کیرالہ اور مڈکیری میں پہاڑ کھسکنے کے واقعات کے بعد کیا بھٹکل محفوظ ہے ؟

Source: S.O. News Service | By I.G. Bhatkali | Published on 30th August 2018, 11:15 PM | ساحلی خبریں | اسپیشل رپورٹس |

بھٹکل30/ اگست (ایس اؤ نیوز) جب کسی پر  بوجھ حد سے زیادہ  بڑھ جاتا ہے تو انسان ہو یا  جانور اس کو جھکنا ہی پڑتاہے، اس میں پہاڑ، چٹان، مٹی کے ڈھیر،تودے  سب  کچھ شامل ہیں۔ قریبی ضلع کورگ اورپڑوسی ریاست کیرالہ میں شدید بارش کے نتیجے میں جس طرح پہاڑ کے پہاڑ کھسک گئے اور چٹانیں راستوں پر گرنے کے ساتھ ساتھ  عمارتیں اور سڑکیں کس طرح پانی میں بہہ گئیں، ان مناظر کو دیکھنے کے بعد پڑوسی اضلاع میں بھی اس طرح کی وارداتوں  کے رونما ہونے میں  بعید از قیاس نہیں ہے۔

شہر بھٹکل  ضلع اترکنڑا  میں تیز رفتاری کے ساتھ ترقی کی طرف گامزن رہنے کی بات  اپنی جگہ سچ   ہے۔ترقی  کے معنی  پھیلنا تو  ہے  مگر جو لوگ ندی کنارے اور  سمندر کنارے مکانات  تعمیر کرکے  رہائش پذیر ہیں ان کے لئے جگہ تنگ نظر آرہی ہے۔ پہاڑوں کے دامن میں مویشیوں کو چروا کر ، سبزی اگا کر اپنا پیٹ بھرنے والا کسان بھی حریص بن رہاہے وہ بھی معاشی سطح پر مضبوط ہونے کے لئے  اپنی تھوڑی سی زمین فروخت کر کے  شہرکا ’’آدمی ‘‘بننا چاہتاہے۔ پہاڑوں ، چٹانوں، بہتی ندیوں  کے راستے میں مشینوں  کی آواز کابڑاشورہے۔ اس کو دیکھتے ہوئے پہاڑوں اورچٹانوں  کے کھسکنے اورنالوں کا ندیوں میں تبدیل ہونے کا خطرہ بڑھتا نظر آرہا ہے۔ اور یہ کہنا  پڑرہا ہے کہ  بھٹکل تعلقہ  بھی  اس کی زد میں ہے۔

 

وینکٹاپور سے جالی ، ہیبلے سمیت بی ایس این ایل دفتر تک تقریبا ً آدھے سے زائد بھٹکل شہر پہاڑ پر ہی بسا ہواہے۔   نشیبی علاقوں کے لوگ پرانے محلوں سے نئے محلوں میں جانے کے لئے ( آراروسون ائیتا)یعنی  بلندی والے علاقوں  پر جا کر آتاہوں کہنے کی روایت رہی ہے۔آج جس علاقے کو گلمی کہتے ہیں دراصل وہ  پہاڑ کو کاٹ کر  ہی بسایا گیا ہے۔ پہلے یہاں   ایک  ہی گھر تھا پھر دس مکانات بنے پھر یہ تعداد بڑھ کر سو تک پہنچ گئی، یہاں تعلیمی اداروں کا وسیع کامپلیکس پہلے سے موجود ہے، مگر  اب پہاڑ کو رہائشی مقصد کے لئے نیچے سے کاٹنے کی وجہ سے تعلیمی اداروں کی عمارتوں کےلئے بھی خطرہ بڑھتا نظر آرہا ہے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ  پہاڑ کاٹ کر مکانات تعمیر کرنے کا سلسلہ رُک نہیں رہا ہے۔  پہاڑ کو کاٹ کر چوٹی پر پہنچنے اور بلندی پر عمارت تعمیر کرنے کی  خواہش بڑھتی ہی جارہی ہے۔ اب تھوڑا آگے بڑھیں  تو کورگار کیری بھی پہاڑ پرہی آباد ہے۔ پھر آگے  بیلنی کی طرف چلیں تو یہاں سب کچھ پہاڑ پر ہی بسیرا ہے۔کبھی کبھار پہاڑ سے کوئی ٹکڑا  گرتابھی ہے تو  کوئی اس کی طرف توجہ نہیں دیتا۔ ایک طرف تلگوڈ، دوسری طرف بیلنی  سے ہوتے ہوئے مخدوم کالونی پہنچ کر ایک نظر دوڑائیں تو منی کورگ نظر آتاہے۔

