مینگلور: دلت خاتون کی عصمت ریزی پر بی جے پی کی خاموشی پر کانگریس نے اُٹھائے سوال؛ اگر خاطی دوسرے فرقہ کے ہوتے تو اُس وقت بھی بی جے پی خاموش رہتی ؟
منگلورو،18؍اکتوبر (ایس او نیوز) اتر پردیش میں ایک نوجوان خاتون کی عصمت ریزی کی گئی تو نہ وزیراعلیٰ یوگی ادتیہ ناتھ نے آواز اُٹھائی نہ ہی کسی بی جے پی لیڈر نے کوئی کارروائی کی۔ بی جے پی نے خاطیوں کے خلاف ایک لفظ نہیں کہا کیوں کہ عصمت ریزی کرنے والے بھی ہندو ہیں۔ اگر حملہ آور یا قاتل کسی دوسرے فرقہ کے ہوتے تو بی جے پی آواز اٹھاتی۔ بی جےپی دوسرے فرقہ کو تنقید کا نشانہ بنانے کے لئے موقع ڈھونڈتی رہتی ہے۔ جب سوامی اگنی ویش پر حملہ کیا گیا اور خاطیوں نے ان کا زعفرانی لباس پھاڑ دیا تو کسی بی جے پی لیڈر نے نہ آواز اٹھائی اور نہ ان کے لئے انصاف کی جدوجہد کی۔ کیونکہ بی جے پی صرف دوسری ذات والوں کا معاملہ ہونے پر آواز اُٹھاتی ہے یہ بات دکشن کنڑا ضلع کانگریس کمیٹی کے صدر ہریش کمار نے بتائی۔
مینگلور میں اخبارنویسوں سے گفتگو کرتے ہوئے ہریش کمار نے ۔بی جے پی کو ہندو توا اور سماجی انصاف سیکھنے کے لئے متھن رائے سے سیکھنے کی رائے دی اور کہا ضلع کے یوتھ کانگریسی صدرھن رائے کے خلاف ایف آئی آر درج کرنے پر یوگی آدتیہ ناتھ کے خلاف سخت ناراضگی کا اظہار کیا۔ ہریش کمار نے یو پی کے چیف منسٹر یوگی آدتیہ ناتھ پر تنقید کے لئے ضلع کے یوتھ کانگریس صدر متھن رائے کے خلاف ایف آئی آرز کے اندراج اور نفرت کی سیاست کرنے پر بی جے پی کو سخت تنقید کانشانہ بنایا۔ اور بی جے پی پر ذاتوں کے درمیان خلش پیدا کرنے نفرت کی سیاست کی نئی نچلی سطح تک پہنچنے کا الزام عائد کیا۔ انہوں نے کہا کہ سیاستدانوں کو اپنی ذات اور مذہب کو سیاسی نظریات سے الگ رکھنا چاہئے۔ سیاست میں داخل ہوتے ہی سیاستدانوں کو کسی بھی ذات یا مذہب کے تیئں تعصب ظاہر نہیں کرنا چاہئے۔
آدتیہ ناتھ پر انہوں نے کہا کہ زعفرانی لباس میں ملبوس افراد کا سیاست میں داخلہ غلط نہیں ہے، مگر انہیں سیاست میں اپنی غلط کاریوں کی پردہ پوشی کے لئے زعفرانی رنگ کا استعمال نہیں کرنا چاہئے۔ جمہوریت میں عوام کو وزیر اعظم ، چیف منسٹرس اور ارکان اسمبلی پر تنقید کرنے کا حق ہے۔ بطور چیف منسٹر یوگی آدتیہ ناتھ کو بھی تنقیدوں کا سامنا کرنا چاہئے اور عوام کے ذمہ دار نمائندے کی طرح اس پر ردعمل ظاہر کرنا چاہئے۔
ہریش کمار نے کہا کہ بی جے پی سیاسی فائدے کے لئے ذات پات کا استعمال کر کے نفرت کی سیاست کررہی ہے اور وہ غریبوں اور دلتوں کی زندگیوں کے تیئں احترام ظاہر نہیں کررہے ہیں۔ کانگریس نفرت کی سیاست کے خلاف آواز بلند کرتی رہی ہے۔
متھن رائے نے بھی یوگی آدتیہ ناتھ کے خلاف لب کشائی کی۔ بطور سیاستداں متھن رائے کو چیف منسٹر پر تنقید کا حق ہے۔ اگر وہ تنقید قبول نہیں کرسکتے تو وہ سیاستداں بننے کےلئے موزوں نہیں ہیں۔
واضح رہے کہ یوگی آدتیہ ناتھ کے خلاف 52 کیسس تھے جن سے انہوں نے چیف منسٹر بننے کے بعد دستبرداری اختیار کرلی ۔انہوں نے کہا کہ بی جے پی کو ہندو توا سیکھنے متھن رائے کے نقش قدم پر چلنا چاہئے۔ متھن رائے ہندو ثفافت اور روایت کے تحفظ میں پیش پیش ہیں۔ وہ گئو دان (گایوں کا عطیہ) اور پلی نالیکے (ٹائیگر ڈانس) پروگرامس کے ذریعہ نہ صرف ہمارے ضلع اور ملک کی ثقافت کو برقرار رکھ رہے ہیں بلکہ لوگوں کی مدد بھی کررہے ہیں۔
سابق ایم سی سی میئر ہری ناتھ جو اس موقع پر موجود تھے نے متھن رائے کے خلاف جوگی کمیٹی کے صدر کرن کی شکایت کی مذمت کی۔ کرن جو خود ساختہ صدر ہیں، انہیں کچھ نہیں معلوم۔ اس پر سے انہوں نے جوگی برادری کی توہین کے لئے متھن رائے کے خلاف شکایت درج کروائی۔ غالباً سیاسی دباؤ کی وجہ سے انہوں نے ایسا کیا۔ جب مقامی بی جے پی قائدین نے سرکٹ ہاؤس کے قریب جوالا ناتھ کے نام پر بورڈ ہٹایا تو جوگی طبقہ نے آواز نہیں اٹھائی؟
انہوں نے کرن کو اس مسئلہ پر بحث کرنے کا چیلنج کیا۔ دریں اثناء سابق رکن اسمبلی محی الد ین باوا جو وہاں موجود تھے نے کلشیکر کے سابق تعلقہ پنچایت رکن پر حملہ کے ملزم کی گرفتار ی کا مطالبہ کیا۔