کیا بھٹکل کے معاملے میں پس پردہ کوئی کھیل چل رہا ہے؟رکن اسمبلی اور رکن پارلیمان کا کردار سوالوں کے گھیرے میں!۔۔۔۔۔ سینئر کرسپانڈنٹ کی خصوصی رپورٹ

Source: S.O. News Service | Published on 7th May 2020, 1:01 PM | ساحلی خبریں | اسپیشل رپورٹس |

بھٹکل، 7؍مئی (ایس او نیوز)بھٹکل میں کورونا وائرس کے معاملات جب بڑھنے لگے تھے اور اتفاق سے تمام مریض اور مشتبہ افراد مسلمان ہی نکل رہے تھے، اسی وقت سیاسی اور سماجی حالات پر نظر رکھنے والوں نے اندازہ لگالیا تھا کہ اس وبائی معاملے میں زعفرانی سیاسی تعصب اور شرانگیزی اپنا سر ضرور اٹھائے گی، لاک ڈاؤن قوانین کی آڑ میں مسلمانوں کو تنگ کرنے کا موقع وہ لوگ ہاتھ سے جانے نہیں دیں گے، اور رمضان میں کسی طرح کی چھوٹ دینے کا امکان نہیں رہے گا۔ اور جب رکن اسمبلی سنیل نائک نے اپنی طرف سے راشن کٹس تقسیم کرنے کا سلسلہ شروع کیا توان کا رجحان اور رویہ اسی متعصبانہ سوچ کی طرف اشارہ کرنے لگاتھا۔

ضلع انچارج وزیر اور قوانین میں ڈھیل: اسی دوران عین ماہ رمضان کی آمد کے موقع پر ضلع انچارج وزیر نے بھٹکل کادورہ کیا۔ اُس وقت قوانین میں ڈھیل دینے کے اختیارات ان کے پاس نہ ہونے کے باوجود ہمارے مرکز ی ادارے نے رمضان کے حوالے سے ان کے پاس چھوٹ دینے کی مانگ کی۔ اور جس انداز میں انہوں نے اس مانگ کو ٹھکرایا تھا اسے ہمارے ادارے کے وقار کے لئے ہتک آمیز ہی ماناجائے گا۔ پھر اس کے بعد اپنے فیس بک پیج پر رکن اسمبلی نے خود ہی دعویٰ کیا کہ وزیر موصوف پر مسلمانوں کی مانگ ٹھکرانے کے لئے انہوں نے ہی دباؤ ڈالا تھا، کیونکہ:”میرے لئے، میرے علاقے کے عوام کی صحت کا مسئلہ زیادہ اہم ہے۔“ گویا مسلمان ان کے علاقے کے عوام نہیں ہیں، بلکہ کسی دوسرے سیارے کی مخلوق ہیں۔

 اور ضلع انچارج وزیر کو اختیار بھی مل گیا:اسی دوران لاک ڈاؤن 2ختم ہونے سے پہلے ریاست کے گرین زون والے اضلاع میں جزوی اور شرطیہ چھوٹ دینے کا اعلان کرتے ہوئے ریاستی حکومت نے بقیہ زونس میں ڈھیل دینے یانہ دینے کا اختیار ضلع انچارج وزیروں کو سونپ دیا جس میں ضلع شمالی کینرا بھی شامل ہے۔ دو تین دن مخمصے میں گزارنے کے بعد وزیر موصوف نے بھٹکل یا کاروار کے بجائے رکن پارلیمان کے گڑھ سرسی میں ضلع افسران کے ساتھ جائزاتی میٹنگ منعقد کی اور بھٹکل شہر اور جالی پنچایت کو ’کنٹینمنٹ ایریا‘ برقرار رکھتے ہوئے بھٹکل کے مضافات اور ضلع کے تمام مقامات پر ڈھیل کا اعلان کردیا۔ اب بھٹکل والوں کے لئے (جہاں شہری سطح پر مسلمانوں کی ہی اکثریت ہے)12مئی تک کا انتظار کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا، جب آخری پوزیٹیو کیس ملنے کے بعد28دن کی میعاد پوری ہونے والی تھی اور قانونی طور پر ’کنٹینمنٹ ایریا‘ کا ٹیاگ ہٹانا ضروری تھااور اس کے بعد یقینی طور پر عوام کو چھوٹ ضرور ملنے والی تھی۔

