بھٹکل 8 / اگست (ایس او نیوز) گزشتہ دنوں ہوئی بھاری برسات کے بعد مٹھلّی گرام پنچایت علاقے میں پہاڑی کھسکنے سے چار افراد کی موت واقع ہونے کا جو واقعہ پیش آیا تھا اس کے بعد وہاں پر بسنے والے لوگ خوف اور خدشات میں گھر گئے ہیں ۔
مٹھلّی کے اس علاقے میں 25 فیصد سے زیادہ لوگ ایسی پہاڑیوں کے نیچے رہائش پزیر ہیں جہاں پر لال مٹی یا پتھروں کی کھدائی کی گئی ہے ۔ یہاں بہت سے لوگوں نے لاکھوں روپے قرضہ لے کر جدید سہولتوں والے مکانات تعمیر کیے ہیں ۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ مٹھلّی اور تلاند کے علاقے میں لال پتھروں کی کھدائی کا کام زور و شور سے جاری رہتا ہے کہا جاتا ہے کہ پہاڑی پر کھدائی کرنے والے کاروباری حضرات ایک مقدار میں سخت پتھر نکالنے کے بعد ذرا گہرائی میں جب نرم پتھر آ جاتے ہیں اور اس زمین کو یونہی چھوڑ دیتے ہیں ۔ جس کی وجہ سے یہاں وہاں کٹی ہوئی چٹانوں اور گڈھوں کی بھرمار ہے ۔
ایسے علاقوں میں جہاں رستے کی سہولت موجود ہے وہاں پر کٹی ہوئی پہاڑیوں کے نشیب میں لوگ مکانات تعمیر کرلیتے ہیں ۔ مٹھلّی گرام کے ایکیگولی علاقے میں 15 تا 20 مکان ایسی جگہ موجود ہیں جہاں پر اس وقت پہاڑی میں شگاف نظر آنے لگا ہے ۔ لوگوں کا کہنا ہے کہ پہاڑی کے اوپری حصے میں لال پتھروں کی کھدائی ہو رہی ہے اس وجہ سے یہ دراڑیں پیدا ہوئی ہیں ۔ اور یہ صورت حال صرف مٹھلّی اور تلاند کی نہیں ہے بلکہ بھٹکل تعلقہ کے مختلف علاقوں میں جہاں جہاں لال پتھروں کی کھدائی ہوتی ہے وہاں ہر جگہ یہی منظر اور حالات نظر آتے ہیں ۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ لال پتھروں کی جہاں کھدائی ہوتی ہے وہاں کی زمین مسلسل برسات کی وجہ سے نرم ہوتی جاتی ہے اور پہاڑی کا بچا کھچا حصہ دھیرے دھیرے ٹوٹنے اور کھسکنے لگتا ہے ۔
اب جو مٹھلّی میں پہاڑ کی مٹی کھسکنے کا سانحہ پیش آیا ہے اس کے بعد برسات تیز ہوتے ہی پہاڑیوں کے نشیب میں بسنے والوں کی نیندیں حرام ہو جاتی ہیں ۔ بعض مقامات پر زمین اور پہاڑی کھسکنے کا امکان دیکھتے ہوئے لوگ اپنے آپ ہی دوسرے محفوظ مقامات پر منتقل ہونے کو ترجیح دے رہے ہیں ۔