بھٹکل30/ اگست (ایس اؤ نیوز) جب کسی پر بوجھ حد سے زیادہ بڑھ جاتا ہے تو انسان ہو یا جانور اس کو جھکنا ہی پڑتاہے، اس میں پہاڑ، چٹان، مٹی کے ڈھیر،تودے سب کچھ شامل ہیں۔ قریبی ضلع کورگ اورپڑوسی ریاست کیرالہ میں شدید بارش کے نتیجے میں جس طرح پہاڑ کے پہاڑ کھسک گئے اور چٹانیں راستوں پر گرنے کے ساتھ ساتھ عمارتیں اور سڑکیں کس طرح پانی میں بہہ گئیں، ان مناظر کو دیکھنے کے بعد پڑوسی اضلاع میں بھی اس طرح کی وارداتوں کے رونما ہونے میں بعید از قیاس نہیں ہے۔
شہر بھٹکل ضلع اترکنڑا میں تیز رفتاری کے ساتھ ترقی کی طرف گامزن رہنے کی بات اپنی جگہ سچ ہے۔ترقی کے معنی پھیلنا تو ہے مگر جو لوگ ندی کنارے اور سمندر کنارے مکانات تعمیر کرکے رہائش پذیر ہیں ان کے لئے جگہ تنگ نظر آرہی ہے۔ پہاڑوں کے دامن میں مویشیوں کو چروا کر ، سبزی اگا کر اپنا پیٹ بھرنے والا کسان بھی حریص بن رہاہے وہ بھی معاشی سطح پر مضبوط ہونے کے لئے اپنی تھوڑی سی زمین فروخت کر کے شہرکا ’’آدمی ‘‘بننا چاہتاہے۔ پہاڑوں ، چٹانوں، بہتی ندیوں کے راستے میں مشینوں کی آواز کابڑاشورہے۔ اس کو دیکھتے ہوئے پہاڑوں اورچٹانوں کے کھسکنے اورنالوں کا ندیوں میں تبدیل ہونے کا خطرہ بڑھتا نظر آرہا ہے۔ اور یہ کہنا پڑرہا ہے کہ بھٹکل تعلقہ بھی اس کی زد میں ہے۔
وینکٹاپور سے جالی ، ہیبلے سمیت بی ایس این ایل دفتر تک تقریبا ً آدھے سے زائد بھٹکل شہر پہاڑ پر ہی بسا ہواہے۔ نشیبی علاقوں کے لوگ پرانے محلوں سے نئے محلوں میں جانے کے لئے ( آراروسون ائیتا)یعنی بلندی والے علاقوں پر جا کر آتاہوں کہنے کی روایت رہی ہے۔آج جس علاقے کو گلمی کہتے ہیں دراصل وہ پہاڑ کو کاٹ کر ہی بسایا گیا ہے۔ پہلے یہاں ایک ہی گھر تھا پھر دس مکانات بنے پھر یہ تعداد بڑھ کر سو تک پہنچ گئی، یہاں تعلیمی اداروں کا وسیع کامپلیکس پہلے سے موجود ہے، مگر اب پہاڑ کو رہائشی مقصد کے لئے نیچے سے کاٹنے کی وجہ سے تعلیمی اداروں کی عمارتوں کےلئے بھی خطرہ بڑھتا نظر آرہا ہے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ پہاڑ کاٹ کر مکانات تعمیر کرنے کا سلسلہ رُک نہیں رہا ہے۔ پہاڑ کو کاٹ کر چوٹی پر پہنچنے اور بلندی پر عمارت تعمیر کرنے کی خواہش بڑھتی ہی جارہی ہے۔ اب تھوڑا آگے بڑھیں تو کورگار کیری بھی پہاڑ پرہی آباد ہے۔ پھر آگے بیلنی کی طرف چلیں تو یہاں سب کچھ پہاڑ پر ہی بسیرا ہے۔کبھی کبھار پہاڑ سے کوئی ٹکڑا گرتابھی ہے تو کوئی اس کی طرف توجہ نہیں دیتا۔ ایک طرف تلگوڈ، دوسری طرف بیلنی سے ہوتے ہوئے مخدوم کالونی پہنچ کر ایک نظر دوڑائیں تو منی کورگ نظر آتاہے۔
ہاڈولی۔ کونار، ماروکیری ، اترکوپاجیسے دیہی علاقوں میں بھی پہاڑوں کے دامن میں بسیر اڈھونڈنے کی کوششیں جاری ہیں۔تلان میں پتھروں کی کھدائی کے لئے پہاڑ کاٹے جا رہے ہیں۔ ان سب وجوہات کا کلی نتیجہ اخذ کریں تو یہی سمجھ میں آتا ہے کہ بچے کھچے پہاڑی حصے پر بوجھ بڑھتا جا رہا ہے جس کے نتیجے میں ماحولیاتی تناسب بگڑ رہا ہے، دور جانے کی ضرورت نہیں، پڑوسی تعلقہ ہوناور، کاروار اور شیرور کے قریب اوتینانی میں نیشنل ہائی وے کی تعمیر کے لئے پہاڑوں کو کاٹنے کے نتیجے میں چٹانوں کا راستوں پر گرنے کی تازہ مثالیں موجود ہیں۔ایسے میں سوال یہ ہے کہ بوجھ سے پہاڑ جھکنے سے پہلے آخر اس کا وزن کون کم کرے گا؟
بھٹکل شہر اور نواحی علاقوں کی یہ صورت حال ہے تو مرڈیشور کی کہانی کچھ اور کہتی ہے۔ یہاں پہاڑ کے کھسکنے کا کوئی ڈر ویسے نظر نہیں آرہا ہے لیکن مرڈیشور کے لئے بارش کا پانی خطرہ بنتا جارہاہے۔ سیاحوں کو ترغیب دینے ، کمانے کی دوڑ میں مرڈیشور بے ڈھنگے طورپر بڑھتا جارہاہے۔ جہاں دیکھو وہاں مکانات اور رہائشی گھر تعمیر ہورہے ہیں۔ بارش کے پانی کو سمندر تک پہنچانےوالا کاری نالے کا راستہ بدل دیاگیا ہے۔ آج جہاں سے پانی بہتاہے، اور جس جگہ پانی جمع ہوتاہے اُن تمام جگہوں پر عمارتیں کھڑی ہوگئی ہیں۔ اگر زیادہ بارش ہوتی ہے تو راستے، سڑکیں ، کھیت کھلیان سب کچھ ندی نالوں میں تبدیل ہونا عام بات ہوگئی ہے۔پیسوں کی کھنک کے لئے پورے گاؤں کی تصویر بگاڑنے کی جوکوشش ہورہی ہے اس میں گرام پنچایت ، تحصیل افسران کی حصے دارہونے کا بھی عوام الزام لگارہے ہیں۔
کہنے والے کہتے ہیں کہ بارش بھلے کتنی بھی ہوجائے،آخر کاربارش کا پانی سمندر میں ہی مل جاتاہے ۔مگر لوگوں کو کون سمجھائے کہ پانی سمندر میں ملنے سے پہلے ہی اگر شہر کو ہی غرق کردے تو کیا ہوگا ؟فی الحال اس طرح کی باتوں پر کوئی غور کرنے کے لئے تیار نہیں ہے۔ ہاں یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ جس طرح کیرلا اور قریبی ضلع کورگ سیلاب کی زد میں آکر جن مشکلات اور پریشانیوں کو جھیل رہاہےایسی آفات سے بھٹکل کی حفاظت کرنا پورے عوام کے لئے ضروری ہے۔