بھٹکل:جنگل کے اندھیرے میں گزر بسر کرنے والا مراٹھی طبقہ : خوف وہراس کے سائے میں انسان کی تلاش

Source: S.O. News Service | By Abu Aisha | Published on 23rd October 2016, 12:18 AM | ساحلی خبریں | اسپیشل رپورٹس |

بھٹکل  :22/اکتوبر(ایس او نیوز) یہ کوئی بلگام کی سرحدپر ہنگامہ کرنے والے تو نہیں، مہا دائی ندی کے پانی کے لئے کبھی تکرار بھی نہیں کی، اس کے باوجود یہ سب مراٹھی کہلاتےہیں۔ مراٹھا جنگ کے دوران مخالف فوج کی چڑھائی کے بعد خوف کے مارے محفوظ مقام کی تلاش کرتےہوئے جنگل میں بس کر صدیاں گزرگئیں مگر ابھی تک باہر نہیں نکلے ہیں۔ ملک کو آزاد ہوئے 7دہے گزرنے کے بعد بھی انہیں باہر کا خوف ستارہاہے۔

ان مراٹھیوں کو مقامی سطح پر کمری مراٹھی کے نام سے یاد کیا جاتاہے، تعلقہ کے ہاڈولی کے ہوڈیل ، ہینجلے ، بڑے باگ، کولواڑی ، ہیجیلو، ککوڑ، ہسرولی ، کوناور کے مگلی ، ماروکیری کے انترولی، بیلکے کے ہیریبڈکی ، کوپہ کے گجماؤں، بنگلوڑی ، ککے ، وندلسے ، کولگیری ، کائی کنی کے ابریے، شرانی ، مولی میں کمری مراٹھی رہائش پذیر ہیں۔ تعلقہ میں ان کی کل آبادی 5000ہزار کے قریب  آبادی ہے۔ ان کی مادری زبان کوکنی سے ملتی جلتی مراٹھی زبان ہے۔ پڑوس کے بیندور، اترکنڑا ضلع کے سرسی ، سداپورعلاقہ میں مراٹھیوں کی  بہت بڑی آبادی بستی ہے، ان کے لئے سبز جنگل ہی زندگی کی علامت رکھتاہے، وہیں اپنی ضروریات کی فصل اگا کر زندگی کا گزارا کرتے ہیں۔ کٹھا میٹھا سب کچھ اسی جنگل سے حاصل کرتے ہیں، ادھر دو دہوں سے تعلقہ کے زیادہ تر مراٹھی طبقہ کے لوگ بھٹکل کے سنڈے مارکیٹ کا بھی رخ کرتے رہے ہیں۔ مراٹھیوں کو دھونڈ ڈھونڈ کر انہیں پنچایت کے ممبر بنا کربٹھا ئے ہیں، معصوم و سنجید ہ طبیعت کے یہ لوگ، آپسی جھگڑے وغیر ہ کی بنیاد پر پولس تھانہ آتے جاتے بہت کم دیکھا گیا ہے۔ صدیوں کے بعد بھی ان کے ذہنوں سے اجنبیت کا احساس نہیں گیا ہے۔ آقا ( اپنے علاوہ بقیہ تمام ان کے لئے آقا کا درجہ رکھتے ہیں)کے خوف میں جیتے ہیں، آج بھی گاؤں کا گوڈا ہی آپسی معاملات کافیصلہ کرتاہے۔حالیہ برسوں میں طبقہ کے کچھ بچے اسکولوں کا بھی رخ کررہے ہیں، لیکن جنگل میں نڈرہوکر اپنی زندگی گزارنے والے مراٹھی باہر کے افسران اور قانون کے خوف میں جکڑے ہوئے ہیں، اپنی زندگی کی تعمیر سے زیادہ انہیں مستقبل کا ڈر ستاتارہتاہے۔ وقت کے ساتھ ساتھ آبادی میں بھی اضافہ ہواہے، جہاں تہاں چند ایک زمین کے مالک تو ہیں لیکن فاریسٹ قانون کے مطابق موجودہ گھروں میں کوئی تبدیلی نہیں کرسکتے۔ بغیر مرمت کے کتنے ہی مٹی کے گھر علاقہ میں دیکھے جاسکتے ہیں، لیکن ان میں سے اکثر گھروں میں بجلی نہیں ہے، گرمی کے موسم میں پینے کے لئے پانی کی قلت بھی ہوتی ہے، جانور بھی سست ہوجاتے ہیں،دھان کی فروخت کاری کے لئے لگائے سخت قوانین ، پیٹ کا پتھر بنے ہیں۔ کئی ایک روایتی فصلیں بند ہوگئی ہیں، جو بندے کچھ کام جانتےہیں انہیں تربیت دے کر دستکاری یا چھوٹے چھوٹے کاموں میں لگائے رکھنے کا کوئی جذبہ نہیں ہے۔ انگریزوں کے زمانے سے 1984تک راگی کی فصل کے لئے انہیں زمین مہیا کی گئی تھی ، جس کے لئے فاریسٹ افسران جرمانہ کے طورپر لیڈر کے نام پر رسید دیا کرتے تھے۔ لیکن  اس کے بعد فاریسٹ افسران رخ بدلنے سے زمین بنجر ہوگئی ہے۔ صدیوں کے مطالبہ کے بعد بڑے باگ میں جھولنے والے پل کی تعمیر کرنا ہی بہت بڑی ترقی ہے۔ اسی طرح کا ایک جھولنے والا پل کاکام ہینجلے میں جاری ہے۔ لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ پل سے منسلک کرنے والا کوئی راستہ نہیں ہے، یہاں بھی فاریسٹ محکمہ سد راہ بنا ہواہے۔ حالات یہ ہیں تو پھر سرکاری بسوں کا آناجانا خواب ہی ہوگا۔ حاملہ عورتوں کو کمبل میں لپیٹ کر گھومنے والے منظر عام ہیں، اس سے زیادہ کی درگت پڑوس کے ضلع میں ہے ۔ ریاست میں انہیں پسماندہ طبقہ کے درجہ میں شامل کئے جانے کے باوجود اترکنڑا ضلع میں انہیں 3اے کی فہرست میں شمار کیا جاتاہے۔ انصاف اور بے انصافی کا بھی جنہیں شعور نہ رکھنےو الے مراٹھی کہیں مزید جنگل کے اندھیرے میں گم نہ ہوجائیں۔ اور صرف جنگلی جانوروں کی ہی آواز پر اکتفا نہ کریں ، بلکہ انہیں بھی انسان سمجھ کر ان کی زندگی کی ترقی کی فکر کرنا انتظامیہ کا کام نہیں ؟

