بمبئی ہائی کورٹ نے میڈیا اور حکومت کو آئینہ دکھایا ...... آز: عابد انور

Source: S.O. News Service | By I.G. Bhatkali | Published on 1st September 2020, 1:57 PM | ملکی خبریں | اسپیشل رپورٹس |

میڈیا اگر حق اور صداقت کا پیامبر بن جائے تو غریب سے غریب، کمزور اور بے سہارا طبقہ کو بھی انصاف مل جاتا ہے اور ہندوستان میں ایسا متعدد بار ہوا ہے، بڑے معاملے میں دبنگ، سیاستداں، سیاست  دانوں کے لاڈلے اور اثر و روسوخ رکھنے والے امیر گھرانے کے لوگوں کو جیل کی ہوا کھانی پڑی ہے اس ضمن میں  جیسیکا لال کا معاملہ سامنے رکھ رسکتے ہیں لیکن یہ اب گزرے زمانے کی بات ہوگئی۔

میڈیا خوف زدہ ہے وہ دوسروں کے خوف کو کیا دور کرے گا یا اس کے لئے لڑے گا۔ میڈیا ایک کھلونہ، ٹیپ ریکارڈ بن گیا ہے جو فیڈ کیا جاتا ہے وہی بولتا ہے، اس میں اس کا کوئی ویژن نہیں ہوتا اور ہندوستانی میڈیا کا مسلمانوں کے خلاف پروپیگنڈہ کوئی نئی بات نہیں ہے،اس کا مائنڈ سیٹ پہلے سے بنا ہوا ہے، خاص طور پر فرقہ وارانہ فسادات کے دوران یکطرفہ رپورٹنگ، مسلمانوں کے خلاف فسادمیں ملوث ہونے کا الزام،دہشت گردی کے نام پر مسلم نوجوانوں کی بے جاگرفتاری اور پہلی ہی فرصت میں انہیں دہشت گردقراردے دینا اور فیصلہ سنا دینا، ہندو لڑکی کی مسلم نوجوان کی شادی پر لوجہاد اور بیرونی فنڈنگ کا واویلا کرنا اور ہر معاملے میں مسلمانوں کو مورد الزام ٹھہرادینا میڈیا کی عادت رہی ہے لیکن کچھ اخبارات اور نیوز چینل تھے جو کسی حد تک مسلمانوں کے موقف کو بھی پیش کردیتے تھے اورصحافیوں کا ایک طبقہ سچ بات لکھتے ہوئے مسلمانوں پر ہونے والے مظالم کی داستان رقم کرتا تھا لیکن 2014کے بعد اس میں شدت سے کمی آئی ہے اور جو صحافی حق پرست تھے اور صحیح بات لکھتے تھے یا تو انہیں مین اسٹریم میڈیا سے نکال دیا گیا ہے یا وہ خود چھوڑ کر نکل آئے۔آج جتنے بڑے بڑے صحافی ہیں اور جن کا نام میڈیا کی دنیا میں ادب و احترام سے لیا جاتا ہے، چند کو چھوڑ کرمین اسٹریم میڈیا میں نہیں ہیں۔

دی وائر انہیں صحافیوں کا گروپ ہے جو بڑے بڑے اخبارات اور نیوز چینل سے وابستہ تھے لیکن 2014 میں میڈیا میں آنے والی زبردست تبدیلی اور سچ پر سخت پہرہ کی وجہ سے انہیں اپنے اپنے اخبارات اور نیوز چینل کو چھوڑنا پڑا۔اس کے بعد متبادل میڈیا دی وائر، الٹ نیوز، کوئنٹ، اسکرول، دی پرنٹ، دی سیٹزن، نیوز کلک،نیوز لانڈری، ستیہ ہندی ڈاٹ کام، ونود دوا شو، پرسونیہ واجپئی، اجیت انجم وغیرہ ہیں جو متبادل میڈیاکے سہارے اپنی آواز بلند کر رہے ہیں۔

