بھٹکل ناگ بن کمپاونڈ معاملہ میں نیا موڑ ؛ نامعلوم افراد کے خلاف تحصیلدار نے درج کروائی شکایت۔ آخر یہ کیا کھیل کھیلا جا رہا ہے؟ (اسپیشل رپورٹ : ڈاکٹر محمد حنیف شباب)
بھٹکل 20 / اپریل (ایس او نیوز) پچھلے چند دنوں سے بھٹکل کے مین روڈ پر واقع 'ناگ بَن' یا 'ناگر کٹّے' کا معاملہ شہر میں بحث کا موضوع بنا ہے اور خاص کر کنڑا اخبارات کی سرخیوں میں نمایاں رہا ہے۔ جبکہ کنڑا سوشیل میڈیا میں مسلم فرقہ اور ان کے مرکزی ادارہ تنظیم کو نشانہ بنانے کا سلسلہ بھی جاری ہے۔
پولیس میں شکایت سے آیا نیا موڑ: اسی دوران اس تنازع نے اب ایک دوسرا رنگ اختیار کرلیا ہے۔ دو دن قبل ناگ بن کے اطراف کمپاونڈ تعمیر کرنے اور اس مسئلہ کو حل کیے جانے کی خبروں کے درمیان بڑی حد تک ماحول کی گرمی کم ہوگئی تھی ۔ مگر اب اچانک بھٹکل تحصیلدار کی طرف سے پولیس کے پاس درج کروائی گئی اس شکایت کے بعد اس معاملہ میں ایک نیا موڑ آگیا ہے جس میں انہوں نے شہر میں امتناعی احکامات کی خلاف ورزی کرتے ہوئے 'راج آنگن ناگ بن' کے اطراف 'نامعلوم شر پسندوں' کی طرف سے کمپاونڈ تعمیر کرنے کی بات کہی ہے اور ان 'نامعلوم شرپسندوں' کے خلاف کارروائی کرنے کی مانگ کی ہے۔
اصل میں ہوا کیا تھا: 16اپریل جمعہ کے دن صبح 11 بجے کے قریب قدیم بس اسٹینڈ کے پاس مین روڈ پر واقع ناگ بن یا ناگر کٹّے کے متنازعہ علاقے میں کچھ تعمیراتی کام شروع کیے جانے کی خبر عام ہوتے ہی ماحول کشیدہ ہوگیا۔ بازار میں موجود کچھ مسلم تاجروں اور عوام نے ایک مدت سے تنازع میں پڑے ہوئے اس مسئلہ کا حل نکالے بغیر غیر مسلموں کی طرف سے تعمیراتی کام شروع کرنے پر اعتراض جتایا۔ مسلمانوں کے مرکزی ادارے کے قائدین نے پولیس اور تعلقہ انتظامیہ سے رابطہ قائم کیا مگر خاطر خواہ ردعمل نہیں ملا۔ جمعہ کی نماز کے بعد دونوں فرقوں کے افراد اس علاقے میں جمع ہونے لگے اور ماحول بری طرح کشیدہ ہوگیا۔ ان بدلتے حالات کو دیکھتے ہوئے پولیس اور تعلقہ انتظامیہ نے تعمیراتی کام روکنے کی ہدایت دی۔ اور کام کررہے مزدوروں کو وہاں سے ہٹا دیا گیا۔
ایم ایل اے نے ماری اینٹری : اسی دن عصر چار بجے کے قریب رکن اسمبلی سنیل نائک نے متعلقہ مقام پر اینٹری ماری۔ اور اپنی جوشیلی باتوں سے ماحول کو گرماتے ہوئے تعمیراتی کام روکنے پر پولیس اور انتظامیہ کو آڑے ہاتھوں لیا۔ اس نے کچھ کاغذات دکھاتے ہوئے سوال کیا کہ جب اس مقام کی آر ٹی سی ہماری ہے، سرکار کی طرف سے تعمیراتی کام کے لئے فنڈ بھی جاری ہوا ہے تو پھر کسی کو یہاں کمپاونڈ تعمیر کرنے پر کیا اعتراض ہوسکتا ہے اور پولیس اس کام کو کیسے روک سکتی ہے؟ پھر ایم ایل اے نے حسب عادت دھمکی دیتے ہوئے کہا کہ "ہم لوگ تعمیراتی کام مکمل کیے بغیر کسی قیمت پر واپس لوٹنے والے نہیں ہیں۔ اس لیے ہمیں پولیس تحفظ فراہم کیا جائے۔" ڈی وائی ایس پی نے بھی سخت رویہ اپناتے ہوئے کہا کہ پہلے اسسٹنٹ کمشنر سے اجازت لے کر آنا پھر تحفظ فراہم کیا جائے گا۔
