مضافاتی ریل خدمات 7؍ سال میں مکمل طور پر نافذ ہو جائیں گی؟
بنگلورو،11؍نومبر(ایس او نیوز) پچھلے ہفتہ ریلوے بورڈ کی طرف سے ریاستی حکومت کے ذریعہ پیش کر دہ نظر ثانی شدہ تفصیلی منصوبہ جاتی رپورٹ کو منظوری کے ساتھ ہی طویل عرصہ سے زیر التواء 16,035 کروڑ روپئے لاگت والے بنگلور شہر میں مضافاتی ریل منصوبے کو تحریک حاصل ہو گئی ہے- حالانکہ اس وقت کے وزیر مالیات ارون جیٹلی نے اپنے مرکزی بجٹ 2018 میں اس منصوبہ کا اعلان کیا تھا، لیکن مرکزی وزارت ریلویز کی طرف سے شہر میں مضافاتی ریل منصوبے کو نما میٹرو منصوبہ سے ٹکراؤ سے محفوظ رکھنے کے لئے تفصیلی منصوبہ جاتی رپورٹ پر نظر ثانی کی ہدایت دی تھی جس کی وجہ سے اس سلسلہ میں کوئی پیش رفت نہیں ہو سکی تھی-نظر ثانی کر دہ تفصیلی منصوبہ جاتی رپورٹ کے مطابق اس منصوبے کے نفاذ کے لئے ایک خصوصی مقاصد سواری تشکیل دی جائے گی اور اس میں وزارت ریلویز اور ریاستی حکومت دونوں کی حصہ داری رہے گی-نظر ثانی شدہ منصوبے کے مطابق 148 کلو میٹر طویل مضافاتی ریل کے جال میں کل 57 مضافاتی ریلوے اسٹیشنوں کی تجویز پیش کی گئی ہے-اصل رپورٹ مے سے کل 24 اسٹیشنوں کو منسوخ کرنے کے علاوہ نظر ثانی کردہ تفصیلی منصوبہ جاتی رپورٹ میں بالائی ریلوے اسٹیشنوں کو بھی 31 سے گھٹا کر 22 کر دیا گیا ہے، ذرائع کے مطابق مضافاتی ریل خدمات کا آغاز مکمل طور پر سال 2026 میں ہو گا، اس لئے کہ تحویل اراضی اور تعمیرات کے لئے کم از کم سات سال عرصہ در کار ہوگا-مضافاتی ریل وے کے اسٹیشن یشونت پور، کینگیری، کنٹونمنٹ، وائٹ فیلڈ، کے آر پو رم، بیاپنا ہلی، گنانا بھارتی اور نائنڈہلی کے بشمول کل دس میٹرو اسٹیشنوں کے ساتھ مربوط رہیں گے-واضح رہے کہ شہر کی بے تحاشہ بڑھتی ہوئی ٹرافک اور خاص طو رپر شہر کے مضافاتی علاقوں سے درمیان شہر آنے جانے والے افراد کوجن پریشانیوں کا سامنا ہے اس سلسلہ میں مضافاتی ریل حدمات کو توسیع دینے اور بڑے پیمانہ پر ان خدمات کو فراہم کرنے کی بار بار مانگ بھی کی جاتی رہی ہے اور ریاستی و مرکزی حکومتوں کی جانب سے ان پریشان حال عوام کو اس کے خواب بھی دکھائے جاتے رہے ہیں -ریاستی حکومت کی جانب سے مضافاتی ریل خدمات سے متعلق تجویز روانہ کئے جانے کے چار سال بعد16جنوری 2017کو حکومت کرناٹک اور مرکزی وزارت ریل کے درمیان ایک یادداشت مفاہمت پر دستخط کئے گئے تھے تاکہ شہر بنگلور کو مضافاتی ریل خدمات کی سہولت فراہم کی جا سکے-واضح رہے کہ شہر کے مضافاتی علاقوں کو مرکزی علاقوں سے جوڑنے کے لئے مضافاتی ریل خدمات کا مطالبہ شروع ہوئے تقریباً بارہ سال کا عرصہ گزر چکا ہے پچھلے کچھ سالوں میں ”چکو پکو“ تحریک کے بعد ریاستی حکومت کی جانب سے اس سلسلہ کو آگے بڑھانے میں دلچسپی ظاہر کئے جانے کے نتیجہ میں اس مطالبہ میں شدت پیدا ہوتی چلی گئی-ماہرین کا کہنا ہے کہ آخر کار اس منصوبہ نے صحیح رخ اختیار کر لیا ہے اور ریاستی وزارت اور مرکزی حکومت دونوں ہی کی جانب سے ضروری تحریک اسے حاصل ہو گئی ہے-ریاست سے دو مرکزی ریل وزراء،ملیکارجن ایم کھرگے اور ڈی وی سدا نندا گوڈا، نے اس منصوبہ کو آگے بڑھانے کی کوشش کی تھی، لیکن ان کی وزارت کی میعاد بہت مختصر رہی جس کی وجہ سے اس کو زیادہ تحریک حاصل نہیں ہو سکی، البتہ سدانند گوڈا نے اپنے ریل بجٹ میں اس منصوبہ کا ذکر کیا تھا-اس سے قبل وزارت ریلویز نے اس بات پر زور دیا تھا کہ اس منصوبہ کی تکمیل کی مکمل ذمہ داری ریاستی حکومت پر ہی عائد ہوگی، اسی لئے ریاستی حکومت نے خصوصی مقاصد والی سواری کے فارمولے کے تحت یہ تجویز پیش کی تھی کہ بیس فیصد اخراجات محکمہ ریلویز برداشت کرے جبکہ بیس فیصد رقم ریاستی حکومت فراہم کرے گی اور بقیہ رقم بینکوں سے حاصل کی جائے اور بعد میں ہونے والی آمدنی کے ذریعہ اس کی بھرپائی کی جائے-لیکن مرکز نے اس فارمولہ کو تسلیم نہیں کیا جس کی وجہ سے اب ریاستی حکومت اسّی فیصد سرمایہ کاری کر رہی ہے لیکن اسے امید ہے کہ آگے چل کر اس سلسلہ میں مذاکرات کئے جا سکتے ہیں کہ مرکزی حکومت اس میں پچاس فیصدی حصہ ادا کردے، حالیہ دنوں میں بنگلور مرکزی پارلیمانی حلقہ کے رکن پی سی موہن اور بنگلور جنوبی پارلیمانی حلقہ کے رکن تیجسوی سوریا نے اس منصوبے میں کافی دلچسپی کا اظہار کیات ھا اور مرکزی وزیر ریلویز اور ریلوے بورڈ سے کئی مرتبہ ملاقاتیں کی تھیں جس کے بعد اس منصوبے میں تحریک پیدا ہوئی ہے-