اس وقت اگر کہیں خبر ہے تو صرف متبادل میڈیا میں ہے، مین اسٹریم میڈیا سرکاری بھوپو اور سرکاری ترجمان کے کردارمیں سرگرم ہے۔ وہا ں عوامی مسائل اٹھائے نہیں جاتے۔ اوپر سے جو اسکرپٹ آتا ہے میڈیا اسی پرشور شرابہ شروع کردیتاہے۔اس وقت جس طرح سشانت سنگھ راجپوت مین اسٹریم میڈیا میں چھاپا ہوا ہے اسی طرح مارچ کے اخیر اور اپریل میں مسلمانوں کو بدنام کرنے اور ان کے خلاف پروپیگنڈہ چلانے کے لئے تبلیغی جماعت کو مین اسٹریم میڈیا نے اوڑھنا بچھونا بنالیا تھا۔

منظم طور پر میڈیا نے کورونا کے لئے تبلیغ جماعت کو پوری طرح ذمہ دار قرار دے دیا تھا۔جس کی وجہ سے پورے ملک میں مسلمانوں کے خلاف نفرت کی مہم مزید زور پکر لی تھی۔اگر مین اسٹریم میڈیا کو کورونا کے خلاف جنگ میں ذرا بھی دلچسپی ہوتی تو وہ کسی کو نشانہ نہیں بناتا بلکہ احمد آباد میں نمستے ٹرمپ پروگرام کو نشانہ بناتا تھا، مدھیہ پردیش حکومت گرانے کے کھیل کے خلاف اپنی آواز بلند کرتااور کورونا کے دور میں اس طرح کی حرکت کے لئے بھارتیہ جنتا پارٹی کو کٹہرے میں کھڑا کرتا اور حکومت کی ناکاموں کی طرف اشارہ کرتا  لیکن میڈیا نے حکومت کے اشارے پر کورونا کی ناکامی اور لاک ڈاؤن کے نتیجے میں مزدوروں کی بے بسی اور بے کسی پر آواز اٹھانے کے  بجائے پورا تبلیغی جماعت کی طرف رخ موڑ دیا۔صرف مین اسٹریم میڈیا نے ہی یہ مہم نہیں چلائی بلکہ سوشل میڈیا پر بھی تبلیغی جماعت اور مسلمانوں کے خلاف شدید مہم چلائی گئی اور ٹوئٹر پر مندرجہ ذیل ٹرینڈ چلایا گیا۔

ہیش ٹیگ جہادی وائرس،ہیش ٹیگ کورونا جہاد،ہیش ٹیگ تبلیغی جماعت، ہیش ٹیگ جہادی کورونا وائرس، ہیش ٹیگ مسجدوں میں سرکاری تالا لگاؤ، کے نام سے خطرناک ٹرینڈ چلائے گئے، تاکہ مسلمانوں کو زیادہ سے زیادہ مجرم قرار دیا جائے۔ ہوا بھی یہی، ہر طرف مسلمانوں کے خلاف آواز اٹھنے لگی، انہیں نکالنے کی بات ہونے لگی، ہندو قوم پرست جماعت کے لیڈروں کے مسلمانوں کے خلاف بیانات آنے لگے، سبزی والے، پھل فروش، مزدوروں اور دیگر ریہڑی پٹری لگانے والوں  پر عتاب نازل ہونا شروع ہوگیا اور حکومت نے اسے روکنے کے لئے کوئی اپیل نہیں کی  اورنہ ہی ایسے لوگوں کے خلاف سخت ایکشن لئے گئے۔بلکہ حکومت تبلیغی جماعت کو بدنام کرنے کے لئے من گھڑت اعداد و شمار پیش کرنے لگی۔ وزارت صحت، داخلہ اور صحت سے متعلق ادارے ہر روز میڈیا بریفنگ میں تبلیغی جماعت کے اتنے اتنے بتانے لگے۔اس سلسلے میں میڈیا کی کارکردگی پر نظر رکھنے والے ادارے میں اپنی رپورٹ پیش کرکے میڈیا کے گھناؤنے  چہرے کو بے نقاب کیا ہے۔