میٹنگ میں ہنگامہ اور بائیکاٹ: اسسٹنٹ کمشنر کے دفتر میں تعلقہ انتظامیہ اور پولیس افسران کی موجودگی میں منعقدہ میٹنگ کے دوران ایم ایل اے اور ان کے حامیوں نے 'اپنی جگہ'، 'اپنی سرکار' اور اپنے 'اٹل ارادوں' کا رعب جماتے ہوئے مسلم قائدین سے براہ راست الجھنے کا رویہ اپنایا اور پھر میٹنگ کا بائیکاٹ کرکے باہر نکل گئے۔ اس طرح میٹنگ بے نتیجہ ثابت ہوئی۔ لیکن کنڑا میڈیا کے ایک طبقے نے اس میٹنگ کی ناکامی کا ٹھیکرا بھی مسلمانوں کے سر پھوڑنے کی کوشش کرتے ہوئے نیوز بنائی کہ مسلمانوں کے بائیکاٹ کرنے کی وجہ سے میٹنگ ناکام ہوگئی۔ دوسری طرف میٹنگ ناکام ہونے اور غیر مسلم فریق کی ہٹ دھرمی کی وجہ سے شہر کے حالات میں کشیدگی بہت زیادہ بڑھ گئی۔ اس کے پیش نظربھٹکل تحصیلدار نے شہر میں امتناعی احکامات نافذ کردئے۔
دیر رات کو پولیس کے ساتھ میٹنگ: تیسری طرف اسی دن دیر رات کو پولیس کے اعلیٰ افسران نے مسلم قائدین کے ساتھ میٹنگ منعقد کی جس میں مسلم طبقہ کی طرف سے اس بات کو دہرایا گیا کہ اگر ناگر کٹے کی سابقہ حد بندی کو ہی بنیاد بنا کر کمپاونڈ تعمیر ہوتا ہے تو ہمیں اس پر اعتراض نہیں ہے جبکہ نئے کمپاونڈ کے لئے اس وقت جو بڑی جگہ قبضہ میں لی گئی ہے وہ کسی طور منظور نہیں ہے۔ پولیس افسران نے اس موقف کو قبول کیا اور دوسرے دن صبح پولیس کی نگرانی میں ہی پرانی حد بندی کے مطابق نیا اور مضبوط کمپاونڈ تعمیر کرنے کا کام انجام دیا گیا۔ اس طرح امن و امان برقرار رکھتے ہوئے مسئلہ حل ہوجانے پر شہر کے عوام نے راحت کی سانس لی۔
پولیس کی میٹنگ اور تعلقہ انتظامیہ : چونکہ یہ تنازعہ سرکاری زمین پر واقع مذہبی مقام سے متعلق تھا اس لئے اس مسئلہ کو حل کرنے کی کوشش میں ریوینیو ڈپارٹمنٹ اور تعلقہ انتظامیہ کا ہاتھ ہونا ضروری ہے۔ اب یہ معلوم نہیں ہوسکا کہ پولیس نے یہ جو دیر رات مسلم طبقہ کے لیڈروں کے ساتھ جو میٹنگ منعقد کی تھی وہ کس کی ایماء پر تھی۔ کیا بی جے پی لیڈران، کمپاونڈ تعمیر کرنے پر بضد غیر مسلم نوجوان کے علم میں یہ بات تھی؟ کیا تعلقہ انتظامیہ کی طرف سے اس طرح پہل کرنے کا سگنل دیا گیا تھا؟ ان دونوں سوالوں کا جواب نفی میں ملتا ہے کیونکہ ان میں سے کوئی بھی اس میٹنگ میں نمائندگی کرنے کے لئے موجود نہیں تھا۔ اس سوال کا جواب بھی نہیں مل رہا ہے کہ کمپاونڈ کی تعمیر کے سلسلے میں اپنائی گئی مفاہمتی تجویز کوغیر مسلم فریق کی حمایت حاصل تھی یا نہیں ۔ البتہ تحصیلدار کی طرف سے پولیس میں درج شکایت سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس تعمیراتی کام کو تعلقہ انتظامیہ کی لاعلمی میں انجام دیا گیا ہے۔