ہاڈولی۔ کونار، ماروکیری ، اترکوپاجیسے دیہی علاقوں میں بھی پہاڑوں کے دامن میں بسیر اڈھونڈنے کی کوششیں جاری ہیں۔تلان میں پتھروں کی کھدائی کے لئے پہاڑ کاٹے جا رہے ہیں۔ ان سب وجوہات کا کلی نتیجہ اخذ کریں تو یہی سمجھ میں آتا ہے کہ بچے کھچے پہاڑی حصے پر بوجھ بڑھتا جا رہا ہے جس کے نتیجے میں  ماحولیاتی تناسب بگڑ رہا ہے، دور جانے کی ضرورت نہیں،  پڑوسی تعلقہ ہوناور، کاروار اور شیرور کے قریب اوتینانی میں نیشنل ہائی وے کی تعمیر کے لئے پہاڑوں کو کاٹنے کے نتیجے میں چٹانوں کا راستوں پر گرنے کی تازہ مثالیں موجود ہیں۔ایسے میں  سوال یہ ہے کہ   بوجھ سے پہاڑ  جھکنے سے پہلے آخر اس کا وزن کون  کم کرے گا؟

بھٹکل شہر اور نواحی علاقوں کی یہ صورت حال ہے تو مرڈیشور کی کہانی کچھ اور کہتی ہے۔ یہاں پہاڑ کے کھسکنے کا کوئی ڈر ویسے نظر نہیں آرہا ہے لیکن مرڈیشور کے لئے بارش کا پانی خطرہ بنتا جارہاہے۔ سیاحوں کو ترغیب دینے ، کمانے کی دوڑ میں مرڈیشور بے ڈھنگے طورپر بڑھتا جارہاہے۔ جہاں دیکھو وہاں مکانات اور  رہائشی گھر  تعمیر ہورہے ہیں۔ بارش کے پانی کو سمندر تک پہنچانےوالا کاری نالے کا راستہ بدل دیاگیا ہے۔ آج جہاں سے پانی بہتاہے، اور جس جگہ پانی جمع ہوتاہے اُن تمام  جگہوں پر  عمارتیں  کھڑی ہوگئی ہیں۔ اگر زیادہ بارش ہوتی ہے تو راستے، سڑکیں ، کھیت کھلیان سب کچھ  ندی نالوں میں تبدیل ہونا عام بات ہوگئی ہے۔پیسوں کی کھنک کے لئے پورے گاؤں کی تصویر  بگاڑنے کی  جوکوشش ہورہی ہے اس میں گرام پنچایت ، تحصیل افسران کی حصے دارہونے کا بھی  عوام الزام لگارہے ہیں۔

کہنے والے کہتے ہیں کہ  بارش بھلے کتنی  بھی  ہوجائے،آخر کاربارش  کا پانی سمندر میں ہی  مل جاتاہے  ۔مگر لوگوں کو کون سمجھائے کہ پانی سمندر میں ملنے سے پہلے ہی اگر شہر کو ہی غرق کردے تو کیا ہوگا ؟فی الحال اس طرح کی باتوں پر کوئی غور کرنے کے لئے تیار نہیں ہے۔ ہاں یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ جس طرح کیرلا اور قریبی ضلع کورگ  سیلاب کی زد میں آکر جن مشکلات اور پریشانیوں کو جھیل رہاہےایسی آفات سے بھٹکل کی حفاظت کرنا پورے عوام کے لئے ضروری ہے۔

ایک نظر اس پر بھی

منڈگوڈ میں ڈاکٹر انجلی نمبالکر  نے کہا : وزیر اعظم صرف من کی بات کرتے ہیں اور جن کی بات بھول جاتے ہیں  

لوک سبھا کے لئے کانگریسی امیدوار ڈاکٹر انجلی نمبالکر نے منڈگوڈ کے ملگی نامی علاقے میں انتخابی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ گزشتہ دس برسوں میں وزیر اعظم نریندرا مودی نے صرف من کی بات کی ہے اور انہیں کبھی جن کی بات یاد نہیں آئی ۔

اُتر کنڑا میں چڑھ رہا ہے سیاسی پارہ - پرچار کے لئے وزیر اعظم نریندر مودی اور کرناٹک کے وزیراعلیٰ سدا رامیا کریں گے ضلع کا دورہ

لوک سبھا انتخابات کے دوسرے مرحلے کے لئے اُتر کنڑا میں سیاسی پارہ پوری قوت سے اوپر کی طرف بڑھ رہا ہے کیونکہ اپنے اپنے امیدواروں کے پرچار کے لئے وزیر اعظم نریندرا مودی اور وزیر اعلیٰ سدا رامیا کے دورے طے ہوئے ہیں ۔

اُتر کنڑا میں آج سے 30 اپریل تک چلے گی عمر رسیدہ، معذور افراد کے لئے گھر سے ووٹ دینے کی سہولت

ضلع ڈپٹی کمشنر گنگو بائی مانکر کی طرف سے جاری کیے گئے بیان کے مطابق الیکشن کمیشن کی طرف سے معذورین اور 85 سال سے زائد عمر والوں کے لئے گھر سے ووٹ دینے کی جو سہولت فراہم کی گئی ہے، اتر کنڑا میں آج سے اس کی آغاز ہو گیا ہے اور 30 اپریل تک یہ کارروائی چلے گی ۔