 لاجیکل انڈین ڈاٹ کام میں شائع دی رپورٹرس وداؤٹ بارڈر نامی مضمون میں ٹونٹنی ٹونٹی ورلڈ پریس فریڈم انڈیکس نے21 اپریل  2020 کو سالانہ پریس فریڈم انڈیکس ریلیز کی جس میں 180 ممالک میں سے ہندوستان کی رینک 142 آئی ہے یعنی ہم سے 38ممالک ہی میڈیا کی آزادی کے معاملے میں کمتر ہیں۔ رپورٹ کے مطابق انڈین میڈیا ہندونیشنلسٹ حکومت کے تحت کام کر رہا ہے جس میں صحافیوں کا گلا گھونٹا جاتا ہے۔یہ رضاکار تنظیم جو صحافیوں پر ہونے والے حملے کے بارے میں معلومات جمع کرتی ہے۔اس نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ ہندوستانی صحافت کی رینک اس لئے گرگئی ہے کیوں کہ نیشنلسٹ حکومت اس پر مکمل کنٹرول کرنے کی کوشش کررہی ہے اوراپنی گرفت میں لے رکھا ہے۔اس نے اپنی رپورٹ میں لکھا ہے کہ تبلیغی جماعت میڈیا ہاؤس کا چارہ بن گیا، عالمی وبا کو تبلیغی جماعت سے جوڑ دیا گیا،سوشل میڈیا اور مین اسٹریم میڈیا نے مل کر اس بہانے مسلم طبقہ کو نشانے پر لیا۔ ہیش ٹیگ کورونا جہاد، ہیش ٹیک بائیو جہاد، اسکے ذریعہ مسلم اقلیتی طبقہ کے خلاف مہم چلائی گئی۔مذہبی کشیدگی کے دوران کورونا کے نام پر اسلامی فوبیا کو میڈیا نے فروغ دیا۔اس رپورٹ میں مثال پیش کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ 14اپریل کولاک ڈاؤن ٹو کے دوران باندرہ میں جب تارکین وطن مزدور باندرہ اسٹیشن کے باہر گھر جانے کے لئے جمع ہوگئے تھے تو یہاں کے کئی ہندی چینل نے یہ بتانے کی کوشش کی کہ مسجد کے باہر لوگ جمع ہوگئے جب کہ وہ اسٹیشن کے باہر جمع تھے اور اس سے کہیں زیادہ بھیڑ سورت میں جمع ہوئی لیکن سورت کا نام تک نہیں لیا گیاتھا۔

امریکہ نشیں فارن پالیسی ڈاٹ کام، جو 49 سال سے کام کررہا ہے،کے مطابق ہندوستانی میڈیا حکومت سے ضروری سوال نہیں کرتا اور عوام کے سامنے ایسی چیزیں پیش کرتا ہے۔ جس سے حکومت کی بہتر ساکھ قائم ہوتی ہو۔انڈیا اسٹٹکٹل مشنری کے رپورٹ کو کور ہی نہیں کیا۔رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ہندوستان کا مین اسٹریم میڈیا حکومت کا ترجمان بنا ہوا ہے اور صرف حکومت کی باتیں پیش کرتا ہے۔ہندوستانی  صحافیوں کے بارے میں کہا گیا ہے کہ وہ حکومت سے سوال ہی نہیں کرتے۔حکومت اشتہارات کے ذریعہ سے میڈیا کو کنٹرول کرتاہے اور انگریزی کے تین بڑے اخبارات کواشتہارات دینا بند کردیا تھا۔صحافیوں کی عزت معاشرے میں ختم ہوگئی ہے، اسے سیلز ایجنٹ بنادیاگیاہے جو اشتہارات کے لئے  ہی بھاگتا دوڑتاہے۔ فارن پالیسی کے مطابق فیک نیوز کی وجہ سے میڈیا کی اہمیت ختم ہوگئی ہے اورلوگ موبائل فون پر نیوز پڑھتے ہیں جو زیادہ تر فرضی ہوتے ہیں۔ چھ سوملین لوگ موبائل استعمال کرتے ہیں اور چارسو ملین  لوگ  وہاٹس ایپ  استعمال کرتے ہیں اور ڈھائی سو ملین فیس بک استعمال کرتے ہیں جس سے نیوز کا ذریعہ ہی بدل گیا ہے۔