کیا ہوتا ہے یہ 'ناگ بن' : ہر شہر اور گاوں میں ہندو مذہبی اساطیری کردار پر مبنی ناگ بن، جٹکا کھمبا، چوڑی،کورگجّا جیسے مقامات ہوتے ہیں جہاں پر سالانہ یا وقتاً فوقتاً کچھ مذہبی رسوم اور پوجا پاٹ انجام دی جاتی ہے۔ ناگ بن اور جٹکا جیسے مقامات پر باقاعدہ مندر اور باضابطہ پجاری وغیرہ نہیں ہوتے۔ اس سے قبل یہ مقامات شہر اور گاوں کے دور دراز، ویران یا جنگلاتی علاقوں میں پائے جاتے تھے اور بغیر چھت اور دیواروں کے کھلی جگہ پر ہوا کرتے تھے۔ مگر اب ان مقامات پر چھوٹے کمرے تعمیرکرنے اور اسے مندر کا روپ دینے کا رواج پچھلے کچھ برسوں سے بڑھ گیا ہے ، ایسے ہندوانہ عقائد کے بہت سے ناگ بن اور دوسرے کٹّے بھٹکل شہر اور مضافات میں بھی بڑی تعداد میں پائے جاتے ہیں۔
کیا کہتے ہیں ناگ بن کے دستاویزات : اس وقت بھٹکل کا جو متنازعہ مقام ہے اسے سرکاری دستاویز میں 'راج آنگن ناگ بن' لکھا گیا ہے۔ اس 'راج آنگن' لفظ کی توجیہ ذرا تحقیق طلب مسئلہ ہے۔ اس لئے اس سے گریز کرتے ہوئے سرکاری دستاویز یا آر ٹی سی کی بات کریں تو بعض ذرائع سے پتہ چلا ہے کہ 1935 کے دستاویزات میں یہاں ناگ بن ہونے کا ریکارڈ موجود ہے۔ فی الحال ہماری نظرسے 1955 کے دستاویز جو گزرے ہیں ، اس کی میوٹیشن اینٹری میں جو شرح لکھی گئی ہے اس میں راج آنگن ناگ بن جہاں موجود ہے وہ زمین 3.4 گُنٹا درج ہے اور اسے سرکاری ملکیت والی عوامی جگہ بتایا گیا ہے۔ یہ بھی صاف لکھا گیا ہے کہ ناگ بن کے کمپاونڈ پر کسی کا بھی ذاتی حق نہیں ہے۔ جس کا مطلب یہ ہوا کہ متعلقہ زمین اور ناگ بن دونوں سرکاری تحویل میں ہیں۔
پھر یہ تنازعہ کیا ہے!: مسلمانوں کے گھروں اور دکانوں سے گھرے اس علاقے میں واقع درخت کے نیچے کندہ کی ہوئی ناگ کی تصاویر والے دو ایک پتھروں پر مبنی ناگ بن کی اس ویران جگہ پر کچھ برس قبل سامنے کے ایک غیر مسلم دکاندار نے پھول چڑھانے، دیپ جلانے کا سلسلہ شروع کیا۔ پھر اس کے اطراف پتھر رکھ کر دھیرے دھیرے کمپاونڈ کو وسیع کرنے کی کوشش شروع کی۔ چونکہ یہ جگہ دو مسلم گھروں کے پچھواڑے سے بالکل متصل تھی اور ان کے پچھلے دروازے اسی طرف واقع تھے اس لئے خالی جگہ پر غیر مسلموں کی طرف سے ناگ بن کے نام پر قبضہ کرنے کی کوشش پر سوال اٹھائے گئے ۔ پھر ایک طرف اس ویران پڑی ہوئی جگہ پر ہندو مذہبی مقام بنانے کی غرض سے کچھ فرقہ پرست لیڈروں نے کوششیں شروع کیں تو دوسری طرف کمپاونڈ وسیع کرنے کی مخالفت بڑھتی گئی اور اس مسئلہ کو حل کرنے کی کوشش میں سرکاری انتظامیہ کے ساتھ کئی میٹنگس ہوئیں، جس کا کوئی نتیجہ نہیں نکلا۔
