بابری مسجد۔رام جنم بھومی تنازعہ؛ خدا کی قسم، کوئی بھی ذی شعور مندر اور مسجد کے لئے اپنے گھر کو آگ نہیں لگائے گا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ از: سید خرم رضا

Source: S.O. News Service | Published on 7th November 2019, 9:05 PM | اسپیشل رپورٹس |

بابری مسجد۔رام جنم بھومی تنازعہ پر ملک کی سب سے بڑی عدالت سپریم کورٹ کا فیصلہ دس دن کے اندر آنے والا ہے۔ وزیر اعظم سے لے کر ہندو اور مسلمانوں کی تمام نمائندہ تنظیموں کے رہنما اپیل کر رہے ہیں کہ عوام کو خوش دلی سے عدالت کا جو بھی فیصلہ آئے اسے قبول کرنا چاہیے۔ فیصلہ اگر حق میں آئے تو اس میں جشن سے پرہیز کریں اور فیصلہ خلاف آنے کی صورت میں کسی مایوسی کا شکار نہ ہوں۔ کیا کسی بھی فریق کے لئے یہ ممکن ہے کہ وہ سپریم کورٹ کا فیصلہ تسلیم نہ کرے۔ یہ ہم کس کو بےوقوف بنا رہے ہیں۔ یہ ٓائینی تقاضہ ہے کہ ملک کی سب سے بڑی عدالت کے فیصلے کو صدر جمہوریہ سے لے کر عام آدمی کو بھی قبول کرنا ہی پڑتا ہے اس لئے یہ کہنا فضول ہے کہ ہم سپریم کورٹ کا فیصلہ مانیں گے۔ یہ حق صرف حکومت کو حاصل ہے کہ وہ سپریم کورٹ کے فیصلہ سے متفق نہ ہونے کی صورت میں قانون میں ترمیم کرے جیسے شاہ بانو معاملہ میں ہو چکا ہے۔ اس لئے عوام یا مذہبی رہنماؤں کے ہاتھ میں کچھ بھی نہیں ہے جو ہے حکومت کے ہاتھ میں ہے۔ یہاں یہ بات واضح کرنے کی ضرورت ہے کہ ملک کے مسلمانوں نے اس مسئلہ پر کبھی قانون ہاتھ میں نہیں لیا بلکہ اکثریتی طبقہ کے سر پھرے جھنڈ نے ایک خاص سیاسی پارٹی کی قیادت میں قانون ہاتھ میں لے کر 1992 میں مسجد شہید کی تھی۔

جب ہم اس مسئلہ کی بات کریں تو ہم چاہے لاکھ کہیں کہ اس کا تعلق عقیدے سے ہے لیکن حقیقت میں ایسا نہیں ہے، اس مسئلہ کا تعلق اقتدار کی سیاست سے ہے۔ اس حقیقت سے سب بخوبی واقف ہیں کہ ملک کی ایک خاص سیاسی پارٹی اور اس کی سرپرست تنظیم کے ایجنڈے میں ایسے کئی متنازعہ فرقہ وارانہ مسائل ہیں اور انہوں نے ان مسائل کو ہی سیڑھی بنا کر اقتدار حاصل کیا ہے۔ ہم سب کے ذہنوں میں اڈوانی کی رتھ یاترا ابھی بھی تازہ ہے اور اس حقیقت سے کوئی منکر نہیں ہو سکتا کہ اس سارے معاملہ نے اڈوانی کی پارٹی کی قومی سیاست میں جڑیں مضبوط کیں اور ان مضبوط جڑوں کی بنیاد پر اس پارٹی نے اقتدار کا وہ ثمرحاصل کیا جو ہر سیاسی پارٹی کا مقصد اور خواب ہوتا ہے۔ اس لئے یہ مسئلہ قطعاً سیاسی ہے جسے اب تک عقیدے کے لبادے میں پیش کیا گیا ہے۔