 ہندوستانی میڈیا کے بارے میں نیویارک ٹائمس میں شائع ایک رپورٹ کے مطابق ایک میڈیا ہاؤس کو بغیر کسی اطلاع کے ارٹالیس گھنٹے کے لئے کٹ آف کردیا تھا۔اس لئے اس چینل نے فروری میں  شمال مشرقی دہلی میں ہونے والے فساد پر مبنی رپورٹ دکھائی تھی جس میں دہلی اور آر ایس ایس کے کردار کو پیش کیا گیا تھا۔اخبار نے لکھا کہ یہ پریس کی آزادی پر حملہ تھا۔ پریس کے بارے میں نیویارک ٹائمس نے مزید لکھا ہے کہ ہندوستانی پریس نے ہندوستانی جمہوریت کو مضبوط کرنے کے لئے اہم کردار ادا کیا ہے لیکن اب صحافی حملے کی زد میں ہیں۔رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ وزیر اعظم نریندر مودی نے لاک ڈاؤن نافذ کرنے سے پہلے میڈیا ہیڈ سے ملاقات میں پوزیٹیو رپورٹ جاری کرنے کا دباؤ ڈالا تھا۔اس کے علاوہ پانچ لاکھ سے زائد مزدور جب قومی شاہراہ پر پریشان حال تھے تو حکومت کے وکیل نے سپریم کورٹ سے ہدایت دینے کی گزارش کی تھی کہ وہ صرف سرکاری موقف پیش کرے۔ 

 اس سے اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ میڈیا ہی نہیں عدالت بھی کس دباؤ میں کام کررہی ہے۔مارچ اپریل میں جب تبلیغی جماعت خاص طور پر بیرون ملک سے آنے والے جماعت کے ارکان کی خلاف جب مہم چل رہی تھی اور ان کی پکڑ دھکڑ کا سلسلہ جاری تھا تو جمعےۃ علمائے ہند کے صدر مولانا سید ارشد مدنی سامنے آے اور انہوں نے تبلیغی جماعت کی حمایت کرتے ہوئے ان کے ساتھ کئے جانے والے غیر انسانی سلوک کے خلاف آواز اٹھائی اور سفارت خانوں سے غیر ملکی تبلیغی جماعت کے ارکان کی تفصیل نکلوائی۔تبلیغی جماعت کے پروگرام میں شامل ہونے والے غیر ملکی تعداد  تین ہزار  کے آس پاس تھی جن میں کچھ اپنے ملک واپس جاچکے تھے لیکن دوہزار کے قریب یہاں رک گئے اور لاک ڈاؤن نافذ ہونے کی وجہ سے ان کا  نکلنا محال ہوگیا تھا اور جہاں رکے تھے وہیں رہ گئے۔جمعیۃ علماء    کے جاری کردہ اعدد و شمار کے مطابق جو اس نے سفارت خانہ سے جدوجہد کے بعد حاصل کئے تھے،  دو ہزار پانچ (2005) غیر ملکی تبلیغی ارکان ہندوستان میں پھنس گئے تھے۔ان میں سب سے بڑی تعداد 755انڈونیشیا کی تھی،اس کے بعد بنگلہ دیش 455تھے۔کل 46 ممالک کے تھے جن میں میانمار سمیت یوروپ، امریکہ، عرب ممالک، جنوبی ایشیا کے ممالک کے تبلیغی ارکان تھے۔

