑھائی ” ہوتی ہے ۔ جبکہ اساتذہ کے 2 گھنٹے روز اپنی  ” اسکلز ” بڑھانے پر صرف ہوتے ہیں ۔فن لینڈ میں ٹیچر بننا ڈاکٹر اور انجینئیر بننے سے زیادہ مشکل اور اعزاز کی بات ہے ۔ پورے ملک کی یونیورسٹیز کے ” ٹاپ ٹین ” ماسٹرز کئے  ہوئے طالب علموں  کو ایک خصوصی امتحان کے بعد اسکولوں میں بطور استاد رکھا جاتا ہے ۔سات سال سے پہلے بچوں کے لئیے پورے ملک میں کوئی اسکول نہیں ہے اور پندرہ سال سے پہلے کسی بھی قسم کا کوئی  باقاعدہ امتحان بھی نہیں ہے  کہ جس میں ماں باپ بچے کی نیندیں حرام کردیں ۔ان کے کھیلنے اور بھاگنے دوڑنے پر پابندی لگ جائے ، دروازے کھڑکیاں بند کر کے انھیں گھروں میں ” نظر بند ” کردیا جائے ۔ گھر میں آنے والے مہمانوں سے ملنے تک پر پابندی عائد کردی جائے  اور گھر میں مارشل لاء اور کرفیو کا سا سماں بندھ جائے ۔

پورے ملک میں تمام طلبہ و طالبات کے لئیے ایک ہی امتحان ہوتا ہے ۔ ریاضی کے ایک استاد سے پوچھا گیا کہ آپ بچوں کو کیا سکھاتے ہیں تو وہ مسکراتے ہوئے بولے ” میں بچوں کو خوش رہنا اور دوسروں کو خوش رکھنا سکھاتا ہوں ، کیونکہ اس طرح وہ زندگی کہ ہر سوال کو با آسانی حل کرسکتے ہیں"۔  آپ جاپان کی مثال لے لیں تیسری جماعت تک بچوں کو ایک ہی مضمون سکھا یا جاتا ہے اور وہ ” اخلاقیات "  اور ” آداب "  ہیں ۔ حضرت علی نے فرمایا ” جس میں ادب نہیں اس میں دین نہیں " ۔ مجھے نہیں معلوم کہ جاپان والے حضرت علی کو کیسے جانتے ہیں اور ہمیں ابھی تک ان کی یہ بات معلوم کیوں نہ ہو سکی ۔ بہر حال ، اس پر عمل کی ذمہ داری فی الحال جاپان والوں نے لی ہوئی ہے ۔

ہمارے ایک دوست اشفاق احمد  جاپان گئے اور ایئر پورٹ پر پہنچ کر انھوں نے اپنا تعارف کروایا کہ وہ ایک استاد ہیں اور پھر ان کو لگا کہ شاید وہ جاپان کے وزیر اعظم ہیں-  یہ ہے قوموں کی ترقی اور عروج و زوال کا راز- اشفاق احمد صاحب کو ایک دفعہ اٹلی میں عدالت جانا پڑا اور انھوں نے بھی اپنا تعارف کروایا کہ میں استاد ہوں وہ لکھتے ہیں کہ جج سمیت کورٹ میں موجود تمام لوگ اپنی نشستوں سے کھڑے ہوگئے اس دن مجھے معلوم ہوا کہ قوموں کی عزت کا راز استادوں کی عزت میں ہے ۔

