شہری حقوق تنظیموں نے بنگلور کے دو علاقوں میں ہوئے تشدد کیلئے پولیس کی سستی کو قرار دیا ذمہ دار، گرفتار شدگان پر یو اے پی اے عائد کرنے پر اُٹھائے سوال
بنگلورو، 17 ؍ ستمبر (ایس او نیوز) بنگلورو کے کاڈو گوڈن ہلّی (کے جی ہلّی) اور دیور جیون ہلّی ( ڈی جے ہلّی) میں 11؍اگست کو پیش آنے والے پر تشدد واقعات کے متعلق شہری حقوق تنظیموں نے اپنی تحقیقاتی رپورٹ میں پولس کی سُستی کو تشدد کے لئے ذمہ دار قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ فیس بُک پر اسلام مخالف پیغام پوسٹ کرنے پر اگر پولس نے فوری کاروائی کی ہوتی تو حالات قابو سے باہر نہ ہوتے ۔تحقیقی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پولیس کی طرف سے بروقت کارروائی کرنے میں ناکامی کے سبب صورتحال قابو سے باہر ہوئی تھی۔
بنگلورو کے سیول سوسائٹی سے وابستہ مختلف تنظیموں کے نمائندوں پر مشتمل تحقیقاتی ٹیم نے جو 23 ؍نامور افراد پر مشتمل ہے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ کے جی ہلّی اور ڈی جے ہلّی میں ہوئے تشدد کو قطعی طور پر فرقہ ورارانہ نہیں کہا جاسکتا کیونکہ اس تشدد کے دوران مسلم نوجوانوں نے ہندو عبادت گاہوں کی حفاظت کی ہے۔ ٹیم نے کہا کہ تحقیقات کے دوران اس بات کا کوئی ثبوت نہیں ملا ہے کہ پُرتشدد ہجوم فرقہ وارانہ نوعیت کا تھا، البتہ اس تشدد کی آڑ میں بی جے پی اور اس کی ہمنوا تنظیموں نے سیاسی فائدہ اُٹھانے کی کوشش ضرورکی۔
رپورٹ کے مطابق تشدد مچانے والوں نے صرف ہندو ٹھکانوں کو نشانہ نہیں بنایا بلکہ مسلمانوں کی املاک کو بھی نشانہ بنایا ہے۔ بڑی تعداد میں مسلمانوں کی گاڑیاں بھی جلادی گئی ہیں جس کے متعلق شکایتیں پولیس تھا نے میں درج کی گئی ہیں۔ مقامی ہندوؤں نے بتایا ہے کہ جب ان کے گھروں پر حملہ کی کوشش کی گئی تو پڑوسی مسلمانوں نے ان کی حفاظت کی ۔ اسی طرح پولیس تھانوں کے باہر جب بھیڑ بڑھتی جارہی تھی تو اسی وقت پولیس اگر حرکت میں آجاتی تو شاید حالات اس قدر نہ بگڑتے۔ کہا گیا ہے کہ جیسے ہی توہین آمیز پیغام فیس بک پر پوسٹ ہوا مختلف تنظیموں کے چھوٹے چھوٹے وفود نے پولیس تھانوں کا رُخ کیا اور شکایت درج کروانے کے لئے پولیس حکام سے ملاقات کی ۔ اگر اسی وقت پولیس نے شکایت درج کر کے ایف آئی آر تیار کر لی ہوتی تو احتجاج کی نوبت ہی نہ آتی۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اس تشدد کے سلسلہ میں گرفتار افراد کے خلاف پولیس کی طرف سے انسداد غیر قانونی سرگرمی قانون (یو اے پی اے ) کے تحت کیس درج کیا گیا ہے جو غیر ضروری ہے۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس تشدد کے سلسلہ میں گرفتار کئے گئے ملزمین کی بہت بڑی تعداد بے قصوروں کی ہے۔ اس لئے معاملہ کی ازسر نو جانچ ہونی چاہئے تا کہ جتنے بھی بے قصور پکڑے گئے ہیں انہیں فوری طور پر رہا کیا جاسکے۔ اس کے علاوہ جو افراد تشدد کا حصہ ہیں ان کو کہا ں رکھا گیا ہے اور ان پر کس طرح کی کارروائی کی جارہی ہے اس کے بارے میں ملزمین کے رشتہ داروں کو مطلع کرنے کے قانونی تقاضہ کو بھی پورا کرنا چاہئے۔ فیکٹ فائنڈنگ ٹیم نے حکومت سے اس بات کا مطالبہ بھی کیا ہے کہ یو اے پی ایکٹ کے تحت جن لوگوں کو گرفتار کیا گیا ہے اُن دفعات کو فوری طور پر ہٹایا جائے، اسی طرح تشدد سے متاثرہ علاقوں کا سماجی و معاشی سروے کیا جائے اورکوویڈ سے متاثر ہونے والے خاندانوں کو اس تشدد سے کس طرح کے ا ثرات مرتب ہوئے ہیں، اس کی جانکاری حاصل کی جائےاور تشدد میں جن لوگوں کی موت واقع ہوئی ہے، اُن کے گھروں میں کس طرح کے حالات ہیں اس کی بھی جانکاری لی جائے۔
کوویڈ کے چلتے زوم آن لائن وڈیو پریس کانفرنس میں اخبار نویسوں سے گفتگو کرتے ہوئے ریٹائرڈ منصف ایچ این ناگ موہن نے اپنی رپورٹ میں حکومت سے 14 نکات کی سفارش کی ہے جس میں ایک یہ بھی ہے کہ فیس بُک پر نوین کمار نامی شخص نے اسلام کے خلاف جو اشتعال انگیز پیغام پوسٹ کیا تھا، اُس پر فوری کاروائی کرنے میں پولس ناکام ہوئی ہے۔انہوں نے ریاستی حکومت پر زور دیا ہے کہ تشدد کے لئے پولس کی اس ناکامی کو ذمہ دار قرار دیتے ہوئے یہ نکتہ بھی اپنی انکوائری رپورٹ میں شامل کرے۔
یاد رہے کہ فیس بُک پر اشتعال انگیز پوسٹ کو لے کر 11/اگست کو بنگلور کے دو علاقوں میں ہوئے تشدد کے دوران پولس کی طرف سے ہوئی کاروائی میں چار لوگوں کی موت واقع ہوئی تھی اور فیس بُک پر اشتعال انگیز پیغام نوین کمار نامی شخص نے پوسٹ کیا تھا جس کے بارے میں بتایا گیا ہے کہ وہ پُلکیشی نگر رکن اسمبلی اکھنڈا سرینواس مورتھی کا قریبی رشتہ دار ہے۔
فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی نے اپنی رپورٹ میں یہ بھی کہا ہے کہ تشدد کے بعد دونوں علاقوں میں جس طرح کی کاروائی کی گئی، اس میں بعض کاروائیاں انسانی حقوق کی پامالی میں شمار ہوتی ہیں جس میں ایک یہ بھی ہے کہ حکومت نے کمشنر کو حکم دیا تھا کہ جو لوگ تشدد میں ملوث ہیں اُن سے ہی نقصان کی بھرپائی وصول کی جائے حالانکہ تشدد کے لئے کون لوگ ذمہ دار تھے، اُس کی تحقیقات ابھی ختم بھی نہیں ہوئی ہے۔ رپورٹ کے مطابق ایک طرف حکومت نے تشدد برپا کرنے والوں سے ہی ہرجانہ وصول کرنے کی بات کی اور دوسری طرف حکومت نے 62 منتخب ارکان اور لیڈروں پر عائدکریمنل کیسس کو واپس لینے کا فیصلہ کیا جن کا تعلق بی جے پی سے ہے۔
23 مختلف ممبران پر مشتمل اس فیکٹ فائنڈنگ ٹیم میں اسوسی ایشن فور پروٹیکشن آف سیول رائٹس کے سکریٹری محمد نیاز ، مینگلور وارتھا بھارتی کے مینجنگ ایڈیٹر عبدالسلام پُتیگے، چائلڈ رائٹس کارکن نینا نائیک، آزاد صحافی سینتیا اسٹیفن سمیت کئی دیگر سماجی کارکنان ارشاد احمد دیسائی، تنویر احمد، مدھو بھوشن، الوین ڈیسوزا، ڈاکٹر سدھارتھ جوشی وی ناگراج، آر موہن راج، لیو سلڈھان، گیتا مینن، و ی جے راجیندر وغیرہ شامل ہیں۔