 اور پھر نیا پوزیٹیو معاملہ سامنے آگیا!: سوئے اتفاق سے 5مئی کو ایک اور نیا معاملہ پوزیٹیو کی شکل میں سامنے آیا جس کے بعد سیاسی تعصب اور شرپسندی کے کھیل میں بہت زیادہ تیزی دکھائی دینے لگی ہے۔ جو معاملہ پوزیٹیو آیا ہے، اس پر کوئی منفی تبصرہ تو نہیں کیا جاسکتا۔ حالانکہ مریضوں کے معاملات میں براہ راست ملوث ایک معتبر شخص نے کچھ بے اطمینانی کا مظاہرہ کیا ہے،اور کہا ہے کہ اس مریض کے اندر جس قدر شدید علامات دو ن پہلے تھے، اس کو اسپتال میں داخل کرنے اور طبی جانچ کی رپورٹ آنے تک کے عرصے میں وہ علامات بالکل غائب ہوگئے ہیں، اس لئے ہوسکتا ہے کہ وہ عام انفلوئنزا والا بخار ہی ہو۔ 

رکن اسمبلی کھل کر سامنے آگئے:پتہ چلاہے کہ تازہ معاملہ سامنے آتے ہی یک طرفہ سوچ کے ساتھ رکن اسمبلی سنیل نائک میدان میں کود پڑے ہیں۔ 5تاریخ کو اسسٹنٹ کمشنر بھرت اور دیگر افسران کے ساتھ ایم ایل اے نے خصوصی میٹنگ منعقد کی جس میں ہمارے مرکزی ادارے کے نمائندوں کو بھی شریک رکھا گیا تھا۔ وہاں پر رکن اسمبلی نے مبینہ طور پراپنا یک طرفہ موقف سامنے رکھا اور شہر میں لاک ڈاؤن قوانین کی خلاف ورزیوں کی داستان چھیڑ دی اور افسران بالخصوص پولیس پر دباؤ بنایا کہ موٹر گاڑیوں اور لوگوں کی چہل پہل پر پابندی سختی کے ساتھ لاگو کی جائے اور قانون کی کھلی خلاف ورزیوں کو فوری طور پر روکا جائے۔ اس کے رد عمل میں مبینہ طور پر پولیس کے ایک اعلیٰ افسر نے ہمارے ادارے کے ذمہ داران سے کہا کہ کل سے بھٹکل میں اضافی پولیس فورس تعینات کی جائے گی اور قوانین توڑنے والوں پر مزید سخت ترین کارروائیاں کی جائیں گی۔

’کنٹینمنٹ بفّر زون‘ کا نیا ٹیاگ: اسی کے ساتھ بھٹکل ٹاؤن، جالی پنچایت اور ہیبلے پنچایت کے علاقے کو ’کنٹینمنٹ بفّر زون‘ (دوسرے علاقوں سے الگ تھلگ کیا گیا علاقہ)قرار دیا گیا۔ آناً فاناً میں تمام میڈیکل اسٹورس، نجی اسپتال اور اجازت دی گئی دوسری دکانوں کو بند کردیا گیا۔اس کے علاوہ لاک ڈاؤن قوانین کے مطابق مدینہ کالونی کو جہاں یہ تازہ معاملہ سامنے آیا تھا،ا ور اس کے اطراف ۵ کلومیٹر کے احاطے کو سیل ڈاؤن کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔اس طرح قوانین میں چھوٹ (شرطیہ ہی سہی)کی امید میں لگے ہوئے عوام کو نہ صرف مایوس ہوناپڑا بلکہ مزید سختیاں جھیلنے کے لئے خو د کو تیار کرنا پڑا۔کیونکہ اب 5مئی کے بعد مسلسل 28دنوں تک کوئی راحت قانونی طور پر ملنے کی امید ختم ہوگئی ہے۔