انجمن گرلز کے ساتھ انجمن بوائز کی سکینڈ پی یو میں شاندار کامیابی پر جدہ جماعت نے کی ستائش؛ دونوں پرنسپالوں کوفی کس پچاس ہزار روپئے انعام

انجمن گرلز پی یو کالج کے ساتھ ساتھ انجمن بوائز پی یو کالج کے سکینڈ پی یو سی میں قریب97  فیصد نتائج آنے پربھٹکل کمیونٹی جدہ نے دونوں کالجوں کے پرنسپال اور اساتذہ کی نہ صرف ستائش اور تہنیت کرتے ہوئے سپاس نامہ پیش کیا، بلکہ ہمت افزئی کے طور پر دونوں کالجوں کے پرنسپالوں کو فی کس ...

یہ الیکشن ہے یا مذاق ؟ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔آز: ڈاکٹر مظفر حسین غزالی

ایک طرف بی جے پی، این ڈی اے۔۔ جی نہیں وزیر اعظم نریندرمودی "اب کی بار چار سو پار"  کا نعرہ لگا رہے ہیں ۔ وہیں دوسری طرف حزب اختلاف کے مضبوط امیدواروں کا پرچہ نامزدگی رد کرنے کی  خبریں آرہی ہیں ۔ کھجوراؤ میں انڈیا اتحاد کے امیدوار کا پرچہ نامزدگی خارج کیا گیا ۔ اس نے برسراقتدار ...

بھٹکل سنڈے مارکیٹ: بیوپاریوں کا سڑک پر قبضہ - ٹریفک کے لئے بڑا مسئلہ 

شہر بڑا ہو یا چھوٹا قصبہ ہفتہ واری مارکیٹ عوام کی ایک اہم ضرورت ہوتی ہے، جہاں آس پاس کے گاوں، قریوں سے آنے والے کسانوں کو مناسب داموں پر روزمرہ ضرورت کی چیزیں اور خاص کرکے ترکاری ، پھل فروٹ جیسی زرعی پیدوار فروخت کرنے اور عوام کو سستے داموں پر اسے خریدنے کا ایک اچھا موقع ملتا ہے ...

نئی زندگی چاہتا ہے بھٹکل کا صدیوں پرانا 'جمبور مٹھ تالاب'

بھٹکل کے اسار کیری، سونارکیری، بندر روڈ، ڈارنٹا سمیت کئی دیگر علاقوں کے لئے قدیم زمانے سے پینے اور استعمال کے صاف ستھرے پانی کا ایک اہم ذریعہ رہنے والے 'جمبور مٹھ تالاب' میں کچرے اور مٹی کے ڈھیر کی وجہ سے پانی کی مقدار بالکل کم ہوتی جا رہی ہے اور افسران کی بے توجہی کی وجہ سے پانی ...

بڑھتی نفرت کم ہوتی جمہوریت  ........ ڈاکٹر مظفر حسین غزالی

ملک میں عام انتخابات کی تاریخوں کا اعلان ہونے والا ہے ۔ انتخابی کمیشن الیکشن کی تاریخوں کے اعلان سے قبل تیاریوں میں مصروف ہے ۔ ملک میں کتنے ووٹرز ہیں، پچھلی بار سے اس بار کتنے نئے ووٹرز شامل ہوئے، نوجوان ووٹرز کی تعداد کتنی ہے، ایسے تمام اعداد و شمار آرہے ہیں ۔ سیاسی جماعتیں ...

مالی فراڈ کا نیا گھوٹالہ : "پِگ بُوچرنگ" - گزشتہ ایک سال میں 66 فیصد ہندوستانی ہوئے فریب کاری کا شکار۔۔۔۔۔۔۔(ایک تحقیقاتی رپورٹ)

ایکسپوژر مینجمنٹ کمپنی 'ٹینیبل' نے ایک نئی رپورٹ جاری کی ہے جس میں یہ انکشاف کیا گیا ہے کہ پچھلے سال تقریباً دو تہائی (66 فیصد) ہندوستانی افراد آن لائن ڈیٹنگ یا رومانس اسکینڈل کا شکار ہوئے ہیں، جن میں سے 81 فیصد کو مالی نقصان کا سامنا کرنا پڑا ہے۔

مسلمان ہونا اب اس ملک میں گناہ ہے۔۔۔۔۔۔۔۔از: ظفر آغا

انہدام اب ایک ’فیشن‘ بنتا جا رہا ہے۔ یہ ہم نہیں کہہ رہے بلکہ یہ مدھیہ پردیش ہائی کورٹ کا بیان ہے۔ بے شک مکان ہو یا دوکان ہو، ان کو بلڈوزر کے ذریعہ ڈھا دینا اب بی جے پی حکومت کے لیے ایک فیشن بن چکا ہے۔ لیکن عموماً اس فیشن کا نشانہ مسلم اقلیتی طبقہ ہی بنتا ہے۔ اس کی تازہ ترین مثال ...