بھٹکل میں کبھی عرب تاجروں کی بندرگاہ رہی شرابی ندی کی حالت اب ہوگئی ہے ایک گندے نالے سے بھی بدتر؛ کیا تنظیم اور کونسلرس اس طرف توجہ دیں گے ؟ ؟
بھٹکل 28/اگست (ایس او نیوز) بھٹکل تعلقہ کی شرابی ندی اب ایک گندے نالے سے بھی بدتر حالت میں آگئی ہے اس کے پیچھے صدیوں پرانی تاریخ ہے۔ کیونکہ اس ندی کے کنارے پرکبھی سمندری راستے سے آنے والے عرب تاجروں کے قافلے اترا کرتے تھے۔لیکن کچرے، پتھر اورمٹی کے ڈھیر کے علاوہ ندی میں گندے پانی کی نکاسی کی وجہ سے آج یہاں انسان تو کیا جانوروں کے لئے بھی قدم رکھنا مشکل ہوگیا ہے۔
لیکن تعجب خیز بات یہ ہے کہ انہی عرب تاجروں کی اولاد کہلانے والی بھٹکل کی اکثریتی مسلم آبادی بھی ان کی تاریخ اور ثقافت سے جڑے اس مسئلے کو بہت زیادہ سنجیدگی سے لیتی ہوئی دکھائی نہیں دیتی۔حالانکہ صدیوں پرانی تاریخ کے مطالعے سے یہ پتہ چلتا ہے کہ اسی ندی کے کنارے عرب تاجروں نے کپڑوں اور دیگر اجناس کی تجارت کی ہے۔ یہیں پر ایک پتھر کامصلےٰ بناکر نمازیں ادا کی ہیں۔بعد کے زمانے میں بھٹکل تعلقہ کی رانی چینّا بھیرا دیوی کی جانب سے اسی ندی کے کنارے پرعربوں کے ساتھ کالی مر چ اور دیگر گرم مسالوں کی تجارت کی جاتی تھی۔یہی نہیں بلکہ تاریخ میں اسی ندی کے کنارے پر عربوں کے ذریعے فروخت کے لئے لائے گئے گھوڑے ملک کے کئی شہروں میں سپلائی کئے جاتے تھے اور غالبا ٹیپو سلطان بھی یہیں سے گھوڑے خرید کرمیسور لے جاتے تھے۔
لیکن افسوس کہ راجا اوررانی کی چہل پہل اور عربوں کے لئے قیام و سکونت کاموقع فراہم کرنے والی اس ندی اور اس کے کنارے اب کسی کے لئے بھی قدم رکھنے کے قابل نہیں رہے۔ عربوں نے اس زمانے میں کاروبار اورنماز کے لئے جو پتھراستعمال کیے تھے، اسے تو مقامی اسپورٹس سینٹر نے محفوظ کرلیا مگر ندی کے کنارے جن پتھروں سے تعمیر کیے گئے تھے، بہت سے مقامات پر وہ پتھر ڈھل کر ندی کا حصہ بن چکے ہیں، اور جو باقی بچے ہیں ان میں سے بھی بہت سارے پتھر کسی بھی وقت ڈھل کر ندی میں گرنے کی حالت میں ہیں۔
مٹی اور کچرے کے ڈھیر کی وجہ سے ندی کی گہرائی ختم ہوگئی ہے اور بارش کے دنوں میں بہت جلدسیلاب آجاتا ہے جس کی وجہ سے کنارے پر بسنے والوں کے لئے جان ومال کا خطرہ پیدا ہوجاتا ہے۔ایک طرف جہاں گلیوں اورمحلوں کے مکانات سے گندے پانی کی نکاسی مسلسل اس ندی میں کی جارہی ہے تو دوسری طرف اس ندی پر باندھے گئے پُل کے قریب ہی شہر ی بلدیہ کی طرف سے گندے پانی کی صفائی کا جو پلانٹ تعمیرکیا گیا ہے وہاں سے بھی گندا پانی اسی ندی میں براہ راست چھوڑ دیا جاتا ہے۔ جس کی وجہ سے اب یہ ندی گندگی اور کچرے کا ڈھیر بن کر رہ گئی ہے۔ اس وجہ سے اس کے کنارے انسانو ں کی چہل پہل ایک ناقابل برداشت عمل ہوکر رہ گئی ہے۔ساتھ ہی ساتھ اس ندی کے کنارے مکانات تعمیر کرکے برسہابرس سے بسنے والوں کی زندگی اجیرن ہوگئی ہے۔
ایک زمانے میں یہاں پر ندی کے کنارے سے چھلانگیں لگانے اور تیراکی کا لطف اٹھانے والے نوجوانوں کا ایک ہجوم رہا کرتاتھا۔یہ ندی بچوں کو تیراکی سکھانے کا مرکز بھی ہوا کرتی تھی۔ مگر اب یہاں گندگی کا یہ عالم ہے کہ پچھلے برسوں سے کوئی ایک آدمی بھی اس ندی میں اترنے اور تیرنے کے بارے میں سوچ نہیں سکتا۔ یہاں تک کہ مچھلیوں کا شکار کرنے والے بھی اس ندی کی طرف رخ کرنا بھول گئے ہیں۔
اگر سنجیدگی سے دیکھا جائے تو تاریخی حیثیت کی حامل اس ندی کے کناروں پر سیاحت کو فروغ دینے کے بہت سے مواقع نکالے جاسکتے ہیں اور یہ علاقہ ایک دلکش سیاحتی مرکز میں تبدیل ہوسکتا ہے۔اگر ندی سے مٹی اور کچرا بڑے پیمانے پر ہٹادیا جائے اور اس کی گہرائی بڑھائی جائے تو یہاں پر کشتیوں کے ذریعے سیر و تفریح کا سامان مہیا کیا جاسکتا ہے۔اور یہ بیرونی سیاحوں کے لئے ایک پسندیدہ مقام بن سکتا ہے۔ندی کی صفائی کے ساتھ ا س کے کناروں پر خوبصورت دیواریں تعمیر کرکے وہاں وافر مقدار میں روشنی کا انتظام کیا جائے تب بھی بہت سے لوگ آرام و سکون کے کچھ لمحے گزارنے کے لئے اس ندی کے کنارے پہنچ جائیں گے۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ عرب تاجروں کی نسل سے قابل رشک تعلق رکھنے والے احباب، ٹیپو سلطان سے منسوب بھٹکل کے باشندے اور سوسالہ تاریخ رکھنے والے ادارے مجلس اصلاح و تنظیم اور اسی کی حمایت سے منتخب ہونے اور شہری بلدیہ میں اپنی اکثریت رکھنے والے کاونسلرز کے علاوہ قائدین و خادمین قوم اپنے تاریخی ورثے سے تعلق رکھنے والے ا س ندی کی حالت کو بدلنے اور اسے ایک نیا روپ دینے کے سلسلے میں سنجیدگی کے ساتھ غور کریں۔یہ بات یقینی ہے کہ اگر کوئی قابل عمل منصوبہ بناکر سرکاری تعاون کے ساتھ اس میں رنگ بھرنے کا عزم و ارادہ کرلیا جائے گا تو یہ کام کوئی مشکل یا ناممکن نہیں ہوگا۔