بنگلور وسیشن عدالت کا بڑا فیصلہ ؛ 12 برس کے بعددہشت گردی کے الزام سے مسلم شخص باعزت بری
نئی دہلی؍بنگلورو، 17؍جون (ایس او نیوذ؍یو این آئی) بنگلور وکی سیشن عدالت نے دہشت گردی کے الزامات سے ایک مسلم نوجوان کو اس بنیاد پر ڈسچارج کردیا کہ استغاثہ عدالت میں ملزم کے خلاف اس کے مبینہ اقبالیہ بیان کے علاوہ کوئی دوسرا ثبوت پیش نہیں کرسکا۔ملزم پر الزام تھا کہ اس نے ایک ملزم کو سال 2005 میں بنگلہ دیش بارڈر پار کرایا تھا یعنی اس نے ملزم کو ہندوستان میں داخل ہونے اور بعد میں اسے ہندوستان سے بنگلہ دیش جانے میں مدد کی تھی۔
بنگلورو سیشن عدالت کے جج ڈاکٹر کسانپا نائیک نے ملزم محمد حبیب عرف حبیب میاں ساکن اگرتلہ، تریپورہ کو ایڈوکیٹ محمد طاہر کی جانب سے داخل کردہ ڈسچارج عرضداشت پر سماعت کے بعد مقدمہ سے ڈسچارج کردیا۔ ایڈوکیٹ محمد طاہرکوجمعیۃ علماء مہاراشٹر (ارشد مدنی) قانونی امداد کمیٹی نے ملزم کے دفاع میں مقرر کیا تھا۔دوران بحث ایڈوکیٹ طاہر نے عدالت کو بتایا کہ پولیس نے ملزم محمد حبیب کو دیگر ملزم صباح الدین کے مبینہ اقبالیہ بیان کی بنیاد پر گرفتار کیا تھا جو اس نے لکھنؤ میں سال 2008 میں دیا تھا جس میں اس نے کہا کہ تھا کہ سال 2005 میں وہ تریپورہ گیا تھا جہا ں اس کی ملزم محمد حبیب نے بارڈرکراسنگ میں مدد کی تھی جس کے بعد انڈین انسٹی ٹیوٹ آف سائنس (بنگلور) میں فائرنگ کا واقعہ پیش آیا تھا جس میں صباح الدین اور اس کے دیگر ساتھیوں کا نام آیا تھا۔
ایڈوکیٹ طاہر نے عدالت کو بتایا کہ پولیس نے ملزم محمد حبیب کو ایک طویل عرصہ کے بعد 22 مارچ 2017کو اگرتلہ سے گرفتار کیا تھا اور اس کے خلاف چارج شیٹ داخل کی تھی لیکن استغاثہ عدالت میں یہ نہیں بتا سکا کہ ملزم کو اتنی تاخیر سے کیوں گرفتار کیا گیا جبکہ ملزم کو مفرور بھی ڈکلیر نہیں کیا گیا تھا۔دوران بحث ایڈوکیٹ طاہر نے عدالت کی توجہ استغاثہ کی جانب سے جمع کئے گئے ثبوت وشواہد کی قانونی حیثیت کی جانب مبذول کراتے ہوئے کہا کہ استغاثہ نے ملزم کو سنی سنائی باتوں یعنی دیگر ملزموں کے بیانات کی روشنی میں گرفتار کیا ہے جس کی قانون میں کوئی حیثیت نہیں ہے۔
ملزم محمد حبیب کی جانب سے داخل کردہ ڈسچارج عرض داشت کی سرکاری وکیل نے سخت مخالفت کی اور کہا کہ دیگر ملزمین جہادی ذہنیت کے ہیں اور ملزم محمد حبیب نے یہ سب جانتے ہوئے ان کی مدد کی اور انہیں بنگلہ دیش سے ہندوستان آنے اور فائرنگ انجام دینے کے بعد بنگلہ دیش واپس چلے جانے میں مدد کی۔لہٰذا ملزم کو مقدمہ سے ڈسچار نہیں کرنا چاہئے کیونکہ دیگر ملزموں کی طرح ملزم کو بھی عمر قیدکی سزا ہوسکتی ہے۔ فریقین کے دلائل کی سماعت کے بعد سیشن عدالت نے ناکافی ثبوت و شواہد کی بنیا د پر ملزم کو مقدمہ سے ڈسچارج کردیا اور اسے فوراً جیل سے رہا کئے جانے کے احکامات جاری کئے۔
دہشت گردی کے الزام سے بری ہونے پر خوشی کا اظہار کرتے ہوئے صدر جمعےۃ علمائے ہند مولانا سید ارشد مدنی نے عدالت کے بے قصور قرار دئے جانے اور مقدمہ سے ڈسچارج کئے جانے پر عدالت کے فیصلے کا َخیرمقدم کیا اور کہا کہ یہ سلسلہ کئی دہائیوں سے جاری ہے جہاں پولیس اہلکار کسی بے قصور کو جیل میں ڈال دیتے ہیں اور پھر لمبی عدالتی کارروائی کے بعد وہ شخص عدالت سے باعزت بری ہوجاتا ہے۔