بھٹکل : شرالی پروگرام میں سوامی برہمانند کی تقریر کا خلاصہ - ریاستی سیاست کا شدھی کرن کرنے کے لئے سادھو سنت اتریں گے میدان میں ۔ رام راجیہ لانے کے لئے لڑیں گے انتخابات
شیرالی شاردا ہولے مندر کی تجدید کاری اور افتتاح نو کے موقع پر برہمانند سوامی نے وہاں پر موجود عوام کے علاوہ اسمبلی اسپیکر وشویشورا ہیگڈے کاگیری، موجودہ اور سابق اراکین اسمبلی اور سیاسی لیڈران سے خطاب کرتے ہوئے جو سیاسی باتیں کیں اس کا خلاصہ پیش خدمت ہے :
"مذہبی عقیدت و احترام کے مراکز لوگوں کے اندر تحریک و ترغیب پیدا کرنے کا سبب بننے چاہئیں ۔آج راجاوں کا دور نہیں رہا ہے ۔ اب ہم کاگیری (اسمبلی کے اسپیکر) یا کسی رکن اسمبلی کو راجا مانتے ہیں ۔ ان لوگوں کو چاہیے کہ اپنی پرجا کی دیکھ بھال اپنی اولاد کی طرح کریں ۔ یہ کام نہیں ہو رہا ہے ۔ میں ودھان سبھا کے اسپیکر کاگیری کے علم میں یہ بات لانا چاہتا ہوں کہ تقریباً 8 لاکھ سادھو میرے عقیدت مندوں میں شامل ہیں ۔ ہم لوگ مہینے دو مہینے میں ایک مرتبہ بیٹھ کر سوچتے ہیں کہ ریاست کی صورتحال اپنی سمت کھو رہی ہے ۔ جب ہم اسمبلی کی کارروائی اور اسپیکر کی حالت دیکھتے ہیں تو ایسا لگتا ہے کہ جیسے مارکیٹ میں ہنگامہ چل رہا ہے ۔ ہمیں پتہ نہیں چلتا ہے کہ آئین نام کی کوئی چیز ہے یا نہیں ہے ۔ ریاست نام کا کوئی تصور ہے بھی یا نہیں ہے ۔
اس کا علاج یہ ہے کہ صورتحال میں بڑی تبدیلیاں لائی جائیں ۔ اس کے لئے اب ہم سنیاسی تیار ہوگئے ہیں ۔ ہمیں کچھ بھی نہیں چاہیے ۔ ہم سنیاسی ہیں ۔ اس کے لئے ہمیں آدتیہ ناتھ (یوگی) سے ترغیب و تحریک ملی ہے ۔ اس ترغیب کے تحت ہم لوگوں نے اتر ا کھنڈ میں بہت سی میٹنگس منعقد کی ہیں ۔ کاگیری صاحب ! ہم اس کا ابتدائی تجربہ بھٹکل میں کرنے کے بارے میں سوچ رہے ہیں ۔ ہم 50 کے قریب سنت اب الیکشن میں کھڑے ہونے کے لئے تیار ہو گئے ہیں ۔ اس کا مقصد لیجسلیچر (قانون سازی کی مجلس) کی صورتحال کو پوری طرح بدل کر رکھنا ہے ۔ آج ہمارے سیاسی لیڈروں کو لیجسلیچر اور آئین کیا ہے اس کے بارے میں کچھ بھی پتہ نہیں ہے ۔
آج سیاست میں داخل ہونے کا مقصد فقط شہرت اور پیسہ کمانا اور عیش کرنا ہے ۔ جب قانون کی جانکاری نہ رکھنے والے ہی لیجسلیچر میں شامل ہوجائیں گے تو وہ قانون سازی کے حدود اور طریقہ کو کیسے سمجھ سکیں گے ۔ اس لئے قانون میں ترمیم ہونی چاہیے ۔ اگر کوئی ایم ایل اے بنتا ہے تو اس کا گریجویٹ یا پوسٹ گریجویٹ ہونا ضروری ہو ۔ کوئی منسٹر بنتا ہے تو اسے قانون کا ودھوان (پوری جانکاری رکھنے والا ، ماہر) ہونا چاہیے ۔ محض چوتھی اوردسویں کلاس پڑھے ہوئے لوگوں کو وزیر بنایا جائے گا تو وہ کیا پالیسیاں بنائے گا اور کس طرح پالیسیوں پر عمل کرے گا؟ یہ ممکن ہی نہیں ہے ۔ اسی لئے ہم کہتے ہیں کہ ابتدائی طور پر آئندہ انتخاب میں بھٹکل سے برہمانند تجربہ کریں گے ۔ آپ کو ہماری انتخابی تشہیر کرنے کی ضرورت نہیں ہے ۔ اس کے لئے ہمارے 5 لاکھ ناگا سادھو آئیں گے ۔ اگر سنیل نائک ، منکال ، جے ڈی نائک ، آر این نائک انتخابی امیدوار ہونگے تو بھی میں سمجھتا ہوں کہ وہ میرے حق میں میدان سے پیچھے ہٹ جائیں گے ۔
ہم ایک نئے رام راجیہ کے تصور کے ساتھ نئے ادارے کو جنم دیں گے ۔ 5 لاکھ ناگا سادھو خود یہاں آ کر کرناٹک میں تشہیری مہم چلائیں گے ۔ کیونکہ ہم، آپ لوگوں سے بیزار آگئے ہیں ۔ آپ لوگوں کی اصلاح کرنا ممکن نہیں ہو رہا ہے ۔ بڑے دکھ سے کہہ رہا ہوں کہ آئین اور لیجسلیٹر کی مرمت کرنا ممکن نہیں ہو رہا ہے ۔ اسمبلی کے اسپیکر(کاگیری) کو میں یہ بات بتادوں کہ آپ کو ہمیں تنخواہ دینے کی ضرورت نہیں ہے ۔ ہمیں صرف راشن دیں گے ، کھانا دیں گے تو کافی ہے ۔ آپ کے ٹی اے ڈی اے کی بھی ہمیں ضرورت نہیں ہے ۔ ہم سنیاسی ہیں ۔ ہمیں پنشن دینے کی بھی ضرورت نہیں ہے ۔ ہمارا تصور اور سوچ یہ ہے کہ حالات کی ترمیم و اصلاح کرنا سناتن ہندو دھرم ہے ۔ لیکن اس وقت اصلاح کرنا ممکن نہیں ہو رہا ہے ۔ وہ لوگ (لیجسلیچر) جو کچھ بھی کرتے ہیں وہی درست ٹھہرتا ہے ۔ آپ انہیں بیرونی ممالک کے ٹور پر بھیجتے ہیں ۔ اس سے کچھ بھی فائدہ نہیں ہوتا ۔ دہلی جاتے ہیں ، امریکہ جاتے ہیں، وہاں پر ایک لاکھ روپے دو لاکھ روپے کرایہ والے روم میں قیام کرتے ہیں ۔ کیا سونے اور نیند پانے کے لئے 1 لاکھ روپے کرایہ والے کمرے کی آخر ضرورت کیا بھائی ؟ چار پانچ گھنٹے کی نیند کے لئے پانچ سو روپے کرایہ والا کمرہ کافی ہوتا ہے ۔ 50 روپے میں ہمیں کھانا مل جاتا ہے ۔ مگر سرکار کے پاس موجود عوام کا پیسہ جس طرح بے دریغ خرچ کیا جارہا ہے اسے دیکھ کر ہماری آنکھوں میں آنسو آجاتے ہیں ۔
اب ہم نے کرناٹکا میں 50 سنیاسیوں کو سیاست کے لئے تیار کرنے کا فیصلہ کیا ہے ۔ میں دکھ کے ساتھ کہتا ہوں کہ ہمیں سیاسی دلچسپی نہیں ہے لیکن لیجسلیچر کو آلودگی سے کیسے پاک و صاف کیا جا سکتا ہے اس پر کام کرنے کی خواہش ہے ۔ دیکھئے آج سب سے اعلیٰ مقام پر جوڈیشری (عدلیہ) ہے ۔ اس کے بعد لیجسلیچر ہے ۔ انتظامیہ ہے ۔ ہمارا مقصد ان سب کا ڈی سینٹرلائزیشن کرنا ہے ۔ کیا اس کا ڈی سینٹر لائزیشن ہو رہا ہے ؟ نہیں ہو رہا ہے ۔ الٹے سینٹرلائزیشن کیا جا رہا ہے ۔ آج ایک آئی اے ایس ، آئی پی ایس آفیسر کو ایک لیٹر لینے کے لئے عام آدمی کے سامنے ہاتھ باندھ کر کھڑا ہونا پڑتا ہے ۔ دستور سازی وقت جوڈیشری ، انتظامیہ اور لیجسلیچر وغیرہ کے اختیارات کو بالکل واضح کردیا گیا ہے ۔ ان آئینی حقوق کی خلاف ورزی پر سوال اٹھانے والی ایک باڈی ہونی چاہیے ۔ ججس پر مشتمل ایک نگراں کمیٹی ہر ایک تعلقہ میں ہونی چاہیے ۔ آپ کے منتخب اراکین اسمبلی کے لئے آپ کو ہر مہینے ایک ٹریننگ سیشن رکھنا چاہیے ۔ اسسٹنٹ کمشنروں اور تحصیلداروں کو آپ ٹریننگ دیتے ہو ۔ ان اراکین اسمبلی کو ٹریننگ کیوں نہیں دی جاتی ؟ ریٹائرڈ ججس ، ریٹائرڈ ججس کے ذریعے ان اراکین کو آئین کے اطلاق اور تحفظ کے تعلق سے ٹریننگ دی جانی چاہیے ۔ کیونکہ یہ لوگ آئین کا سر جانتے ہیں نہ پیر ۔ بس آئین آئین کی رٹ لگاتے رہتے ہیں ۔ وہاں (اسمبلی میں) حکمراں پارٹی اور اپوزیشن ، میری پارٹی تمہاری پارٹی کے نام پر پورا دن ہنگامہ آرائی کرتے ہیں اور پھر اس کے بعد ایوان کے گلیاروں میں ایک دوسرے کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر باہر نکلتے ہیں اور کینٹین میں جا کر چائے نوشی کرتے ہیں ۔ یہ حال دیکھ کر ہم سنتوں کا دل دُکھتا ہے اور آنکھوں سے آنسو نکلتے ہیں ۔
ان سب حالات کے پیش نظر ہم چاہتے ہیں کہ ہماری ریاستی سیاست کا شدھی کرن کیا جائے ۔ ہماری کوئی پارٹی نہیں ہے ۔ رام راجیہ یا سناتن ہندو دھرم کا تصور ہی ہماری پارٹی ہے ۔ مذہبی بنیادوں پر حکومت کے احیاء کا تصور ہے ۔ اس سوچ اور فکر سے کسی کو گھبرانے کی ضرورت نہیں ہے ۔ ہر کسی کو یکساں حقوق حاصل ہونگے ۔ کسی کو یہ سوچ کر خوف زدہ ہونے کی ضرورت نہیں ہے کہ سوامی جی انتخاب لڑیں گے یا جیت جائیں گے تو یہاں سے ہم لوگوں کو بھگا دیں گے ۔ آئین میں ہر ایک ذات اور نسل کو یکساں مواقع دئے گئے ہیں ۔
میں توقع رکھتا ہوں کہ کانگریس ہو یا بی جے پی کے سیاست دان ہوں سب ہماری اس سیاسی شدھی کرن کی سوچ کی حمایت کریں گے ۔ ہم اراکین اور وزیر بن کر آپ کی جو خواہشات ہیں وہ سب پوری کریں گے ۔ ہمیں کچھ بھی نہیں چاہیے ۔ آپ کو تنخواہ دی جاتی ہے ۔ ریٹائر ہونے پر تنخواہ ملتی ہے ۔ آپ کی تنخواہ بڑھانے کی جب بات ہوتی ہے تو بی جے پی اور کانگریس والے ایک ساتھ ہاتھ اٹھا کر حمایت کرتے ہیں ۔ یہ آپ لوگوں کا کیا گٹھ جوڑ ہے یہ سمجھ میں نہیں آتا ۔
آپ لوگ سوچ سکتے ہیں سوامی جی دھرم کے اجلاس میں سیاست کی بات کیوں کر رہے ہیں ۔ دھرم اور سیاست کو ایک ساتھ چلنا چاہیے ۔ آئین اور مذہب الگ نہیں ہے ۔ لیکن جب آئین مذہب سے ٹکرائے تو پھر مذہب کو افضل سمجھنا اور اس پر عمل کرنا چاہیے ۔ اسمبلیوں میں قانون کی ترمیم صحیح ہو یا غلط ، لیکن اراکین صرف ہاتھ اٹھا کر اسے منظور کردیتے ہیں ۔ دھرم میں ترمیم نہیں کی جا سکتی ۔ ہمارا دھرم ہمیشہ اسی طرح باقی رہنے والا ہے ۔ اس لئے مذہبی بیداری لانے کی مہم ایک ایک گھر تک چلائی جانی چاہیے ۔"