ریاست کرناٹک کو بھگوارنگ میں رنگنے کی کوشش
بنگلورو،10 جنوری(ایس او نیوز) 2014 کے لوک سبھا انتخابات میں زبردست کامیابی کے بعد راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) اوربھارتیہ جنتاپارٹی (بی جے پی) کے حوصلے ابھی تک اس لئے بلند ہیں کہ ریاستوں کے اسمبلی اور کارپوریشن انتخابات میں بھی انہوں نے کامیابی حاصل ہے ۔لیکن جس مقصد کے تحت ہندوستان کے باشندوں نے انہیں فتح سے ہمکنارکیا تھا، وہ مقصد کافور ہوتا نظر آرہا ہے ۔
بھگوارنگ کشمیرسے کنیا کماری تک پھیلانے کی کوشش ہورہی ہے ۔ لکھنؤ کے حج ہاؤز کو بھی بھگوا رنگ میں رنگ دیا گیا لیکن زبردست تنقید اورمذمت کے بعد اسے ہٹالیا گیا۔اسی طرح تحفظ گائے کے نام پر گزشتہ 3 برسوں سے کئی مسلم نوجوانوں اور دلتوں کو موت کی نیند سلا دیا گیا ۔ ملک میں بڑھتی ہوئی مذہبی منافرت، گؤ رکشا کے نام پر ہجومی تشدد، اقلیتوں میں خوف ودہشت کاماحول اورایک طبقے کی بڑھتی ہوئی غنڈہ گردی نے جمہوریت کو تارتارکردیا ہے جہاں اب ووٹ دینے والے باشندگان سنجیدگی سے غور وفکر کرنے پر مجبور ہیں ۔ دادری کے محمد اخلاق، ہریانہ کے پہلو خان اور جنید، جھارکھنڈ کے علیم الدین عرف اصغر انصاری اور کرناٹک میں منگلورو ضلع کے بشیر احمد کی درد ناک موت نے انسانیت کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے ۔ ان تمام خوفناک حالات کے باوجود بی جے پی لیڈر اپنے فرقہ پرستانہ بیانات سے پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں ہیں۔
گزشتہ ایک ہفتہ قبل، شہر گلستان بنگلور میں ہندوتوا چہرہ اور اترپردیش کے وزیراعلیٰ آدتیہ ناتھ یوگی نے جس طرح کی ہندوتوا کے فروغ کی وکالت اورگائے کے گوشت کے نام پر جس طرح کی زہرافشانی کی ہے وہ پرامن فضا کو مکدر کرتی ہے ۔ اسی طرح راجستھان کے کابینی وزیر جسونت یادو کا ایک ویڈیو کلپ سامنے آیا ہے جس میں وہ مذہب کی بنیادپر پارٹیوں کو ووٹ دینے کی اپیل کرتے ہوئے نظر آرہے ہیں ۔ ریاست راجستھان کے ضلع الور لوک سبھا ضمنی انتخابات میں بی جے پی کے ٹکٹ سے امیدوار جسونت ویڈیو میں کہہ رہے ہیں کہ ہندو بی جے پی کو ووٹ دیں اور مسلمان کانگریس کو ۔ اس سے یہ واضح ہوجائے گا کہ لوگ کسے زیادہ چاہتے ہیں ۔ اس کے علاوہ ایک سنسنی خیز رپورٹ یہ بھی سامنے آئی ہے کہ کرناٹک میں آئندہ دو تین ماہ کے اندر ہونے والے اسمبلی انتخابات کیلئے بی جے پی نے فرقہ پرستی کا بیج بونا شروع کردیا ہے ۔ بی جے پی کے قومی صدر امیت شاہ نے بھی ہندوؤں کے ووٹ کو اپنے حق میں کرنے کے لئے کوششیں شروع کردی ہیں ۔ امیت شاہ نے کرناٹک کی کانگریس حکومت کو ہندو مخالف قرار دیتے ہوئے کہا کہ کرناٹک کی کانگریس حکومت ووٹ بینک کی سیاست کرتی ہے وہ ایک ہندو مخالف سرکار ہے کیونکہ اس نے سوشیل ڈیموکریٹک پارٹی آف انڈیا (ایس ڈی پی آئی) کے خلاف تمام معاملات کو واپس لے لیا ہے ۔ اے این آئی ایجنسی نے امیت شاہ کے بیان کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا کہ یس ڈی پی آئی ہندوستان مخالف تنظیم ہے جس سے سیاسی حلقوں میں افراتفری مچ گئی ہے ۔اس پر جواب دیتے ہوئے ریاستی وزیر اعلیٰ سدارامیا نے کہا ہے کہ بی جے پی، آر ایس ایس اوربجرنگ دل انتہا پسندوں کو فروغ دینے والی پارٹیاں ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ اس طرح کی سیاست سے کرناٹک کی پرامن فضا خراب ہوتی جارہی ہے ۔ ان کی حکومت ’’ایسے امن مخالفین کو کبھی برداشت نہیں کرے گی۔ہمارے لئے ریاست اورعوام کی سالمیت دونوں ضروری ہیں ۔ ایسے میں جو بھی اس کے خلاف قدم اٹھائے گا ، ہم اسے نہیں بخشیں گے ۔اس کا تعلق چاہے بجرنگ دل سے ہو یا ایس ڈی پی آئی سے ‘‘ ۔قارئین کو یاد ہوگا کہ گجرات انتخابات کے دوران پہلے مرحلہ میں بی جے پی کو کم ووٹ پڑے تھے ۔ اس کے بعد وزیراعظم نریندرمودی سمیت متعدد بی جے پی لیڈروں نے فرقہ پرستانہ بیانات شروع کردئے ۔ مودی نے حزب مخالف کو گھیرنے اور ہندو ووٹوں کو یکجا کرنے کے لئے کانگریس کے ایک مسلم اعلیٰ قائد کو پاکستان سے جوڑ دیا تو سابق وزیراعظم اور ماہر سیاست منموہن سنگھ اور سابق فوجی سربراہ پر گجرات میں حکومت کی تبدیلی کی سازش رچنے کا الزام لگادیا ۔ وزیر اعظم کے یہ وہ بیانات تھے جنہوں نے مسلمانوں کے خلاف کام کررہی تنظیموں یعنی ہندو انتہا پسندوں کو یکجا کردیا۔ اس کا فائدہ بی جے پی کو صد فی صد ہوا ۔آج کرناٹک میں بھی اسی طرح کا ماحول بنانے کی کوشش کی جارہی ہے ۔ فرقہ پرستانہ بیانات لوگوں کے ذہنوں میں ڈالے جارہے ہیں ۔ایسے میں سکیولر پارٹیوں کا اتحاد وقت کی اہم ترین ضرورت بن گیا ہے ۔ کانگریس، جنتادل سیکولر (جے ڈی ایس) ایس ڈی پی آئی جیسی پارٹیوں کو اب بہت ہی سنجیدگی کے ساتھ سرجوڑ کر بیٹھنا ہوگا۔ ریاست کرناٹک کی پرامن فضا کی بقاء اور جمہوریت کا تحفظ اسی میں ہے کہ بھگوا رنگ کے خلاف لوگوں کو بیدارکیا جائے۔
(بشکریہ: روزنامہ سالاربنگلورو)