’’ مجھے بہت غرورتھا اپنی بائک پر، تیز رفتاری پر، توازن پر ، سمجھتاتھا کہ میں بائک چلانے میں ماہرہوں، جتنی بھی تیز رفتاری سے باءک چلاءوں مجھے پورا یقین تھا کہ اپنی بائک پر میرا پورا کنڑول ہے ،کراس کٹنگ میں بھی میرا توازن نہیں بگڑتا، جب چاہے تب میں اپنی بائک کو اپنی پکڑ میں لاسکتاہوں۔ لیکن جب میرا حادثہ ہوا تو ہوش ٹھکانے آگئے ، کا ش ! میں وہ لمحہ کنڑول کر سکتا، میری ماں کی آنکھوں میں آنسو رکنے کا نام نہیں لے رہے تھے، بھائی اور گھروالے کافی پریشان تھے، سچ پوچھئے تووہی سب سے زیادہ درد میں مبتلا تھے۔ حادثے سے گھروالے ، والدین سب پریشانیوں اور تکالیف کو جھیلتے ہیں، ہمارا کیا ، ہمیں صرف دردہوتاہے ، اسپتال میں داخل ہوجاتےہیں، اصل مصیبت تو گھروالوں کو ہوتی ہے ، میں تمام نوجوانوں اور دیگر افراد سے اپیل کرتاہوں کہ اپنے توانا جسم کو یوں جذبات کی لئے میں بہا لے نہ جاؤ اور گھروالوں کے لئے مصیبت کا باعث نہ بنو۔ میں جب بائک حادثہ کا شکار ہوا تو کچھ دیر کے لئے یہ افواہیں بھی گردش کررہی تھیں کہ میری موت ہوگئی۔ مگر اللہ کی مرضی ، صرف اللہ کی مرضی اور عنایت تھی کہ دوبارہ مجھے زندگی ملی۔آج جس منز ل کو چھوناچاہتاتھا وہ تو نہیں ہوسکا، لیکن اب میں اپنے ساتھی نوجوانوں اور بچوں کو جم کی تربیت دے کر ان میں اپنی خوشی ڈھونڈرہاہوں‘‘۔
ہر گھڑی آتی ہے کانوں میں یہ آواز جرس کون دنیا سے سفر کرتا ہے ساعت دیکھ کر
کنداپور میں بائک حادثے کا شکار ہو کر پیروں سے معذور ہونے کے ایک سال بعد اپنی کہانی بیان کرنےو الے وسیم اکرم کی یہ کہانی ہمیں ایک ایسے موڑ پر لاکھڑا کرتی ہیں جہاں ہمیں غور وفکر کرنا لازمی ہوجاتاہے۔ یہ سب ایک طرف تو دوسری طرف ایسے کچھ دلدوز واقعات بھی ہیں جن کو بھلا ئے نہیں بھول سکتے۔ شہر بھٹکل کے مثالی رہنما تنظیم کے صدر مرحوم بدرالحسن کا حادثہ ،بیندور کے ایک حادثے میں شہر بھٹکل کے ایک ہی خاندان کے 11افراد کا جاں بحق ہونااور منگلورو کے بجپے ہوائی اڈے پر وقوع پذیر ہونےو الا بھیانک حادثہ دل دہلادیتاہے۔ اس طرح دن بدن سڑک حادثات کی بڑھتی ہوئی شرح لمحہ فکریہ ہے ، جس کے ذریعے لاتعداد قیمتی جانیں تسلسل کے ساتھ لقمہ اجل بن رہی ہیں، اس کے علی الرغم شہر کے موقر ادارے ، تنظیمیں کئی سارے پروگرامات کےذریعے بیداری لانے کی کوشش کررہے ہیں صورت حال میں کوئی بہتری نظر نہیں آرہی ہے۔ اس سلسلے میں ساحل آن لائن کی وڈیونیوزکی ’’خبرخاص، نظر خاص ‘‘ کی 6 ویں خصوصی پیش کش نے سڑک حادثات پر غائر نظر ڈالتے ہوئے ہماری آنکھیں کھولنی کی کوشش کی ہے، اس ٹیم نے سڑک حادثات کے متعلق سرکاری محکہ جات اور دیگر ذرائع سے جو اعداد و شمارات جمع کئے ہیں اس کو دیکھیں تو رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں۔ مزید کچھ کہنے سے پہلے ایک نظر ڈال لیں تو حالات کو سمجھنے میں آسانی ہوگی۔ سال 2014میں قومی شاہراہ پر 41 سڑک حادثات ہوئے ، جس میں 6ہلاک اور 52زخمی ، ریاستی شاہراہ پر 2حادثات 2زخمی اور دیگر جگہوں پرہوئے 12حادثات میں 13زخمی ہوئے ہیں،سال 2015میں قومی شاہراہ پر 37حادثات میں 5ہلاک اور 45زخمی ،سال 2016میں قومی شاہراہ پر 36حادثات ہوئے جس میں 5ہلاک اور 35زخمی ہوئے ہیں،کلی طورپر سال 2014سے 2016تک کل 139 حادثات ہوئے جس میں 21جانیں ہلاک اور 181لوگ زخمی ہوئے ہیں۔ ان اعداد و شمارات پر ایک سرسری نظر ڈالیں تو یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ قومی شاہراہ پر ہی سب سے زیادہ حادثات اور جانیں تلف ہوئی ہیں۔ عام طورپر قومی شاہراہ کی تعمیر کے لئے یہی وجہ بتائی جاتی ہے کہ نقل وحمل کا انتظام مناسب اور ٹھیک ٹھاک ہو، لیکن اس کے باوجود یہ سب ہورہاہے تو سمجھ میں آجانا چاہئے کہ اور بھی وجوہات ہیں جن سے غفلت ہی ان حادثات کا موجب بن رہی ہے۔