اس سارے مسئلہ میں مسلم تنظیموں اور ان کے رہنماؤں نے فرقہ پرست سیاست کو تقویت بخشی اور وہ ہر قدم پر نہ صرف اپنے مخالفین کو طاقت بخشتے رہے بلکہ ان کی چالوں میں پھنستے چلے گئے۔ مسلم قیادت نے کبھی دور اندیشی کا مظاہرہ نہیں کیا اور کبھی انہوں نے شطرنج کی بچھی بساط پر ایسی چال نہیں چلی جس سے مخالف فریق کو یا تو مات ہو جائے یا پھر وہ اپنے دفاع میں پیچھے ہٹے۔ پوری قیادت صرف مخالف کو جواب دے کر اس کو مضبوط کرتی رہی۔ مرکزی حکومت کے سیکولر ذہن کا استحصال کرنا اس قیادت نے اپنا مقصد بنا لیا۔ مسلم قیادت نے جتنا مرکز کی سیکولر حکومتوں پر دباؤ بنا کر اپنے حق میں فیصلے کرائے اتنا ہی مخالف نے ملک کے دو بڑے فرقوں میں نفرت کی کھائی کو چوڑا کرنا شروع کر دیا اور نتیجہ ہمارے سامنے ہے کہ بات اب فسادوں تک نہیں بلکہ موب لنچنگ تک پہنچ گئی۔

مسلم قیادت کے پاس آج بھی کوئی حکمت عملی نہیں ہے بس اس کی ایک جھجھک کے ساتھ یہ کوشش جاری ہے کہ وہ کسی طرح اس حکمراں جماعت کے قریب ہوجائے جس کے نظریات سے نہ وہ کبھی متفق تھے اور جس کی ہمیشہ مخالفت کی۔ آج خاموشی سے یا علی الاعلان جمعیتہ علما ہند (ارشد) کے رہنما مولانا ارشد مدنی سنگھ کے سربراہ موہن بھاگوت سے ملنے کے لئے اتنے مجبور ہیں کہ وہ خود ان کے پاس جاتے ہیں۔ وہ ہی کیا ان کے بھتیجےمولانا محمود مدنی خود بھاگوت سے ملنے کے لئے بے قرار ہیں۔ یہ دونوں ہی کیا بلکہ ہر ملی رہنما اور دانشور حکمراں جماعت سے ملنا اپنے لئے اعزاز کی بات سمجھ رہا ہے۔ کاش یہ ملاقاتیں اس وقت ہوتیں جب یہ پارٹی اقتدار میں نہ ہوتی جس کی سرپرست سنگھ ہے۔ اس وقت یہ ملاقاتیں دور اندیشی اور ملک میں فرقہ وارانہ ہم آہنگی قائم کرنے کے لئے سود مند ہوتیں، آج تو یہ ملاقاتیں شکست اور مجبوری کی عکاس ہیں۔ پہلے سیکولر حکومتوں پردباؤ بنانے کی سیاست سے فرقہ پرست طاقتوں کومضبوط کرنا ہو یا آج اپنی بقا کے لئے سنگھ کے سربراہ سے ملاقات کرنا ہو، ان سب سے قیادت کی ذہنی بصیرت کا اظہار ہوتا ہے۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ آج بھی اس قیادت کے پاس ملت اور ملک کے مستقبل کے لئے کوئی حکمت عملی نہیں ہے۔ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ یہ بس وہ کر رہے ہیں جو کہا جا رہا ہے۔

اس میں کوئی دو رائے نہیں ہے کہ جس مسئلہ کا فیصلہ سپریم کورٹ کو دینا ہے وہ انتہائی حساس ہے اور اس پر ماضی میں اتنا کچھ ہو چکا ہے کہ اس فیصلہ کا قومی سیاست پر اثر پڑنا فطری بات ہے۔ آئندہ کے حالات ملک کے مستقبل کو طے کریں گے۔ فیصلہ کے بعد کے حالات سے نمٹنے کی ذمہ داری حکومت کی ہے اور یہ اس کے لئے ایک سخت امتحان کا وقت ہے اگر اس نے اپنا راج دھرم نبھایا تو ہمارا یہ چمن ہمیشہ لہلہاتا رہے گا۔ حکومت کے ساتھ عوام کی بھی اتنی ہی ذمہ داری ہے۔ یہ عوام کو سمجھنا ہوگا کہ ان کے لئے ملک کی خوشحالی اور امن امان مقدم ہے یا پھر مسجد اور مندر۔ خدا کی قسم کوئی بھی ذی شعور مسجد اور مندر کے لئے اپنے گھر کو آگ لگانا نہیں پسند کرے گا۔