حیرانی کی بات یہ ہے کہ روزانہ میڈیا بریفنگ میں کورونا سے متعلق تبلیغی جماعت کے جو اعداد و شمار پیش کئے جاتے تھے وہ صحیح نہیں تھے۔ جمعیۃ   علمائے ہند نے مولانا ارشد مدنی کی ہدایت پر اس ضمن میں تبلیغی جماعت کے اعداد و شمار جمع کئے،  اعداد و شمار کے مطابق ملکی اور غیر ملکی تبلیغی جماعت کے چھ ہزار ارکان میں سے صرف 66کی ابتدائی رپورٹ کورونا پوزیٹیو آئی تھی لیکن بعد میں ان سب کی رپورٹ نیگٹیو آگئی تھی۔  ان میں سے صرف دو کی کورونا سے موت ہوئی تھی جب کہ ملک کا میڈیا ان لوگوں کو کورونا بم قرار رہا  تھا۔ تبلیغی جماعت کے سلسلے میں اپنائے جانے والے انتظامیہ کے مبینہ متعصبانہ رویہ اور میڈیا کے زہریلے  پروپیگنڈہ کی وجہ سے جمعیۃ علماء ہند نے میڈیا کے خلاف سپریم کورٹ میں عرضی دائر کررکھی ہے۔مولانا سید ارشد مدنی تبلیغی جماعت کے خلاف انتظامیہ اور میڈیا کے پروپیگنڈہ کے خلاف سب سے پہلے میدان میں آئے  اور فوری طور پر بیان جاری کرکے تبلیغی جماعت اور اس کے ارکان کی حمایت میں عملی طور پر کھڑے ہوئے اور اس ضمن میں انتظامیہ سے بھی بات کی اور  ملک بھر میں پھیلے جمعیۃ کے اراکین کو تبلیغی جماعت والوں کی مدد کے لئے ہدایت جاری کی جس کے بعد پورے ملک کے جمعیۃ اراکین نے پھنسے ہوئے تبلیغی جماعتوں کی نہ صرف کھانے پینے، رہن سہن اور قانونی مدد کی جس کی وجہ سے ہریانہ،سہارن پور سمیت متعدد مقامات سے تبلیغی جماعت والے بری ہوئے۔تبلیغی جماعت اور مسلمانوں کے حق میں مولانا ارشد مدنی کا سب سے بڑا کارنامہ یہ ہے کہ اس وقت جب کوئی منہ کھولنے کے لئے تیار نہیں تھا مسلمانوں اور تبلیغی جماعت کے خلاف میڈیا کے پروپیگنڈہ کے خلاف عدالت عظمی کا دروازہ کھٹکھٹایا اور درجنوں چینلوں اور اخبارات کو عدالت میں گھسیٹ لیا، جس کی وجہ سے میڈیا کا رویہ بدلا اور ان کو اپنے متعدد ٹوئٹ حذف کرنے پڑے اور معذرت کا اظہار بھی کیا۔اس مقدمہ کو ملک کے معروف و مشہوروکیل دشینت دوے لڑ رہے ہیں۔  جمعیۃ  نے بمبئی ہائی کورٹ کی اورنگ آباد بینچ کے فیصلہ کو اپنی عرضی کے ساتھ نتھی کرنے کا فیصلہ کیا۔

