بھٹکل کی سڑکیں اور فُل ٹرافک جام : پیدل سواروں اور راہ گیروں کے لئے راستوں پر چلنا دشوار
بھٹکل:یکم اکتوبر(ایس او نیوز) دن بدن راکٹ کی رفتار سے ترقی کی طرف گامزن شہر بھٹکل میں فُل ٹرافک جام ، اتنا جام ہوتاہے کہ بعض دفعہ عورتوں، عمررسیدہ بزرگوں اور بچوں کو سڑک پار کرنا محال ہوجاتا ہے۔ سمندر کنارے کھڑے ہوکر دیکھیں تو حد نگاہ تک جس طرح پانی ہی پانی نظرآتاہے بالکل اسی طرح بھٹکل شہر میں جہاں دیکھو وہاں سواریوں کی بھرمار ہوتی ہے۔ ایک طرف بس اسٹانڈ، بالکل اس کے روبرو پرائیوٹ بس کی بھاگ دوڑ، آس پاس آٹو رکشا اسٹانڈ، سڑک کے اس پار ٹمپو اسٹانڈ ، ان سب جھمیلوں کے بیچ میں سے گزرنے والی قومی شاہراہ پر ممبئی ، گوا سمیت ملک کے مختلف مقامات کو جانے والی سوپر اسپیڈ سواریوں کا گذر، اس منظر سے ہی پتہ چل جاتاہے کہ شہر بھٹکل کی سڑکیں کتنی مصروف ہیں۔
سواریوں کا ذکرکریں تو بھٹکل میں ایک اندازے کے مطابق 500آٹو رکشا ہیں، سیکڑوں نجی ٹمپو ہیں،سیکڑوں کے ایس آر ٹی سی کی بسیں اور یکے بعد دیگرے پرائیوٹ بسوں کی آمد ورفت اور سیاحوں کی سواریاں ۔ اگر بھٹکل باشندوں کی بات کریں تو اکثر گھروں میں چار پہیہ کاریں ، 50ہزار سے زائد بائک ہونے کا اندازا لگایا گیا ہے۔
جب روزانہ اتنی ساری بے شمار سواریاں سڑک پر اترتی ہیں تو پھر ٹرافک جام نہیں ہوگا تو کیاہوگا۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ کوئی سواری نہ خریدے ۔ بلکہ مقصود یہ ہے کہ سواریوں میں اضافہ کے ساتھ سڑکوں پر ہونے والے ٹرافک جام سے پیدل چلنے والے ، راہ گیراور بائک سوارہر لمحہ خطرے میں محسوس کررہے ہیں۔ حالات تقاضا کررہے ہیں کہ موجودہ ٹرافک جام سے پیش آنے والی مشکلات کو دورکرتے ہوئے مناسب کارروائی کرنا متعلقہ محکمہ کی ذمہ داری بنتی ہے۔ اچانک سڑک پر کبھی حادثہ پیش آتاہے تو دونوں طرف کئی کلومیٹر لمبی سواریوں کی لائن لگ جاتی ہے۔
صبح سویرے اسکول ، کالج، دفاتر جانےاور شام میں گھر لوٹنے کے دوران بھٹکل کے قلب شہر شمس الدین سرکل سمیت کئی ایک مقامات پر ٹرافک جام معمولی بات ہوگئی ہے۔ خاص کر شمس الدین سرکل پر طلبا اور عوام کو سڑک پار کرنا دشوار ہونے کے علاوہ سڑک پار کرنا ہی ایک جرأت مندی کاکام ہوگیاہے، اور اگر کسی نے سڑک پار کرنے کے لئے جلد بازی کی تو حادثہ یقینی ہونے جیسے حالات ہیں۔ جیسے جیسے شہر میں سواریوں کی تعداد بڑھ رہی ہے اسی مناسبت سے حادثات میں بھی اضافہ ہورہاہے۔ اگر یومیہ شرح نکالیں تو روزانہ پانچ چھ حادثات کی تعداد نکلتی ہے۔ ان سڑک حادثات کے نتیجے میں کئی لوگ ہاتھ پیر توڑلیتے ہیں ، قسمت خراب ہے توجان سے ہاتھ دھوبیٹھتے ہیں، ویسے بھٹکل میں بائک سواریوں کی تیز رفتار ی حیران کردینے والی ہوتی ہےکرتب بازی اور کٹ رائیڈنگ بائک سواروں کے ساتھ معصوم عوام کے لئے بھی ہلاکت کا سبب بن رہی ہے۔ سواریوں کی رفتار شہری حدود میں 20سے 30 کے درمیان ہونی چائیے ، لیکن بھٹکل میں عام رفتار ہی 60-70ہوتی ہے ، اس سے کم ہونے کا کوئی چانس ہی نہیں ہے ، اچانک کوئی سڑک کے درمیان آجاتاہے تورائڈر کے توازن کا اللہ ہی حافظ۔ ان حالات میں کون مرا ، کون بچا، کون زخمی ہوا، کہنے کی بات نہیں ہے۔
ٹرافک جام کنٹرول کیسے کرسکتے ہیں: بھٹکل میں سردرد بنے ٹرافک جام کاکنڑول اور حادثات میں کمی لانے کے لئے متعلقہ محکمہ جات سنجیدگی سے غورو فکر کریں تو یقیناً حل مل سکتاہے۔ سب سے پہلے بھٹکل میں ٹرافک پولس تھانے کا قیام ہو، اس کے ذریعے ٹرافک پولس متعینہ مقامات پر نگرانی کرتے ہوئے ٹرافک جام ہونے نہ دیں۔ جہاں ضروری ہے وہاں سگنل لائٹ کی نصب کاری ہو، فورلین تعمیری کام میں تیزی لائیں، جتنا جلد ہو اس کام کو مکمل کریں ، فلائی اوور کا کام بھی شروع ہوجاناچاہئے۔ جس کے نتیجے میں کئی ایک سواریاں فلائی اوور کے ذریعےباہر سے ہی نکل جائیں گی ۔
اسی طرح یہ بتایا جاتاہے کہ بھٹکل میں کئی سواریاں دستاویزات اور لائسنس کے بغیر چلائی جاتی ہیں، پولس محکمہ شفافیت کے ساتھ سواریوں کی جانچ کرے۔ 50سے زائد رفتاروالی سواریوں پر جرمانہ عائد کرے۔ اس طرح کے دیگراقدامات بھی کئے جاتے ہیں تو حادثات میں کمی ہونے اور قیمتی جانیں محفوظ ہونے کی امید عوام لگارہے ہیں۔