آئی جی پی اور ایس پی کی موجودگی میں میٹنگ:5/ مئی کی شام کو ضلع سپرنٹنڈنٹ آف پولیس اور ویسٹرن رینج کے انسپکٹر جنرل آف پولیس کی موجودگی میں سماج کے دونوں فرقوں کے نمائندوں کی میٹنگ منعقد کی گئی۔ اس میٹنگ میں شامل ایک ذمہ دار کا کہنا ہے کہ وہاں آئی جی پی کی آمد سے پہلے ایس پی نے بھٹکل میں ہوئے ہیلتھ سروے کے بارے میں بالواسطہ طور پرمسلمانوں کی طرف سے بھرپور تعاون نہ ملنے کی شکایت کرتے ہوئے کہا کہ سماجی ذمہ داری سمجھتے ہوئے علاقے کے ذمہ داران خود اس میں دلچسپی لیں اور دو تین دن میں ازسر نو شروع کیے جانے والے سروے کو مکمل طور پر انجام دیں۔ اس دوران زعفرانی پارٹی سے تعلق رکھنے والے  کارکنان نے سروے کرنے والی آشا کارکنا ن کا حوالہ دے کر بالواسطہ طورپر مسلم علاقوں میں تعاون نہ کیے جانے کی بات اچھالی۔ ایس پی نے سخت لہجے میں کہا کہ اگر آپ لوگ ساتھ نہیں دیں گے تو پھر ہم کو اپنے طور پر اسے مکمل کرنا پڑے گا اور ہم کرکے رہیں گے۔

انسپکٹر جنرل کی منھ سے یہ باتیں کیوں نکلیں؟!: میٹنگ میں موجود ہمارے اس ذمہ دار کے مطابق انسپکٹر جنرل نے میٹنگ میں حاضر ہوتے ہی کہا کہ پہلے میں کچھ سوالات کرنا چاہتا ہوں پھر اس کے بعد کچھ گفتگو ہوگی۔ انہوں نے کئی سوالا ت کیے مگر کچھ سوال چونکانے والے تھے۔ایک یہ کہ کیا بھٹکل میں بیرون بھٹکل سے کوئی ڈاکٹر خفیہ طور پر آکر لوگوں کا علاج کررہا ہے اور یہاں سے واپس جارہا ہے؟ ہمارے لوگوں نے تو لاعلمی کا اظہار کیا مگر آئی جی پی کا لہجہ بتا رہا تھا کہ ان کے دماغ میں کسی نے یہ سوال ڈالا ہے۔ پھر انہوں نے ایک اور حیران کرنے والی بات پوچھی کہ کیا یہاں پر اموات ہوئی ہیں اور کسی کو بتائے بغیر چپ چاپ لاشو ں کو دفن کیا گیا ہے؟ ہما رے نمائندوں نے اس کا جواب نفی میں دیا۔ اس وقت ایک زعفرانی لیڈر نے آئی جی پی کو مخاطب کرکے کہا کہ ہمیں بھی ایسی رپورٹ ملی ہے۔“ پھر آئی جی پی نے کہا کہ اب کے بعد اگر کوئی موت واقع ہوتی ہے تو اس کو محکمہ صحت افسران کے علم میں لایا جائے اور کوئی شک و شبہ ہوتو اسے دور کرلیا جائے۔ میٹنگ میں موجود ہمارے ذمہ دار کا کہنا ہے کہ اس وقت یہ بات سرسری سی لگی تھی اور کوئی بہت زیادہ الجھن نہیں ہورہی تھی۔۔ مگر۔۔۔۔