ایک نظر اس پر بھی

منگلورو سائی مندر کے پاس بی جے پی کی تشہیر - بھکتوں نے جتایا اعتراض

منگلورو کے اوروا میں چیلمبی سائی مندر کے پاس رام نومی کے موقع پر جب بی جے پی والوں نے پارلیمانی انتخاب کی تشہیر شروع کی تو وہاں پر موجود سیکڑوں بھکتوں نے اس کے خلاف آواز اٹھائی جس کے بعد بی جے پی اور کانگریسی کارکنان کے علاوہ عام بھکتوں کے درمیان زبانی جھڑپ ہوئی

اُڈپی - کنداپور نیشنل ہائی وے پر حادثہ - بائک سوار ہلاک

اڈپی - کنداپور نیشنل ہائی وے پر پیش آئی  بائک اور ٹرک کی ٹکر میں  بائک سوار کی موت واقع ہوگئی ۔     مہلوک شخص کی شناخت ہیرور کے رہائشی  کرشنا گانیگا  کی حیثیت سے کی گئی ہے جو کہ اُڈپی میونسپالٹی میں الیکٹریشین کے طور پر ملازم تھا ۔

بھٹکل سنڈے مارکیٹ: بیوپاریوں کا سڑک پر قبضہ - ٹریفک کے لئے بڑا مسئلہ 

شہر بڑا ہو یا چھوٹا قصبہ ہفتہ واری مارکیٹ عوام کی ایک اہم ضرورت ہوتی ہے، جہاں آس پاس کے گاوں، قریوں سے آنے والے کسانوں کو مناسب داموں پر روزمرہ ضرورت کی چیزیں اور خاص کرکے ترکاری ، پھل فروٹ جیسی زرعی پیدوار فروخت کرنے اور عوام کو سستے داموں پر اسے خریدنے کا ایک اچھا موقع ملتا ہے ...