 آپ یقین کریں استادوں کو عزت وہی قوم دیتی ہے جو تعلیم کو عزت دیتی ہے اور اپنی آنے والی نسلوں سے پیار کرتی ہے ۔ جاپان میں معاشرتی علوم ” پڑھائی"  نہیں جاتی ہے کیونکہ یہ سکھانے کی چیز ہے اور وہ اپنی نسلوں کو بہت خوبی کے ساتھ معاشرت سکھا رہے ہیں ۔ جاپان کے اسکولوں میں صفائی ستھرائی کے لئیے بچے اور اساتذہ خود ہی اہتمام کرتے ہیں ، صبح آٹھ بجے اسکول آنے کے بعد سے 10 بجے تک پورا اسکول بچوں اور اساتذہ سمیت  صفائی میں مشغول  رہتا ہے ۔ دوسری طرف آپ ہمارا تعلیمی نظام ملاحظہ کریں جو صرف نقل اور چھپائی پر مشتمل ہے ، ہمارے بچے ” پبلشرز ” بن چکے ہیں ۔آپ تماشہ دیکھیں جو کتاب میں لکھا ہوتا ہے اساتذہ اسی کو بورڈ پر نقل کرتے ہیں ، بچے دوبارہ اسی کو کاپی پر چھاپ دیتے ہیں ، اساتذہ اسی نقل شدہ اور چھپے ہوئے مواد کو امتحان میں دیتے ہیں ، خود ہی اہم سوالوں پر نشانات لگواتے ہیں اور خود ہی پیپر بناتے ہیں اور خود ہی اس کو چیک کر کے خود نمبر بھی دے دیتے ہیں  بچے کے پاس یا فیل ہونے کا فیصلہ بھی خود ہی صادر کردیتے ہیں ۔اور ماں باپ اس نتیجے پر تالیاں بجا بجا کر بچوں کے ذہین اور قابل ہونے کے گن گاتے رہتے ہیں ، جن کے بچے فیل ہوجاتے ہیں وہ اس نتیجے پر افسوس کرتے رہتے ہیں اور اپنے بچے کو ” کوڑھ مغز ” اور ” کند ذہن ” کا طعنہ دیتے رہتے ہیں ۔ آپ ایمانداری سے بتائیں اس سب کام میں بچے نے کیا سیکھا ؟ سوائے نقل کرنے اور چھاپنے کے ۔ ہم تیرہ چودہ سال تک بچوں کو قطار میں کھڑا کر  کر کے اسمبلی کرواتے ہیں اور وہ اسکول سے فارغ ہوتے ہی قطار کو توڑ کر اپنا کام کرواتے ہیں ،  جو جتنے بڑے اسکول سے پڑھا ہوتا ہے قطار کو روندتے ہوئے سب سے پہلے اپنا کام کروانے کا ہنر جانتا ہے –

ہم پہلی سے لے کر اور دسویں تک اپنے بچوں کو  ” سوشل اسٹڈیز ” پڑھاتے ہیں اور معاشرے میں جو کچھ ہورہا ہے وہ یہ بتانے اور سمجھانے کے لئیے کافی ہے کہ ہم نے کتنا ” سوشل " ہونا سیکھا ہے ۔ اسکول میں  سارا وقت سائنس  ” رٹتے " گذرتا ہے اور آپ کو پورے ملک میں کوئی ” سائنسدان " نامی چیز نظر نہیں آئیگی کیونکہ بدقسمتی سے سائنس ” سیکھنے " کی اور خود تجربہ کرنے کی چیز ہے اور ہم اسے بھی  ” رٹا " لگواتے ہیں ۔آپ حیران ہونگے میٹرک کلاس کا پہلا امتحان 1858 میں ہوا اور برطانوی حکومت نے یہ طے کیا کہ بر صغیر کے لوگ ہماری عقل سے آدھے ہوتے ہیں اسلئیے ہمارے پاس ” پاسنگ مارکس " 65 ہیں تو بر صغیر والوں کے لئیے 32 اعشاریہ 5 ہونے چاہئیے ہیں ۔دو سال بعد 1860 میں اساتذہ کی آسانی کے لئیے پاسنگ مارکس 33 کردئیے گئے ۔ اور ہم 2018 میں بھی ان ہی 33 نمبروں سے اپنے بچوں کی ذہانت کو تلاش کرنے میں مصروف ہیں ۔ میرا خیال ہے کہ اسکولز کے پرنسپل صاحبان اور  ذمہ دار اساتذہ اکرام سر جوڑ کر بیٹھیں اس ” گلے سڑے ” اور ” بوسیدہ ” نظام تعلیم کو اٹھا کر پھینکیں ، بچوں کو ” طوطا " بنانے کے بجائے ” قابل ” بنانے کے بارے میں سوچیں ۔یہ اکیسویں صدی ہے دنیا چاند پر پہنچ رہی ہے اور ہم ابھی تک ” رٹا سسٹم ” کو سینے سے لگائے بیٹھے ہیں ۔ 

مضمون نگار جہانزیب راضی پاکستان کے اُردو اخبارات کے لئے لکھتے ہیں، یہ مضمون بھی پاکستان کے کچھ  اُردو اخبارات میں شائع ہوا ہے، دلچسپ اور معلوماتی مضمون ہونے کی وجہ سے اسے  ساحل آن لائن کے قارئین کے لئے ہم اُن کے شکریہ کے ساتھ یہاں شائع کررہے ہیں۔  (ادارہ) 

