درختوں پر لٹکتی لاشیں ، سڑکوں پر سسکتی ، ٹرپتی جانیں، حد نگاہ سروں کا ڈھیر ، زمین کا چپہ چپہ خون سے لت پت، سرِبازار عصمتیں تارتار، گھر زنداں ، بازار مقتل،بے گور وکفن پڑی نعشیں ، قید و بند کی صعوبتوں کو خوش آمدید کہتے مجاہدین، تختہ دار پر انقلاب زندہ باد کا نعرہ دیتے ہوئے شہداء،ایسے طوفانِ بلا خیز ظلم وستم سے گزرنے کے بعد ملک کی پیشانی پر ’’آزادی ‘‘کا ستارہ چمکا تو ظلمتوں، غموں، بے قراریوں ، خوف وہراس کے کالے (اُجلے )بادل چھٹ چکے تھے ، گوری چمڑی والے اپنی بساط لپیٹ چکے تھے۔ جدھر دیکھوادھر ترنگا، ترنگا ، ترنگا۔
غموں کے طوفان سے خوشی و مسرت کے آبشار ، رنجیدہ ماحول میں چشمے ابل رہے تھے ، مایوس و پژمردہ تن ، لہلاتے وطن کے گیت گارہاتھا، ہر اس ذی روح کو ملک کا چپہ چپہ سلام کررہاتھا جس نے بے چوں وچرا اپنی جانیں شہید کی تھیں۔
کیا کیا نہیں کیا انگریزظالموں نے ، اس خونچکاں داستاں کو بیان کرنے کے لئے کئی جلدیں درکارہیں۔ ملک کا ذرہ ذرہ ان کے ظلم و بربریت کی گواہی دے رہاہے،نام نہاد جمہوریت کے چمپئین ، امن کے بہروپیوں نےجو دست درازی اور لوٹ مار ، قتل و غارت گری مچائی اس سے ان کے اصلی چہرے بے نقاب ہوگئے ۔ وطن کے خزانوں کو لوٹنے ،انہوں نے نت نئے ہتھکنڈے جاری کئے ، غریب ، لاچارکسانوں کا خون چو س چوس کر اپنے ملک کی تجوری بھرتے رہے ۔ اور جب وطن کے متوالے ، ٹھان لیے ، مولانا حسرت موہانی نے انقلاب زندہ باد کا نعرہ لگایا تو انگریزوں کی روح کانپ اٹھی اور وہ بھگوڑے بھاگ کھڑے ہوئے۔
ہندوستان کی دولت و حشمت جو کچھ کہ تھی کافر فرنگیوں نے بتدریج کھینچ لی
ملک کی آزادی کے لئے جو شہید ہوئے ، جو دار پر لٹک گئے ، جو اپنا تن من دھن لٹا ئے ، اپنا سب کچھ برباد کیا وہ سب وطن کے سچے محبان تھے۔ ان میں ہندو بھی تھے، عیسائی بھی تھے، سکھ بھی تھے، پارسی بھی تھے۔ اورمسلمان ایک قدم آگے تھے۔ جنگ آزادی کی لڑائی تعصب و طبقات ، رنگ ونسل، دین دھرم کی بنیاد پر نہیں لڑی گئی تھی، بلکہ اس مٹی کا حق اداکرنے ، اللہ عطاکردہ سب بڑی نعمت ’’آزادی ‘‘ کو حاصل کرنے کے لئے بلاتفریق ہر ایک کندھے سے کندھا ملاکر جدوجہد کی تھی ۔ یہ بھی اس ملک کی بد قسمتی تھی کہ عین وقت پر اس کو مذہب کے نام پر سازشی ذہنیت نے تقسیم کا بٹا لگایا، جو انگریزوں کے لئے بڑی نعمتِ غیر مترقبہ ثابت ہورہی ہے ۔ اور ہم اہلِ وطن آج بھی اس کو سمجھ نہیں پارہے ہیں ، اس کو بدبختی کہیں یا بد قسمتی ۔
جب بھی یوم آزادی کے متعلق تقریبات کا انعقاد کیا جاتاہے وہاں برائے نام ایک یا دو مسلمانوں کانام لے کر بہلانے کی کوشش کی جاتی ہے، ملک کی سالمیت، یک جہتی ، بھائی چارگی ، امن و آشتی کے لئے ضروری ہے کہ نئی نسل کو جنگ ِ آزادی کی اصل اور سچی کہانی سے واقفیت کرایا جائے ۔ نئی نسل ایک طرح سے احساسِ کمتری میں مبتلا ہے کہ ہمارے اسلاف نے آزادی کے لئے کچھ کیا بھی ہے یا نہیں؟۔ ان کوبتائیں کہ جنگ ِ آزادی میں کروڑوں مسلمانوں نے نہ صرف بنفس نفیس شرکت کی بلکہ دوسروں کے پسینہ سے زیادہ اپنا خون بہا یا۔اور جوجنگ آزادی کے متعلق تعصب کا شکار ہیں وہ تعصب کی عینک سے نہیں ، حقیقت کی عینک سے تاریخِ آزادی کا مطالعہ کریں تو آنکھوں کی بینائی لوٹ آئے گی ۔ وہیں ہماری نئی نسل سمجھ لے کہ ان سرفروشانِ آزادی کے صرف نام گنوانے کےلئے جلدوں کی ضرورت ہے۔ ہر شہر، شہر کے نکڑ، گلی کوچے ، جدوجہد کے ہر ہر گام پر ان کے نقوش ثبت ہیں کہ آج بھی مہکنے والی خوشبو گواہی دے رہی ہے