سیاسی مداخلت اور سرکاری فنڈ : اس کے بعد غیر مسلم فریق نے سیاسی سطح پر کوشش کرکے اس قدیم مقام کے تحفظ کے لئے جدید کمپاونڈ بنانے کے لئے 'ضلع نیمرتی کیندرا' سے 2 لاکھ روپے کا فنڈ منظور کروالیا۔ سرکاری فنڈ آنے کے بعد غیر مسلم فریق کے حوصلے اور بڑھ گئے۔ لیکن یہاں بھی مذکورہ مقام کی توسیع پر مسلم فریق کے اعتراض کی وجہ سے کام آگے نہیں بڑھا۔ 2017 میں اس سلسلے کی آخری میٹنگ تحصیلدار نے منعقد کی تھی جہاں دونوں فریقوں کے درمیان طویل گفتگو اور بحث و مباحثہ کے بعد بھی کوئی حل نہیں نکل سکا اور مسئلہ جوں کا توں بنا رہا۔
نیا ایم ایل اے ۔ نئے عزائم ۔ نیا اقدام: اس معاملہ میں تازہ گرمی اس وقت پیدا ہوگئی جب بھٹکل میں بی جے پی کے نئے سیاسی لیڈر اور نوجوان ایم ایل اے سنیل نائک نے اپنے حامیوں کے ساتھ اس طرف توجہ دینا شروع کیا۔ پہلے تو اس نے اس قدیم مقام پر نیا کمپاونڈ تعمیر کرنے اور اس کے تحفظ کا انتظام کرنے کے نام پر حکومت سے 7 لاکھ روپے منظور کروائے۔ پھر چند دن قبل یوگادی کے موقع پر یہاں پر پوجا پاٹ کرتے ہوئے نئے تعمیراتی کام کا سنگ بنیاد رکھا۔ اور اس موقع پر تقریر کرتے ہوئے اس مقام کو آئندہ ایک بڑے دھارمک سینٹر میں بدل دینے کا منصوبہ ظاہر کیا۔ پھر 16/ اپریل کو ریوینیو ڈپارٹمنٹ یا ٹی ایم سی کی اجازت حاصل کیے بغیر ہی یہاں باقاعدہ تعمیری کام شروع کیا گیا۔ جس پر دونوں فریق آمنے سامنے ہوگئے۔
یہ کونسا کھیل کھیلا جارہا ہے؟: لیکن دیر رات کی میٹنگ کے بعد طے شدہ تجویز کے مطابق 17اپریل کو پولیس کی طرف سے پورے تحفظ کے ساتھ وہاں کمپاونڈ تعمیر ہوگیا، جو کہ ظاہری طور پر سرکاری انتظامیہ کی ہی کارروائی تصور کی جائے گی۔ اب تحصیلدار نے جو شکایت درج کروائی اور اس پر ایف آئی آر بنائی گئی ہے اس کے مطابق کمپاونڈ کا یہ تعمیراتی کام دفعہ 144 کی خلاف ورزی کرتے ہوئے 'کچھ شرپسندوں' نے انجام دیا ہے !!! یہ اس تنازعہ میں اچانک آنے والا بڑا مبہم سا موڑ ہے جس نے سوچنے والوں کو تشویش میں مبتلا کردیا ہے۔
تحصیلدار کی باتوں میں تضاد : تحصیلدار کی طرف سے شکایت کا جو خلاصہ ایف آئی آر میں درج ہے اس میں موجود تضادات پر کئی سوال اٹھتے ہیں، جس کا جواب نہیں مل رہا ہے۔