ایک نظر اس پر بھی

بھٹکل سنڈے مارکیٹ: بیوپاریوں کا سڑک پر قبضہ - ٹریفک کے لئے بڑا مسئلہ 

شہر بڑا ہو یا چھوٹا قصبہ ہفتہ واری مارکیٹ عوام کی ایک اہم ضرورت ہوتی ہے، جہاں آس پاس کے گاوں، قریوں سے آنے والے کسانوں کو مناسب داموں پر روزمرہ ضرورت کی چیزیں اور خاص کرکے ترکاری ، پھل فروٹ جیسی زرعی پیدوار فروخت کرنے اور عوام کو سستے داموں پر اسے خریدنے کا ایک اچھا موقع ملتا ہے ...

نئی زندگی چاہتا ہے بھٹکل کا صدیوں پرانا 'جمبور مٹھ تالاب'

بھٹکل کے اسار کیری، سونارکیری، بندر روڈ، ڈارنٹا سمیت کئی دیگر علاقوں کے لئے قدیم زمانے سے پینے اور استعمال کے صاف ستھرے پانی کا ایک اہم ذریعہ رہنے والے 'جمبور مٹھ تالاب' میں کچرے اور مٹی کے ڈھیر کی وجہ سے پانی کی مقدار بالکل کم ہوتی جا رہی ہے اور افسران کی بے توجہی کی وجہ سے پانی ...

بڑھتی نفرت کم ہوتی جمہوریت  ........ ڈاکٹر مظفر حسین غزالی

ملک میں عام انتخابات کی تاریخوں کا اعلان ہونے والا ہے ۔ انتخابی کمیشن الیکشن کی تاریخوں کے اعلان سے قبل تیاریوں میں مصروف ہے ۔ ملک میں کتنے ووٹرز ہیں، پچھلی بار سے اس بار کتنے نئے ووٹرز شامل ہوئے، نوجوان ووٹرز کی تعداد کتنی ہے، ایسے تمام اعداد و شمار آرہے ہیں ۔ سیاسی جماعتیں ...

مالی فراڈ کا نیا گھوٹالہ : "پِگ بُوچرنگ" - گزشتہ ایک سال میں 66 فیصد ہندوستانی ہوئے فریب کاری کا شکار۔۔۔۔۔۔۔(ایک تحقیقاتی رپورٹ)

ایکسپوژر مینجمنٹ کمپنی 'ٹینیبل' نے ایک نئی رپورٹ جاری کی ہے جس میں یہ انکشاف کیا گیا ہے کہ پچھلے سال تقریباً دو تہائی (66 فیصد) ہندوستانی افراد آن لائن ڈیٹنگ یا رومانس اسکینڈل کا شکار ہوئے ہیں، جن میں سے 81 فیصد کو مالی نقصان کا سامنا کرنا پڑا ہے۔

مسلمان ہونا اب اس ملک میں گناہ ہے۔۔۔۔۔۔۔۔از: ظفر آغا

انہدام اب ایک ’فیشن‘ بنتا جا رہا ہے۔ یہ ہم نہیں کہہ رہے بلکہ یہ مدھیہ پردیش ہائی کورٹ کا بیان ہے۔ بے شک مکان ہو یا دوکان ہو، ان کو بلڈوزر کے ذریعہ ڈھا دینا اب بی جے پی حکومت کے لیے ایک فیشن بن چکا ہے۔ لیکن عموماً اس فیشن کا نشانہ مسلم اقلیتی طبقہ ہی بنتا ہے۔ اس کی تازہ ترین مثال ...

کیا وزیرمنکال وئیدیا اندھوں کے شہر میں آئینے بیچ رہے ہیں ؟ بھٹکل کے مسلمان قابل ستائش ۔۔۔۔۔ (کراولی منجاو کی خصوصی رپورٹ)

ضلع نگراں کاروزیر منکال وئیدیا کا کہنا ہے کہ کاروار میں ہر سال منعقد ہونےو الے کراولی اتسوا میں دیری اس لئے ہورہی ہے کہ  وزیرا علیٰ کا وقت طئے نہیں ہورہاہے۔ جب کہ  ضلع نگراں کار وزیر اس سے پہلے بھی آئی آر بی شاہراہ کی جدوجہد کےلئے عوامی تعاون حاصل نہیں ہونے کا بہانہ بتاتے ہوئے ...