انسان حادثات سے کتنا قریب ہے تو بھی ذرا نکل کے کبھی اپنے گھر سے دیکھ
بھٹکل سب ڈویزن میں دوپہیہ والی ((Two Wheelerبائک ، اسکوٹر وغیرہ کو ملا کر کل 98930سواریاں ہیں تو فوروھیلر سواریوں کی تعداد 10ہزار کے قریب ہےاس میں خاص کر آٹورکشا کی تعداد 3668ہے۔ اس طرح علاقہ میں کل 116787سواریاں چہل پہل کرتی رہتی ہیں، وہیں یہ ماناجاتاہے کہ اترکنڑا ضلع میں سب سے زیادہ سواریاں بھٹکل میں ہیں۔ اتنی ساری سواریاں جب سڑک پر آتی ہیں تو ظاہر ہے کچھ نہ کچھ ہورہے گا، ایسے میں بچے ، نوجوان اپنی قلابازیاں دکھاتے ہوئے سڑک پر بجلی کی رفتار سے گزرتے ہیں تو جیب میں پتہ رکھنا لازمی ہوجاتاہے۔
کون چھوٹا ،کہاں کہاں چھوٹا راہ کے حادثات یاد کرو
سڑک حادثات سے بچنے کے ممکنہ راہوں کی تلاش کرتے ہوئے عوام کا رخ کرتے ہیں تو شکایتوں اور مسائل کا انبار پیش ہوتاہے، البتہ جتنے باشندوں، سماجی کارکنوں اور دیگر ذمہ دار وں نے ساحل آن لائن سے بات کی ان سب کی متفقہ رائے تھی کہ شہر میں ٹرافک پولس کا ایک مرکز قائم ہو، شمس الدین سرکل پر ٹرافک پولس کے ساتھ سگنل اور دیگر ضروری لوازامات کا انتظام کیا جائے۔ والدین بچوں کو گاڑی دینے میں احتیاط کریں، ہزار مرتبہ سوچ کر بچوں کو بائک تھمائیں، نوجوانوں میں تیز رفتاری کا جنون بے شمار حادثات کا باعث بن رہاہے، ایک ناسور بنتا جارہاہے ، پولس بغیر لائسنس کی تمام گاڑیوں کو ضبط کرلے ، رکشا، لاری وغیرہ کے ڈرائیوروں پر الزام دھرنے سے پہلے ان کی دقتوں کا بھی اندازا کرلیں، سڑکیں تنگ ہوتی جارہی ہیں ، سڑکوں کی حالت کافی خستہ ہے، ایسے میں جانیں ہلاک نہیں ہونگی تو پھر کیا ہوگا۔ اسی طرح شہر کے ایک معروف شاعر و بزرگ نے شمس الدین سرکل پر مختلف وجوہات کو بیان کرتے ہوئے کہاکہ والدین کا بچوں کو گاڑی دینا خود ان کو قتل کرنےکے برابر ہے ، اسی طرح دوسروں کی جان کو بھی خطرے میں ڈال رہے ہیں، سواری ایک سہولت ہے، کسی کو تکلیف دینا اچھی بات نہیں ہے، خود ان بچوں کو بھی نہیں معلوم کہ کیا ہونے والاہے ، کیسے جوان جوان بچے چلے گئے۔ والدین لاڈ وپیار میں اپنے بچوں کو بائک دیتے ہیں، جس کا وہ غلط استعمال کرتے ہیں، نہ اصولوں کی جانکاری اور نہ بزرگوں کی پرواہ ، بس اپنی دھن میں چلے جاتے ہیں۔
بالکل، یہاں جنہوںنے بھی اپنی آراء کا اظہار کیا ہے وہ سب کار آمد اور مفید ہیں، متعلقہ محکمہ جات کو اس طرف توجہ دینی چاہئے۔ شہر کے موقر اداروں کی طرف سے ٹرافک نظام کے متعلق ابتدائی قدم اٹھائے گئے ہیں اس کو جاری رکھتے ہوئے عملی اقدامات کے متعلق غور وفکر ضروری ہے، عام طورپر یہ مسئلہ زیر بحث رہتاہے کہ اکثر مرد حضرات بیرون شہر رہتے ہیں گھر کی عورتوں کو آناجانا ایک مسئلہ ہوتاہے تو مجبوری میں بچوں کو بائک دے کر سہولت حاصل کی جاتی ہے، مجبوری اپنی جگہ، لیکن نقصان ،گیا وقت پھر ہاتھ آتا نہیں،جان ہی چلی جائے تو کیا کریں ، ایک متبادل یہ بھی ہوسکتاہے کہ مہنگی گاڑیوں کو خریدنے کے بجائے خود گھر کے لئے ایک آٹورکشا خرید لیں ، جو گھروالوں کے لئے آسانی مہیا کرے گا ساتھ ایک بیروزگار خالی اوقات میں کچھ کمائی بھی کرلے گا، اس طرح کوئی مناسب انتظا م کی طرف قدم اٹھائیں تو بہترہوگا۔ اداروں کے لئے ضروری ہے کہ وہ سیاسی اور محکمہ جاتی سطح پر دباؤ ڈال کر شہر میں ٹرافک پولس مرکز کے قیام کو ممکن بنائیں اور شمس الدین سرکل پر مناسب ٹرافک انتظامات ہوں، اگر یہاں ٹرافک کنٹرول ہوتی ہے تو پورے شہرمیں ایک حد تک کنٹرول ہونے کے امکانات واضح ہیں۔
سفر کے ساتھ سفر کے نئے مسائل تھے گھروں کا ذکر تو رستے میں چھوٹ جاتا تھا