۱۔ ایف آئی آر میں جمعہ کے دن شام پانچ بجے کام شروع ہونے پر مسلم طبقہ کے لوگ جمع ہونے اور احتجاج کرنے کی بات درج ہے جبکہ وہاں پر کام تو صبح ہی شروع ہوا تھا۔ اور اسی وقت یہ بات تحصیلدار اور پولیس کے اعلیٰ افسران کے علم میں لائی گئی تھی۔ پھر ایف آئی آر میں اسے شام کے وقت دوسرے مرحلہ کے احتجاج تک ہی کیوں محدود کیا گیا ہے؟ اور صبح کی کارروائی اور سرگرمیوں کو کیوں چھپا دیا گیا ہے؟
۲۔ اس ایف آئی آر میں سرکاری محکمہ ضلع نیمرتی کیندرا کی طرف سے کام شروع کرنے کی بات درج ہے، جبکہ ہماری معلومات کے مطابق صبح میں تنظیم کے ذمہ داران نے تحصیلدار اور پولیس والوں سے اس مسئلہ پر بات کی تھی تو انہوں نے اس تعمیراتی کام سے متعلق معلومات ہونے یا ان کی طرف سے کسی کو اجازت دینے کی بات سے یکسر انکار کیا تھا۔ بلکہ تحصیلدار نے اپنے نئے تقرر کا حوالہ دیتے ہوئے اس جگہ اور تنازعہ سے متعلق لاعلمی کا اظہار کیا تھا۔
۳۔ جب دوسرے دن یعنی 17 اپریل کو امتناعی احکامات نافذ رہنے کے دوران ہی پورا دن اس متنازعہ مقام پر پورے پولیس بندوبست کے ساتھ تعمیراتی کام انجام دیا جارہا تھا تو کیا اس بات کا علم تحصیلدار کو نہیں تھا؟
۴۔ اگر علم تھا تو پھر تحصیلدار نے موقع پر پہنچ کر کوئی کارروائی کیوں نہیں کی ؟ اس کے بجائے کام مکمل ہونے کے دوسرے دن پولیس میں شکایت درج کروانے کی آخر کیا ضرورت پیش آئی؟ یا پھر یہ کونسی نئی تدبیر ہے اور اس کا مقصد کیا ہے؟
۵۔ جب امتناعی احکام کے نفاذ اور خلاف ورزی پر کارروائی کرنے کی ذمہ دار پولیس فورس ہی اس مقام پر موجود تھی تو وہاں پر 'نا معلوم شرپسندوں'کے ذریعہ کمپاونڈ تعمیر کرنے کی بات کسی طرح ہضم نہیں ہوتی ۔
۶۔ چونکہ یہ کام دن دہاڑے ہوا تھا اس لئے تحصیلدار کی شکایت کا دوسرا مطلب یہ ہوا کہ پولیس والے 'شرپسندوں' کو دیواریں تعمیر کرنے کے لئے تحفظ فراہم کررہے تھے! اس کا مطلب یہ بھی ہے کہ پولیس والوں کے لئے وہ 'شرپسند' جو تھے وہ 'گمنام' اور 'نامعلوم' نہیں ہوسکتے۔
۷۔ اگر صورت حال یہی ہے تو پھر تحصیلدار کا ان شرپسندوں کے خلاف پولیس سے کارروائی کرنے کا مطالبہ کیا معنی رکھتا ہے؟
کون کھیل رہا ہے یہ کھیل : بہر حال بظاہر ایسا لگتا ہے کہ اس وقت پردے کے پیچھے کوئی دوسرا ہی کھیل کھیلا جارہا ہے جس کے نتائج خدانخواستہ پرامن ماحول میں کسی ناخوشگوار ہلچل کا سبب بھی بن سکتے ہیں۔ اب یہ کھیل کچھ شرپسند کھیل رہے ہیں یاکوئی فرقہ پرست ٹولہ کھیل رہا ہے یا سرکاری محکمہ جات ہی کھیل رہے ہیں اس پر کوئی قطعی بات کہنا اس مرحلہ پر ممکن نہیں ہے۔
بس دعا کرنی چاہیے کہ مکاروں کی سازشیں پوری طرح ناکام ہوجائیں۔ شہر میں امن و امان کی حالت بنی رہے اور بھائی چارگی اور سلامتی کی فضا کو مزید استحکام ملے۔