اب رکن پارلیمان نے بھی وہی راگ الاپا: اب رکن پارلیمان کی طرف سے 6مئی کو بھٹکل میں افسران کے ساتھ میٹنگ اور ضلع ڈی سی کے ساتھ کانفرنسنگ کے ذریعے دی گئی ہدایا ت کے بعد ایک دن پہلے آئی جی پی کی میٹنگ میں اٹھے ہوئے سوالات کی اہمیت بڑھ گئی ہے۔ایک دو کنڑا اخبارات میں شائع رپورٹ کے مطابق رکن پارلیمان نے گزشتہ  45 دنوں میں بھٹکل میں ہوئی22اموات اور چپ چا پ انہیں دفن کیے جانے کی با ت کہتے ہوئے ڈی سی کو آڑے ہاتھوں لیا ہے، اور ہدایات دی ہیں کہ  اس سے پہلے جو اموات ہوئی ہیں اس کی تحقیقا ت کی جائیں اور اس کی رپورٹ انہیں پیش کی جائے۔ اس کے جواب میں ڈی سی نے تحقیقات کرنے کی ہامی بھری ہے۔ پھر ایم پی نے آئندہ کے اقدامات کے بارے میں پوچھا تو مبینہ طور پر ڈی سی نے کہا کہ ہر قبرستان میں  دو پولیس اہلکاروں کو بیٹ پر نامزد کیا جائے گا اور کوئی بھی موت واقع ہونے کی صورت میں محکمہ صحت کے افسران کی جانب سے جانچ کروائی جائے گی اور لاش کے گلے کاتھوک جانچ کے لئے بھیجا جائے گااور رپورٹ نگیٹیو آنے پر دفنانے کی اجازت دی جائے گی۔

 ڈپٹی کمشنر کی طرف سے کوئی تبصرہ نہیں: اس رپورٹ کے کنڑا ویب سائٹ پر سامنے آتے ہی ساحل آن لائن کی طرف سے ڈپٹی کمشنر سے اس کی صداقت جاننے کی کوشش کی گئی تو ڈی سی نے اس کی تصدیق یا تردید کرنے سے انکارکردیا اور اسے ایک سیاسی بیان کہہ کر ٹال دیا۔لیکن اگر بدلتے ہوئے حالات اور رکن پارلیمان کی ہنگامی میٹنگ اور پھر افسران کو مبینہ ہدایات کا تجزیہ کیا جائے تو اس کی کڑیاں آئی جی پی اور ایس پی کی بھٹکل میں آمد، پھرپرائیویٹ اسپتالوں اور میڈیکل اسٹورس کو بند کردینے، تمام طبی سہولتوں کو شیرالی سرکاری اسپتال میں منتقل کرنے، پرائیویٹ میڈیکل پریکٹس کا موقع نہ دینے اور خفیہ طورپر کسی ڈاکٹر کے ذریعے علاج کی تفتیش کرنے جیسے اقدامات سے ملتی نظر آتی ہیں۔

 کیا کہتے ہیں پرائیویٹ اسپتال والے؟: ہم نے جب ایک میڈیکل اسٹور اور اسپتال کے ذمہ دارسے پوچھا تو پتہ چلا ہے کہ تحصیلدار کی طرف سے انہیں‘’کنٹینمنٹ ایریا‘ پر لاگو ہونے والے قوانین کے حوالہ کے ساتھ نوٹس دی گئی ہے کہ ایسے علاقے میں پرائیویٹ علاج و معالجے کی سہولت فراہم کرنے پر پابندی لاگو ہوتی ہے۔لیکن عوام کو درپیش عام طبی مسائل کو سامنے رکھتے ہوئے انہوں نے ضلع پنچایت سی ای او سے مسیجس کے ذریعے درخواست کی ہے کہ اسپتالوں کو کھولنے کی اجازت دی جائے تاکہ معمولی بیماریوں والے  عوام کو شیرالی جیسے دوردراز علاقے تک سفر کرنے کی مشکل نہ اٹھانی پڑے، جہاں مریضوں کی دیکھ بھال ٹھیک ڈھنگ سے نہ ہونے کی وجہ سے لوگ وہاں جانا نہیں چاہتے۔ لیکن تاحال سی ای او کی جانب سے کوئی جواب نہیں آیا ہے۔

