بہار کے وزیراعلیٰ نتیش کمار کا ایک اور دھماکہ، ریزرویشن کا دائرہ 50سے 75فیصد کرنے کی دی تجویز
پٹنہ 8/نومبر (ایس او نیوز /ایجنسی ) بہار کے وزیر اعلیٰ نتیش کمار نے قانون ساز اسمبلی میں دھماکے دار اعلان کرتے ہوئے کہا کہ بہار میں ریزرویشن کا دائرہ 50 سے بڑھا کر 65 کرنے کی تجویز پیش کی گئی ہے- ای ڈبلیو ایس کے 10 فیصد کو شامل کریں تو ریزرویشن کو 75 فیصد کرنے کی تجویز دی گئی ہے-
نتیش کمار نے کہا کہ انہوں نے ذات پرمبنی گنتی کی بنیادپر سرکاری ملازمتوں میں ریزرویشن کا دائرہ بڑھا کر۷۵؍فیصد کرنے کی تجویز پیش کی ہے۔ ۔ انہوں نے کہا کہ ذات پر مبنی گنتی کی رپورٹ سے ریاست کی غربت ظاہر ہوتی ہے۔ اگر مرکزی حکومت بہار کو خصوصی ریاست کا درجہ دیتی ہے تو یہاں کی غریبی جلد ہی دور ہو جائے گی۔وزیراعلیٰ نے کہا کہ اعلیٰ ذات کے غریبوں کے لئے۱۰؍فیصد ریزرویشن پہلے کی طرح رہے گا۔ پسماندہ طبقات کی خواتین کو ملنے والا تین فیصد ریزرویشن پسماندہ طبقات کے لئے پہلے سے جاری ریزرویشن میں ایڈجسٹ کیا جائے گا کیونکہ ریاستی حکومت پہلے ہی خواتین کو ۳۵؍فیصد ریزرویشن دے رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ وہ ریزرویشن میں ان تبدیلیوں کے لئے قانون بھی بنا سکتے ہیں۔
اگر اس تجویز پر عمل ہوتا ہے تو پسماندہ اور انتہائی پسماندہ طبقے کو۲۷؍کے بجائے ۴۳؍ فیصد ریزرویشن ملے گا۔ یاد رہے کہ درج فہرست ذاتوں اور قبائل کو ان کی آبادی کے تناسب سے ریزرویشن ملتا ہے۔ ۲۰۱۱ءکی مردم شماری کے مقابلے میں ان کی آبادی میں اضافہ ہوا ہے۔ اس لئے درج فہرست ذاتوں کو۱۶؍کے بجائے ۲۰؍ فیصد ریزرویشن ملے گا اور درج فہرست قبائل کو ایک کے بجائے دو فیصد کوٹہ ملے گا۔
نتیش کمار نے کہا کہ اگر ان کی تجویز پر عمل ہوتا ہے تو سرکاری سروس میں کل۲۵؍فیصد اسامیاں اوپن کٹیگری کے ذریعہ پوری کی جائیں گی۔ حکومت ۶؍ہزارروپے تک ماہانہ آمدنی والے ۹۴؍لاکھ سے زیادہ خاندانوں کو اپنےروزگار کے لئے۲؍لاکھ روپے دے گی۔ اس کےعلاوہ ۶۷؍ ہزار سے زائد بے زمین خاندانوں کو فی خاندان ۶۰؍ہزار روپے کے بجائے ایک لاکھ روپے زمین کے لئےدے گی۔ اس پرڈھائی لاکھ کروڑ روپے خرچ ہوں گے۔ اسے پانچ سال میں مکمل کیا جائے گا۔ انہوں نے غربت کے خاتمے کے لئے مزید کئی اقدامات کا اعلان کیا۔
وزیراعلیٰ نے کہا کہ انصاف کے ساتھ ترقی ان کا عزم ہے۔ وہ بلا تفریق اس پر چل رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ذات پر مبنی گنتی کی رپورٹ میں یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ کچھ پنچایتوں میں تعلیم کی حالت ٹھیک نہیں ہے۔ حکومت ایسی پنچایتوں میں تعلیم کے لئے خصوصی مہم چلائے گی۔ وزیراعلیٰ نے بی جے پی اراکین پر زور دیا کہ وہ مرکزی حکومت سے بات کریں اور اگلی قومی مردم شماری میں ذاتوں کی گنتی کو شامل کرائیں اس میں سبھی کا فائدہ ہے۔ انہوں نے ایوان کو بتایا کہ کس طرح انہیں سابق صدر گیانی زیل سنگھ سے ذاتوں کی گنتی کی تحریک ملی۔ وہ پہلی بار ۱۹۸۹ء میں ممبرپارلیمنٹ بن کردہلی گئے تھے۔ گیانی زیل سنگھ نے کہا تھا کہ ملک کی ترقی کے لئے ذاتوں کی گنتی ضروری ہے۔ انہوں نے اس وقت کے وزیر اعظم وی پی سنگھ سے بھی درخواست کی تھی لیکن، تب تک۱۹۹۱ءکی مردم شماری کا عمل شروع ہو چکا تھا۔ نتیش کمارنے اس بات پر خوشی کا اظہار کیا کہ بہار اسمبلی میں موجود سبھی پارٹیوں نے ذات پر مبنی گنتی میں تعاون کیا۔ ذات پرمبنی گنتی کے دوران درپیش عدالتی رکاوٹوں پر گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے پٹنہ ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ کے مثبت موقف کی ستائش کی۔
دوسری طرف ذات پر مبنی گنتی کی رپورٹ مع اقتصادی سروے اسمبلی میں پیش کردی گئی ۔ اس رپورٹ سے کئی اہم باتیں سامنے آئی ہیں۔ رپورٹ سے یہ واضح ہو گیا کہ کس ذات کی کتنی آبادی معاشی اور تعلیمی لحاظ سے کتنی مضبوط یا کمزور ہے۔واضح ہوکہ سروے میں آمدنی کا سب سے قابل اعتماد ذریعہ سرکاری نوکری ہے۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ کس ذات یا طبقے کے کتنے لوگ سرکاری ملازمتوں میں ہیں اور جن کی سماجی حیثیت بھی اچھی ہے۔ اعداد و شمار کےمطابق بہار کی کل ۱۳ء۰۷؍ کروڑکی آبادی میں صرف ۱ء۵۷؍ فیصد کے پاس ہی سرکاری ملازمت ہے۔ ان میں جنرل کیٹیگری ۳ء۱۹؍ فیصد افرادکی تعدادکے ساتھ سب سے آگے ہے جبکہ پسماندہ طبقے کے پاس ۱ء۷۵؍ فیصد، انتہائی پسماندہ طبقے کے پاس ۰ء۹۸؍ فیصد، درج فہرست ذات کے پاس ۱ء۱۳؍ فیصد، درج فہرست قبائل کے پاس ۱ء۳۷؍ فیصداور دیگر ذاتوں کے پاس ۲ء۰۴؍ فیصد سرکاری ملازمت ہے۔ پسماندہ طبقے میں کرمی ذات سرکاری نوکری میںغالب ہے۔ ان کی تعداد کم ہے لیکن فیصد کے لحاظ سےسرفہرست ہے۔ سرکاری ملازمتوں میں یادوئوں کی تعداد سب سے زیادہ ہے لیکن کرمی ذات کا فیصد یادوئوں سے دگنا ہے۔ سرکاری ملازمتوں میں یادو ذات کی شراکت ۱ء۵۵؍ فیصد ہے جبکہ کرمیوں کی شراکت ۳ء۱۱؍فیصد ہے۔
کل پسماندہ ذاتوں میں سے۶؍ لاکھ۲۱؍ ہزار ۴۸۱؍ افراد سرکاری ملازمتوں میں ہیں جن کی شرح ۱ء۷۵؍ فیصد ہے۔ سرکاری نوکری کے معاملے میں جنرل زمرے میں بھومیہاروں کی تعدادسب سے زیادہ ہے لیکن آبادی کے تناسب میں کائستھ ذات سب سے اوپر ہے۔ جنرل زمرہ میں ماہانہ ۵۰؍ہزارسے زائد کی آمدنی والوں میں کائستھ سب سے آگے ہیں۔ اعداد و شمار کے مطابق کائستھوں میں ۲۴ء۴۸؍ فیصد خاندان ایسے ہیں جن کی ماہانہ آمدنی ۵۰؍ ہزار روپے سے زیادہ ہے۔
عام زمرے کی ذاتوں میں بھومیہار ذات دوسرے نمبر پر ہے جس کی ماہانہ آمدنی۵۰؍ہزار روپے سے زیادہ ہے۔ بھومیہاروں کا یہ فیصد ۱۳ء۹۷؍ فیصد ہے۔ راجپوت ذات تیسرے نمبر پر ہے۔ اس ذات کے۱۱ء۲۴؍ فیصد خاندان ایسےہیں جن کی ماہانہ آمدنی ۵۰؍ہزار روپے سے زیادہ ہے۔ برہمن ذات چوتھے نمبر پر ہے۔ اس ذات کے۱۰ء۵۷؍ فیصد خاندان ۵۰؍ ہزار سے زائد آمدنی رکھتے ہیں۔ اعلیٰ ذات کے مسلمانوں میں سید ۱۱ء۸۴؍فیصد ، پٹھان ۴ء۹۴؍فیصد اور شیخ ۲ء۹۴؍ فیصد اس زمرے میں شامل ہیں۔عام زمرے میں ۲۰؍ ہزار سے۵۰؍ ہزارروپے تک ماہانہ آمدنی والوں میں بھی ۲۴ء۴۱؍ فیصد کے ساتھ کائستھ ذات سب سے آگے ہے جبکہ راجپوت اور بھومیہار ذاتیں بالترتیب دوسرے اور تیسرے نمبر پر ہیں۔ اس زمرے کے مسلمانوں میں سید خاندانوں کی تعداد۱۹ء۹۷؍ فیصد ہے۔