ایک نظر اس پر بھی

نئی زندگی چاہتا ہے بھٹکل کا صدیوں پرانا 'جمبور مٹھ تالاب'

بھٹکل کے اسار کیری، سونارکیری، بندر روڈ، ڈارنٹا سمیت کئی دیگر علاقوں کے لئے قدیم زمانے سے پینے اور استعمال کے صاف ستھرے پانی کا ایک اہم ذریعہ رہنے والے 'جمبور مٹھ تالاب' میں کچرے اور مٹی کے ڈھیر کی وجہ سے پانی کی مقدار بالکل کم ہوتی جا رہی ہے اور افسران کی بے توجہی کی وجہ سے پانی ...

بڑھتی نفرت کم ہوتی جمہوریت  ........ ڈاکٹر مظفر حسین غزالی

ملک میں عام انتخابات کی تاریخوں کا اعلان ہونے والا ہے ۔ انتخابی کمیشن الیکشن کی تاریخوں کے اعلان سے قبل تیاریوں میں مصروف ہے ۔ ملک میں کتنے ووٹرز ہیں، پچھلی بار سے اس بار کتنے نئے ووٹرز شامل ہوئے، نوجوان ووٹرز کی تعداد کتنی ہے، ایسے تمام اعداد و شمار آرہے ہیں ۔ سیاسی جماعتیں ...

مالی فراڈ کا نیا گھوٹالہ : "پِگ بُوچرنگ" - گزشتہ ایک سال میں 66 فیصد ہندوستانی ہوئے فریب کاری کا شکار۔۔۔۔۔۔۔(ایک تحقیقاتی رپورٹ)

ایکسپوژر مینجمنٹ کمپنی 'ٹینیبل' نے ایک نئی رپورٹ جاری کی ہے جس میں یہ انکشاف کیا گیا ہے کہ پچھلے سال تقریباً دو تہائی (66 فیصد) ہندوستانی افراد آن لائن ڈیٹنگ یا رومانس اسکینڈل کا شکار ہوئے ہیں، جن میں سے 81 فیصد کو مالی نقصان کا سامنا کرنا پڑا ہے۔

مسلمان ہونا اب اس ملک میں گناہ ہے۔۔۔۔۔۔۔۔از: ظفر آغا

انہدام اب ایک ’فیشن‘ بنتا جا رہا ہے۔ یہ ہم نہیں کہہ رہے بلکہ یہ مدھیہ پردیش ہائی کورٹ کا بیان ہے۔ بے شک مکان ہو یا دوکان ہو، ان کو بلڈوزر کے ذریعہ ڈھا دینا اب بی جے پی حکومت کے لیے ایک فیشن بن چکا ہے۔ لیکن عموماً اس فیشن کا نشانہ مسلم اقلیتی طبقہ ہی بنتا ہے۔ اس کی تازہ ترین مثال ...

کیا وزیرمنکال وئیدیا اندھوں کے شہر میں آئینے بیچ رہے ہیں ؟ بھٹکل کے مسلمان قابل ستائش ۔۔۔۔۔ (کراولی منجاو کی خصوصی رپورٹ)

ضلع نگراں کاروزیر منکال وئیدیا کا کہنا ہے کہ کاروار میں ہر سال منعقد ہونےو الے کراولی اتسوا میں دیری اس لئے ہورہی ہے کہ  وزیرا علیٰ کا وقت طئے نہیں ہورہاہے۔ جب کہ  ضلع نگراں کار وزیر اس سے پہلے بھی آئی آر بی شاہراہ کی جدوجہد کےلئے عوامی تعاون حاصل نہیں ہونے کا بہانہ بتاتے ہوئے ...

اترکنڑا میں جاری رہے گی منکال وئیدیا کی مٹھوں کی سیاست؛ ایک اور مندر کی تعمیر کے لئے قوت دیں گے وزیر۔۔۔(کراولی منجاؤ کی خصوصی رپورٹ)

ریاست کے مختلف علاقوں میں مٹھوں کی سیاست بڑے زورو شور سے ہوتی رہی ہے لیکن اترکنڑا ضلع اوراس کے ساحلی علاقے مٹھوں والی سیاست سے دورہی تھے لیکن اب محسوس ہورہاہے کہ مٹھ کی سیاست ضلع کے ساحلی علاقوں پر رفتار پکڑرہی ہے۔ یہاں خاص بات یہ ہےکہ مٹھوں کے رابطہ سے سیاست میں کامیابی کے ...