واضح رہے کہ بمبئی ہائی کورٹ کی اورنگ آباد بینچ کے جسٹس ٹی وی نلوڈے اور جسٹس ایم جی سیولیکر نے الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا پر سخت تبصرہ کرتے ہوئے کہا ”ان غیر ملکی مہمانوں کے خلاف ٹی وی میڈیا، الیکٹرانک میڈیا، پرنٹ میڈیا میں جم کرپروپیگنڈہ کیا گیا، دہلی کے مرکز میں آئے ہوئے لوگوں کے خلاف ماحول بنانے کی کوشش ہوئی کہ یہ غیر ملکی  ہندوستان میں کورونا پھیلانے کے ذمہ دار ہیں اور اگر اس کو دیکھیں تو ایسا لگتا ہے کہ ان کے لوگوں کو اذیت دی گئی۔ان لوگوں کی سرگرمی سے کہیں سے پتہ نہیں لگتا کہ یہ لوگ تبدیلی مذہب کے لئے آئے ہیں، اسلام مذہب میں شامل کرانے آئے ہیں، اس کی زبان بھی ہندی یا اردو بھی  نہیں ہے، یہ الگ الگ زبانوں عربی، فرینچ وغیرہ بولتے ہیں“۔کورٹ نے اعتراف کیا کہ انہیں قربانی کا بکرا بنایا گیا ہے، کورٹ نے کہا کہ کوئی حکومت وبا، قدرتی آفات کے وقت قربانی کا بکرا تلاش کرتی ہے اور حالات بتارہے ہیں کہ شاید ان غیر ملکیوں کو بھی قربانی کا بکرا بنایاگیا۔ ''ہندوستان میں انفیکشن سے متعلق تازہ ترین اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ درخواست گزاروں کے خلاف ایسی کارروائی نہیں کی جانی چاہئے تھی۔''

بمبئی ہائی کورٹ کی اورنگ آباد بینچ کا فیصلہ کئی لحاظ سے اہمیت کا حامل ہے، ایک تو یہ کہ تبلیغی جماعت پر کوروناجہاد کا الزام دھل گیا ہے، حکومت کی نیت سامنے آگئی ہے، میڈیا کا قبیح چہرہ بے نقاب ہوگیا ہے۔اس سے زیادہ میڈیا کے لئے شرمندگی کی کوئی اور بات نہیں ہوسکتی۔

جس طرح معزز جج صاحبان نے میڈیا پر تبصرہ کیا ہے وہ میڈیا کے لئے آئینہ ہے لیکن ہندوستانی میڈیا گندگی میں اس قدر ڈوب چکا ہے کہ اسے اب اپنا کریہہ چہرہ دیکھنا گوارہ نہیں ہے۔ میڈیا کو یہ بات یاد رکھنا چاہئے کہ وقت ہر چیز کا حساب رکھتا ہے اور نوٹ بھی کرتا ہے۔ہندوستان میں جب میڈیا کی تاریخ لکھی جائے گی تو ہندوستانی میڈیا کے سیاہ باب کا بھی ذکر کیا جائے گا اور یہ بھی لکھا جائے گا کہ کس طرح میڈیا نے عوامی مسائل سے منہ موڑ کر جھوٹ اور پروپیگنڈے کی مہم میں لگ گیا تھا۔اچھی بات ہے کہ چند لوگ عدالت اور متبادل میڈیا میں موجود ہیں جو حق اور صداقت کی آواز کو بلند کرتے ہیں۔

ایک نظر اس پر بھی

سورت میں کانگریس کے امیدوارنیلیش کمبھانی کی نامزدگی منسوخ؛ بی جے پی امیدوار بلامقابلہ منتخب؛ کانگریس نے میچ فیکسنگ کا لگایا الزام

گجرات کی سورت لوک سبھا سیٹ سے بی جے پی امیدوار مکیش دلال بلا مقابلہ منتخب ہو گئے ہیں۔ ان کے انتخاب کو بی جے پی کی جانب سے لوک سبھا انتخابات کا پہلا نتیجہ قرار دیا جا رہا ہے۔ مگر مکیش دلال کے اس بلا مقابلہ منتخب ہونے کے عمل کا تجزیہ کرتے ہوئے کانگریس نے اسے جمہوریت کے لیے خطرہ اور ...