اُف یہ جادہ کہ جسے دیکھ کے جی ڈرتاہے کیا مسافر تھے جو اس راہ گذر سے گزرے
ہماری نئی نسل اپنی فضولیات کو چھوڑ کر تھوڑا سا وقت نکال کر کم سے کم ایسے موقعوں پرصاحبِ غیرت مسلمانوں کے قائدانہ اور سرفروشانہ کردار اداکرنے والے مولانا محمود الحسن، حکیم اجمل خان، علی برادران، مولانا برکت اللہ بھوپالی، مولانا نور الدین بہاری،مولانا آزاد سبحانی ، مولانا حسرت موہانی ، میسور کے غیور حکمران حیدرعلی اور ٹیپو سلطان، مولانا احمد شہید، مولانا اسمعیل شہید، بخت خان، مولانا لیا قت علی ، مولانا عنایت علی، مولانا عبدالجلیل، فاضل محمد خان، نواب صدیق حسن خان، سعید اللہ خاں رزمی ، شاکر علی خاں، مولانا طرزی مشرقی ، ظہور ہاشمی ، فضل علی سرور، غلام عباس، جمن، رمضانی ، غلام علی ، حاضی جان، اصغر علی ، پیر بخش ، وحید علی ، راحت علی ، محمد اختر، مولانا احمد شاہ حاجی امداد اللہ ، مولانا فضل حق خیر آبادی ، مولانا عبدالقادر لدھیانوی، بیگم حضرت محل کہاں تک شمار کریں ، قلم تھک جاتاہے ، سیاہی ختم ہوجاتی ہے ، فہرست جوں کی توں جاری رہے گی ۔ اسی طرح ریشمی رومال تحریک، تحریک خلافت، کسانوں کی فرائضی تحریک جیسی اہم تحریکات کا بھی مطالعہ کریں تاکہ ہم سینہ تان کے کہہ سکیں یہ ملک ہمارا بھی ہے۔ یہی سچائی ہے ، تاریخ کے پنے اس سے بھرے پڑے ہیں۔ جنگ آزادی میں مسلمانوں کے کردار کے جو انمٹ نقوش ثبت ہیں وہ کسی کے مٹائے نہیں مٹ سکتے ، اس لئے کہ وہ قلم اور سیاہی سےنہیں بلکہ مخلص خون سے رقم کردہ ہیں ۔
آخر میں بس یہی کہنا چاہتے ہیں کہ آزادی کے 7دہوں بعد بھی ہم اپنے ملک کو وہ ترقی نہیں دے سکے جو ہمارے اسلاف کا خواب تھا۔ اس کی وجہ یہی ہے کہ ملک کے نام پر گندی سیاست ، مفاد پرستی ، خو د غرضی ہونے لگی ہے ، گلی کوچے وطن کی محبت میں سرشار ہونے کے بجائے نفرت، ہنگامہ خیزی ۔خوں ریز فسادات کا دور دورہ ہو توملک کیسے ترقی کر ے گا۔ ملک کا ہر شہری آج بھی وطن عزیز کو دنیا کا عظیم ملک بنانے کا خواب لئے بیٹھا ہے ، اس کی تمنا ہے کہ وہ ہر میدان ، ہر شعبہ میں اعلیٰ مقام حاصل کرے ، ہائے افسوس ! وقت کے حکمرانوں کو اس کی خبر کہاں ، وہ تو اپنی سیاست چمکانے میں مصروف ہیں،اپنی مگن میں دھت ہیں، ان خوابوں کی بہتر تعبیر بتانے سے ملک کے رہنما ہی قاصرہیں تو پھر ملک کیسے ترقی کی منزلیں طئے کرے گا، کیسے اور کس طرح اس ملک کو عظیم بنائیں گے ؟ غور کریں ! ہم روشن مثبت پہلوؤںکو پیش نظر رکھیں، ماضی کو محض ایک ورثہ کے طورپر نہیں بلکہ مستقبل میں اپنے کی تعمیر وترقی میں اس جدجہد کی عظیم روایات کو فروغ دے سکیں۔آیئے ، جس طرح ہم سب نے مل کر ملک کی آزادی حاصل کی ہے اسی حوصلے و جذبے سے سرشار ہوکر ملک کو عظیم ملک بنائیں ۔ ادارہ ساحل آن لائن ملک کے باسیوں کو یوم آزادی کی پُر خلوص مبارکبادی پیش کرتاہے۔
انقلاب زندہ باد۔ جئے ہند