نئی زندگی چاہتا ہے بھٹکل کا صدیوں پرانا 'جمبور مٹھ تالاب'

بھٹکل کے اسار کیری، سونارکیری، بندر روڈ، ڈارنٹا سمیت کئی دیگر علاقوں کے لئے قدیم زمانے سے پینے اور استعمال کے صاف ستھرے پانی کا ایک اہم ذریعہ رہنے والے 'جمبور مٹھ تالاب' میں کچرے اور مٹی کے ڈھیر کی وجہ سے پانی کی مقدار بالکل کم ہوتی جا رہی ہے اور افسران کی بے توجہی کی وجہ سے پانی ...

بڑھتی نفرت کم ہوتی جمہوریت  ........ ڈاکٹر مظفر حسین غزالی

ملک میں عام انتخابات کی تاریخوں کا اعلان ہونے والا ہے ۔ انتخابی کمیشن الیکشن کی تاریخوں کے اعلان سے قبل تیاریوں میں مصروف ہے ۔ ملک میں کتنے ووٹرز ہیں، پچھلی بار سے اس بار کتنے نئے ووٹرز شامل ہوئے، نوجوان ووٹرز کی تعداد کتنی ہے، ایسے تمام اعداد و شمار آرہے ہیں ۔ سیاسی جماعتیں ...

مالی فراڈ کا نیا گھوٹالہ : "پِگ بُوچرنگ" - گزشتہ ایک سال میں 66 فیصد ہندوستانی ہوئے فریب کاری کا شکار۔۔۔۔۔۔۔(ایک تحقیقاتی رپورٹ)

ایکسپوژر مینجمنٹ کمپنی 'ٹینیبل' نے ایک نئی رپورٹ جاری کی ہے جس میں یہ انکشاف کیا گیا ہے کہ پچھلے سال تقریباً دو تہائی (66 فیصد) ہندوستانی افراد آن لائن ڈیٹنگ یا رومانس اسکینڈل کا شکار ہوئے ہیں، جن میں سے 81 فیصد کو مالی نقصان کا سامنا کرنا پڑا ہے۔

مسلمان ہونا اب اس ملک میں گناہ ہے۔۔۔۔۔۔۔۔از: ظفر آغا

انہدام اب ایک ’فیشن‘ بنتا جا رہا ہے۔ یہ ہم نہیں کہہ رہے بلکہ یہ مدھیہ پردیش ہائی کورٹ کا بیان ہے۔ بے شک مکان ہو یا دوکان ہو، ان کو بلڈوزر کے ذریعہ ڈھا دینا اب بی جے پی حکومت کے لیے ایک فیشن بن چکا ہے۔ لیکن عموماً اس فیشن کا نشانہ مسلم اقلیتی طبقہ ہی بنتا ہے۔ اس کی تازہ ترین مثال ...

کیا وزیرمنکال وئیدیا اندھوں کے شہر میں آئینے بیچ رہے ہیں ؟ بھٹکل کے مسلمان قابل ستائش ۔۔۔۔۔ (کراولی منجاو کی خصوصی رپورٹ)

ضلع نگراں کاروزیر منکال وئیدیا کا کہنا ہے کہ کاروار میں ہر سال منعقد ہونےو الے کراولی اتسوا میں دیری اس لئے ہورہی ہے کہ  وزیرا علیٰ کا وقت طئے نہیں ہورہاہے۔ جب کہ  ضلع نگراں کار وزیر اس سے پہلے بھی آئی آر بی شاہراہ کی جدوجہد کےلئے عوامی تعاون حاصل نہیں ہونے کا بہانہ بتاتے ہوئے ...