وزیراعظم مودی کا مسلمانوں کی مخالفت میں نفرت انگیزخطاب؛ کانگریس کی طرف سے الیکشن کمیشن کو کی گئی17 شکایتیں

وزیراعظم نریندر مودی نے مسلمانوں کی مخالفت میں جس طرح کا نفرت انگیز خطاب کیا ہے ، اس پر ملک  کے اکثر عوام حیرت کا اظہار کررہے ہیں۔ اس ضمن میں کانگریس کی طرف سے الیکشن کمیشن کو ١٧ شکایتیں دی گئی ہیں، اور ان کےخلاف کاروائی کا مطالبہ کیا گیا ہے جبکہ سوشیل میڈیا پر ان کے بیان کو لے ...

انڈیا بلاک اقتدار میں آنے پر قانون میں لائی جائے گی تبدیلی ؛ چدمبرم نے کہا ؛ زیر سماعت قیدی جب مجرم نہیں ہوتے تو اُنہیں جیل میں رکھا جانا غلط

سابق مرکزی وزیر اور کانگریس لیڈر پی چدمبرم نے  کہا ہے  کہ اگر انڈیا  بلاک مرکز میں برسراقتدار آتا ہے، تو وہ   سپریم کورٹ کے قائم کردہ  "ضمانت ایک اصول ہے، اور جیل ۔ استثناء ہے" کو لاگو کرنے کا قانون لائیں گے۔ چدمبرم نے کہا کہ  ضمانت دینے کے اُصول  پر نچلی اور ضلعی عدالتوں میں ...

ملک بڑی تبدیلیوں کے لیے تیار ہے: چیف جسٹس چندرچوڑ

17ویں لوک سبھا کے دوران پارلیمنٹ کے ذریعے تین اہم قوانین منظور کیے گئے،  سی آر پی سی،  آئی پی سی سے لے کر ایویڈنس ایکٹ کو ختم کرنے تک، تین نئے قوانین متعارف کرائے گئے۔ یہ قوانین یکم جولائی 2024 سے نافذ العمل ہوں گے۔ اس کے بارے میں سپریم کورٹ کے چیف جسٹس ڈی وائی چندر چوڑ نے مودی ...

چار ریاستوں میں گرمی کی شدید لہر، درجہ حرارت 43 ڈگری سے متجاوز، محکمہ موسمیات کا الرٹ جاری

ہندوستان کے محکمہ موسمیات (آئی ایم ڈی) نے ہفتہ کے روز آئندہ دو دنوں کے لئے ملک کی چار ریاستوں میں گرمی کی لہر کا الرٹ جاری کیا ہے۔ یہ ریاستیں بہار، جھارکھنڈ، اوڈیشہ اور مغربی بنگال ہیں، جن میں ہفتہ کو درجہ حرارت 42 ڈگری سیلسیس سے زیادہ تھا۔

بابا رام دیو کو ایک اور ’سپریم‘ جھٹکا، اب یوگ کیمپس کے لیے ادا کرنا ہوگا سروس ٹیکس

ایلوپیتھی کے خلاف گمراہ کن اشتہارات کے معاملے کے بعد سپریم کورٹ نے رام دیو کو ایک اور زوردار جھٹکا دیتے ہوئے ، ان کے یوگ کیمپوں کو سروس ٹیکس ادائیگی کے زمرے میں لا دیا ہے۔ سپریم کورٹ نے یوگ کیمپ پر ٹیکس ادائیگی کے ٹریبونیل کے اس فیصلے کو برقرار رکھا ہے، جسے پتنجلی یوگ پیٹھ ٹرسٹ ...

بھٹکل سنڈے مارکیٹ: بیوپاریوں کا سڑک پر قبضہ - ٹریفک کے لئے بڑا مسئلہ 

شہر بڑا ہو یا چھوٹا قصبہ ہفتہ واری مارکیٹ عوام کی ایک اہم ضرورت ہوتی ہے، جہاں آس پاس کے گاوں، قریوں سے آنے والے کسانوں کو مناسب داموں پر روزمرہ ضرورت کی چیزیں اور خاص کرکے ترکاری ، پھل فروٹ جیسی زرعی پیدوار فروخت کرنے اور عوام کو سستے داموں پر اسے خریدنے کا ایک اچھا موقع ملتا ہے ...