حالات کیا کہتے ہیں؟: تمام حالات کا بغور جائزہ لینے سے محسوس ہوتا ہے کہ زعفرانی بریگیڈ کی طرف سے درپردہ ایک انتہائی متعصبانہ مہم چلائی جارہی ہے اور کووِڈ وباء سے فائدہ اٹھا کر یہاں کے عوام کو ہراساں کرنے کے منصوبے پر عمل ہورہا ہے۔رکن اسمبلی اور رکن پارلیمان جو دستوری حیثیت سے عوام کے منتخب نمائندے ہیں وہ تو کھلم کھلا ایک ہی فرقے کی نمائندگی کررہے ہیں۔اور دوسرے فرقے کو اپنا حریف اور مدمقابل سمجھ کر اقدامات کیے جارہے ہیں۔اور سرکاری افسران پر اپنے سیاسی منصب کا پورا دباؤ بنارہے ہیں۔ہمیں اس حقیقت کو جان اور مان لینا چاہیے۔

ہمیں کیا کرنا چاہیے؟!: ایسے میں ضرورت اس بات کی ہے کہ ہمارے سماجی ذمہ داران اس زاویے کو بھی نظر میں رکھیں اور درپیش صورت حال کو نئی حکمتِ عملی کے ساتھ سنبھالنے کا منصوبہ بنائیں۔ اس کے علاوہ عوام کو بھی چاہیے کہ سرکار ی اور سیاسی سطح پر ہمیں جن دشوارحالات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے، اس میں صبر وضبط کادامن ہاتھ سے جانے نہ دیں۔ کسی کی طرف سے بھی اگر اشتعال انگیزی ہوتی ہے تو اس کے جھانسے میں نہ آئیں۔ اپنے ذمہ داروں پر اعتماد رکھیں اور انہیں ان حالات سے نبر دآزما ہونے کے لئے اخلاقی حمایت دیں۔ ہوسکتا ہے کہ ان کے طریقہ کار سے اختلاف ہو لیکن بہر حال وہ اخلاص کے ساتھ سماج کی خدمات انجام دینے میں مصروف ہیں۔ یہ حالات کی سنگینی بس کچھ دنوں کی ہے اور ان شاء اللہ دور آزمائش و ابتلاء جلد ہی ٹل جائے گا۔ لیکن خدانخواستہ اس وقت قانونی نقطہ نگاہ سے اگر ہم سے کوئی کوتاہی ہوگی تو پھر اس کے منفی اثرات اور نتائج ہمیں بڑی مدت تک برداشت کرنے ہونگے۔ خصوصی طور پر نوجوان اس بات کا پورا خیال رکھیں۔یادرکھیں کہ رات کتنی ہی گہری کالی کیوں نہ ہو، صبح یقینا ہوکر رہے گی۔

دل نا امید تو نہیں نا کام ہی تو ہے 
لمبی ہے غم کی شام، مگر شام ہی تو ہے

ایک نظر اس پر بھی

منگلورو سائی مندر کے پاس بی جے پی کی تشہیر - بھکتوں نے جتایا اعتراض

منگلورو کے اوروا میں چیلمبی سائی مندر کے پاس رام نومی کے موقع پر جب بی جے پی والوں نے پارلیمانی انتخاب کی تشہیر شروع کی تو وہاں پر موجود سیکڑوں بھکتوں نے اس کے خلاف آواز اٹھائی جس کے بعد بی جے پی اور کانگریسی کارکنان کے علاوہ عام بھکتوں کے درمیان زبانی جھڑپ ہوئی

بھٹکل سنڈے مارکیٹ: بیوپاریوں کا سڑک پر قبضہ - ٹریفک کے لئے بڑا مسئلہ 

شہر بڑا ہو یا چھوٹا قصبہ ہفتہ واری مارکیٹ عوام کی ایک اہم ضرورت ہوتی ہے، جہاں آس پاس کے گاوں، قریوں سے آنے والے کسانوں کو مناسب داموں پر روزمرہ ضرورت کی چیزیں اور خاص کرکے ترکاری ، پھل فروٹ جیسی زرعی پیدوار فروخت کرنے اور عوام کو سستے داموں پر اسے خریدنے کا ایک اچھا موقع ملتا ہے ...

