کانپور انکاؤنٹر پر بائیوپک ، وکاس دبے کی اہلیہ کا نوٹس ، آئین کیخلاف قرار دیا
لکھنؤ ،17؍جنوری (آئی این ایس انڈیا) پروڈیوسر اور ہدایتکار موہن ناگر جو کانپور انکاؤنٹر بکروں واقعہ اور بدنام زمانہ وکاس دوبے کے متعلق ٖ بائیوپک بنا رہے ہیں ، کو وکاس دبے کی اہلیہ کو قانونی نوٹس بھجوایا ہے۔ نوٹس میں وکاس دوبے کی زوجہ رچا دوبے نے اس بایوپک کو آئین ہند کے آرٹیکل 21 کی خلاف ورزی قرار دیا ہے۔
موصولہ اطلاع کے مطابق یہ بایوپک ’ہنک(HANAK)‘ کے نام سے بنائی جارہی تھی۔ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کے جنرل سکریٹری پربھا شنکر مشرا اور ایڈووکیٹ رشبھ راج نے موہن ناگر کو ایک نوٹس بھجوایا ہے جس میں مطالبہ کیا گیا ہے کہ بایو پک سے فوری طور پرقدم روک لیا جائے۔ انہوں نے الزام لگایا ہے کہ متاثرہ افراد کے اہل خانہ کی اجازت کے بغیر فلم تیار کی جارہی ہے ،اور یہ افواہ پھیلائی گئی ہے کہ وکاس دبے کی اہلیہ رچا نے فلم کو 50 لاکھ روپے میں فلم کی نمائش اور کتاب کی اشاعت کے حقوق فروخت کیا ہے ۔ خیال رہے کہ دستور ہند کے آرٹیکل 21 میں کہا گیا ہے کہ قانون کے ذریعہ قائم کردہ طریقہ کار کے سوا کسی بھی شخص کے اپنے زندگی کے حقوق اوراسے ذاتی آزادی سے محروم نہیں کیا جاسکتا۔
قابل ذکر بات یہ ہے کہ 2002 کی 86 ویں آئینی ترمیم کے ذریعہ پرائمری سطح پر حق تعلیم کو آرٹیکل 21 اے کے تحت بنیادی حق بنایا گیا ہے۔کانپور انکاؤنٹر کیس اور وکاس دبے پر بائیوپک بننے کی خبر گذشتہ سال دسمبر میں آئی تھی۔ اس وقت یہ انکشاف ہوا تھا کہ مدھیہ پردیش کے دارالحکومت بھوپال کے قریب منڈی دیپ میں ’ہنک ‘کے نام سے شوٹنگ جاری ہے۔ یہ بایوپک ممبئی کے دی پروڈکشن ہیڈ کوار ٹر‘کے بینر تلے بنائی جارہی ہے۔ وکاس دبے کو 9 جولائی 2020 کو ڈرامائی انداز میں اجین سے گرفتار کیا گیا تھا۔ اسی دن 10 جولائی 2020 کو یوپی پولیس نے ایک انکاؤنٹر میں اسے ہلاک کردیا۔ وکاس دبے کیس بہت مشہور رہا، سوشل میڈیا پر مہینوں ٹرول ہوتا رہا ۔وہیں یہ بھی بتایا جارہا ہے کہ یہ بایو پک کتاب’ میں کانپور والا‘ پر مبنی ہے۔ یہ کتاب مردلے کپل نے لکھی ہے۔ کتاب وکاس دبے کی کہانی پر مبنی ہے ۔
ایڈوکیٹ پربھاشنکر مشرا نے کہا کہ کتاب’میں کانپور والا‘ کے مصنف ، اور ویب سیریز بنانے والے فلم ساز نے غلط اور من گھڑت حقائق پیش کرکے اس کے مؤکل کی شبیہ مسخ کی ہے ۔ انہوں نے ’ہنک ‘فلم کے پروڈیوسر موہن ناگر اور ہدایتکار نیز ’میں کانپور والا‘ کے مصنف مردل کپل سمیت ایک درجن سے زائد افراد کو قانونی نوٹس بھیجے ہیں۔ نیز نوٹس کی ایک کاپی وزارت داخلہ امور اور وزارت اطلاعات و نشریات کو بھی بھیجی گئی ہے، اس میں کہا کہ اگر اس کی اشاعت اور نشریات پر پابندی نہیں لگائی گئی ،تو وہ عدالت کا سہارا لے گا۔