نئی زندگی چاہتا ہے بھٹکل کا صدیوں پرانا 'جمبور مٹھ تالاب'

بھٹکل کے اسار کیری، سونارکیری، بندر روڈ، ڈارنٹا سمیت کئی دیگر علاقوں کے لئے قدیم زمانے سے پینے اور استعمال کے صاف ستھرے پانی کا ایک اہم ذریعہ رہنے والے 'جمبور مٹھ تالاب' میں کچرے اور مٹی کے ڈھیر کی وجہ سے پانی کی مقدار بالکل کم ہوتی جا رہی ہے اور افسران کی بے توجہی کی وجہ سے پانی ...

بڑھتی نفرت کم ہوتی جمہوریت  ........ ڈاکٹر مظفر حسین غزالی

ملک میں عام انتخابات کی تاریخوں کا اعلان ہونے والا ہے ۔ انتخابی کمیشن الیکشن کی تاریخوں کے اعلان سے قبل تیاریوں میں مصروف ہے ۔ ملک میں کتنے ووٹرز ہیں، پچھلی بار سے اس بار کتنے نئے ووٹرز شامل ہوئے، نوجوان ووٹرز کی تعداد کتنی ہے، ایسے تمام اعداد و شمار آرہے ہیں ۔ سیاسی جماعتیں ...

مالی فراڈ کا نیا گھوٹالہ : "پِگ بُوچرنگ" - گزشتہ ایک سال میں 66 فیصد ہندوستانی ہوئے فریب کاری کا شکار۔۔۔۔۔۔۔(ایک تحقیقاتی رپورٹ)

ایکسپوژر مینجمنٹ کمپنی 'ٹینیبل' نے ایک نئی رپورٹ جاری کی ہے جس میں یہ انکشاف کیا گیا ہے کہ پچھلے سال تقریباً دو تہائی (66 فیصد) ہندوستانی افراد آن لائن ڈیٹنگ یا رومانس اسکینڈل کا شکار ہوئے ہیں، جن میں سے 81 فیصد کو مالی نقصان کا سامنا کرنا پڑا ہے۔

مسلمان ہونا اب اس ملک میں گناہ ہے۔۔۔۔۔۔۔۔از: ظفر آغا

انہدام اب ایک ’فیشن‘ بنتا جا رہا ہے۔ یہ ہم نہیں کہہ رہے بلکہ یہ مدھیہ پردیش ہائی کورٹ کا بیان ہے۔ بے شک مکان ہو یا دوکان ہو، ان کو بلڈوزر کے ذریعہ ڈھا دینا اب بی جے پی حکومت کے لیے ایک فیشن بن چکا ہے۔ لیکن عموماً اس فیشن کا نشانہ مسلم اقلیتی طبقہ ہی بنتا ہے۔ اس کی تازہ ترین مثال ...

کیا وزیرمنکال وئیدیا اندھوں کے شہر میں آئینے بیچ رہے ہیں ؟ بھٹکل کے مسلمان قابل ستائش ۔۔۔۔۔ (کراولی منجاو کی خصوصی رپورٹ)

ضلع نگراں کاروزیر منکال وئیدیا کا کہنا ہے کہ کاروار میں ہر سال منعقد ہونےو الے کراولی اتسوا میں دیری اس لئے ہورہی ہے کہ  وزیرا علیٰ کا وقت طئے نہیں ہورہاہے۔ جب کہ  ضلع نگراں کار وزیر اس سے پہلے بھی آئی آر بی شاہراہ کی جدوجہد کےلئے عوامی تعاون حاصل نہیں ہونے کا بہانہ بتاتے ہوئے ...