نئی زندگی چاہتا ہے بھٹکل کا صدیوں پرانا 'جمبور مٹھ تالاب'

بھٹکل کے اسار کیری، سونارکیری، بندر روڈ، ڈارنٹا سمیت کئی دیگر علاقوں کے لئے قدیم زمانے سے پینے اور استعمال کے صاف ستھرے پانی کا ایک اہم ذریعہ رہنے والے 'جمبور مٹھ تالاب' میں کچرے اور مٹی کے ڈھیر کی وجہ سے پانی کی مقدار بالکل کم ہوتی جا رہی ہے اور افسران کی بے توجہی کی وجہ سے پانی ...

بڑھتی نفرت کم ہوتی جمہوریت  ........ ڈاکٹر مظفر حسین غزالی

ملک میں عام انتخابات کی تاریخوں کا اعلان ہونے والا ہے ۔ انتخابی کمیشن الیکشن کی تاریخوں کے اعلان سے قبل تیاریوں میں مصروف ہے ۔ ملک میں کتنے ووٹرز ہیں، پچھلی بار سے اس بار کتنے نئے ووٹرز شامل ہوئے، نوجوان ووٹرز کی تعداد کتنی ہے، ایسے تمام اعداد و شمار آرہے ہیں ۔ سیاسی جماعتیں ...

مالی فراڈ کا نیا گھوٹالہ : "پِگ بُوچرنگ" - گزشتہ ایک سال میں 66 فیصد ہندوستانی ہوئے فریب کاری کا شکار۔۔۔۔۔۔۔(ایک تحقیقاتی رپورٹ)

ایکسپوژر مینجمنٹ کمپنی 'ٹینیبل' نے ایک نئی رپورٹ جاری کی ہے جس میں یہ انکشاف کیا گیا ہے کہ پچھلے سال تقریباً دو تہائی (66 فیصد) ہندوستانی افراد آن لائن ڈیٹنگ یا رومانس اسکینڈل کا شکار ہوئے ہیں، جن میں سے 81 فیصد کو مالی نقصان کا سامنا کرنا پڑا ہے۔

مسلمان ہونا اب اس ملک میں گناہ ہے۔۔۔۔۔۔۔۔از: ظفر آغا

انہدام اب ایک ’فیشن‘ بنتا جا رہا ہے۔ یہ ہم نہیں کہہ رہے بلکہ یہ مدھیہ پردیش ہائی کورٹ کا بیان ہے۔ بے شک مکان ہو یا دوکان ہو، ان کو بلڈوزر کے ذریعہ ڈھا دینا اب بی جے پی حکومت کے لیے ایک فیشن بن چکا ہے۔ لیکن عموماً اس فیشن کا نشانہ مسلم اقلیتی طبقہ ہی بنتا ہے۔ اس کی تازہ ترین مثال ...

کیا وزیرمنکال وئیدیا اندھوں کے شہر میں آئینے بیچ رہے ہیں ؟ بھٹکل کے مسلمان قابل ستائش ۔۔۔۔۔ (کراولی منجاو کی خصوصی رپورٹ)

ضلع نگراں کاروزیر منکال وئیدیا کا کہنا ہے کہ کاروار میں ہر سال منعقد ہونےو الے کراولی اتسوا میں دیری اس لئے ہورہی ہے کہ  وزیرا علیٰ کا وقت طئے نہیں ہورہاہے۔ جب کہ  ضلع نگراں کار وزیر اس سے پہلے بھی آئی آر بی شاہراہ کی جدوجہد کےلئے عوامی تعاون حاصل نہیں ہونے کا بہانہ بتاتے ہوئے ...