تعلیمی ، تدریسی معیار خستہ : نصابی نظر ثانی کے طوفان میں تعلیمی ترقی تنزلی کا شکار
بنگلورو:12؍ جون (ایس اؤ نیوز) ایک طرف نصابی کتب پر نظر ثانی کو لے کر بہت بڑا طوفان کھڑا ہواہے تو دوسری طرف بہت ہی خاموشی کےساتھ ’ قومی کارکردگی سروے-2021 ‘(این اے ایس ) کی رپورٹ میں شامل ریاستی اسکولی بچوں کا تعلیمی معیار ، اعداد و شمارات پتہ دے رہے ہیں کہ پورا تعلیمی نظام ہی تنزلی کا شکار ہے۔ تعلیم دینے والے اساتذہ بھی سیکھنےسے دور رہنےکی تصویر پیش کررہی ہے۔
کووڈ کی وجہ سے تعلیمی میدان پر ’صفر‘ چھایا ہواہے۔ کووڈ کے دوران اسکولوں کا منہ تک نہ دیکھے، طبعی کلاسوں کے بجائے آن لائن کلاسوں میں شامل ہوئے بچوں کا تعلیمی معیار کس حد تک گرگیا ہے اس کا اندازا واٹس ایپ پر فارورڈہونےو الے بےتکے پیغامات سے کیا جاسکتاہے۔ تعلیمی میدان میں تھوڑی سی سرگرمی نظر آہی رہی تھی کہ ’کیا پڑھایا جائے ‘ اور ’کیا نہ پڑھایا جائے ‘ پر گرما گرم بحث شروع ہوچکی ہے۔
مرکزی تعلیمی محکمہ کی جانب سے سوم، پنجم ، ہشتم اور دہم جماعتوں کے طلبا کےلئے نومبر 2021میں سال 2020-21کا تعلیمی سروے کیا تھا جس کاحال ہی میں اجراء کیا ہے۔ نمونےکے سروےمیں ریاست کے منتخب 7210اسکول، 31875اساتذہ ، 2،11،705طلبا شریک ہوئے۔ رپورٹ میں بچوں کے سیکھنےکا معیار، تعلیمی اور اساتذہ کا تدریسی معیار، کووڈ سے مرتب ہونے والے اثرات کو دیکھیں تو حیرت ہوتی ہے۔
دسویں میں زیر تعلیم آدھے سے زیادہ بچوں کو انگریزی میں ضدیں لکھنا نہیں آتا، ساتویں کےبچوں کو تغذیہ کا اصل تصور اور چوتھی کے بچوں کو جنگلی جانوروں کی شناخت ہی نہیں ہے۔ یہ معلومات ’ریاستی کارکردگی سروے -2018‘کی رپورٹ سے معلوم ہوئی ہے۔یہ سروے ریاستی تعلیمات عامہ محکمہ کےماتحت ’کرناٹکا اسکولی معیار کی قدر اور وصولی پریشد (کے ایس کیو اے اے سی )نے کیا تھا۔
اس سے بھی دس برس قبل ہوئے (2018)سروے میں 45فی صد بچوں کو ریاضی کے مضمون کا نظام کا ہی پتہ نہیں تھا۔ 33فی صد بچے پہلی جماعت کی کتاب تک پڑھنا نہیں جانتےتھے۔ تعلیمی معیار بنیادی سہولیات کی دستیابی ، استعمال اور طلبا کے تدریسی اشیاء سے منسلک ہے۔ لیکن سچائی یہ ہے کہ ریاستی حکومت نے گذشتہ پانچ برسوں میں ان کی پیمائش کرتےہوئے سدھارلانےکی کوشش ہی نہیں کی ہے۔
سال 2019-20,2020-21,2021-22میں کے ایس کیو اے اے سی نے کوئی سروے نہیں کیا ہے۔ سروے کےلئے سال 2019-20میں ریاستی حکومت نے کےایس کیو اے اے سی کو 10کروڑروپیوں کی امداد منظور کی تھی ۔ اسی سال مرکزی حکومت ’قومی کارکردگی سروے ‘ کا منصوبہ عملی سطح پر جاری کرنےکی وجہ سے ریاستی سطح کا سروے نہیں کیاگیا تھا۔ لیکن اس سال سروے کےلئے منظور کی گئی امداد کسی اور مقصد کےلئے استعمال کی گئی ہے۔ کووڈ کی وجہ سے دوسال اسکول نہ چلنےکے بہانے حکومت نے بھی بچوں کے تعلیمی معیار کا سروے نہیں کرایا۔
طلبا کی کارکردگی رپورٹ کا مکمل حقائق کی بنیاد پر مطالعہ کریں گے تو اسکولوں میں بچے کیاکچھ سیکھ رہےہیں پتہ چلتاہے۔ سروے میں 4سے 10ویں جماعت تک کے سرکاری اور امدادی اسکولوں کے بچوں کا معیار کثیر الجواب سوالنامے کے ذریعے تجزیہ کیا جاتا ہے۔ بچوں کی طرف سے دئیے گئےجوابات کی بنیاد پر ریاستی تعلیمی نظام کس سطح پر ہے معلوم کیاجاتاہے۔
تعلیمی ماہرین کا کہنا ہے کہ جب ہم تعلیمی نظام کی خامی اور کمی کا تجزیہ کرتےہیں تو پتہ چلتاہے کہ 10ویں میں طلبا کے نتائج کم ہونا، اول سے نویں جماعت تک فیل نہیں کئے جانے کی پالیسی ہی اہم وجہ ہے۔ بچوں کےذہنوں میں یہ بات بیٹھ چکی ہے کہ ہم ہر حال میں پاس ہوجاتےہیں تو پڑھائی اتنی سنجیدگی سے نہیں ہوتی ۔ پرائمری اسکولوں میں بچے پڑھنے ، لکھنے اور حساب کرنے کے اہل نہیں ہیں۔9ویں کے بچوں کو حروف تہجی ، جمع نفی کا حساب تک بتا نا پڑتاہے۔
ریاست میں بنیادی سہولیات کی کمی ہونے سےکئی سرکاری اسکول وینٹی لیٹر پر ہے، کرناٹک کے ہر بجٹ میں ہزاروں کروڑ روپئے تعلیم کےلئے مختص کئےجانے کا اعلان کیاجاتاہے۔ اسکولوں میں پینےکا پانی ، ٹائلیٹ، بہترین تدریسی نظام، بنیادی سہولیات کی کمی ہونے پر منظور کئے جانےوالی رقم آخر کہاں گئی ؟ اس سلسلےمیں سنجیدگی سے غورکرنےکی ضرورت ہے۔
تعلیمی معیار کو جانچنےکےلئے رواں سال سروے :رواں سال (2022-23)ریاستی سطح پر کارکردگی کا سروے کرنے کی پیش کش ایس ایس کے کے ذریعے مرکزی تعلیمی محکمہ کی منصوبہ جات کمیٹی (پی اے بی )کو کے ایس کیو اے اے سی نے ارسال کی ہے۔ سال 2021میں 3،5،8،اور10کے بچوں کا سروے کیاگیا تھاتو رواں سال کل سرکاری اسکولوں میں سے 10فی صد یعنی قریب 4700اسکولوں میں 4،6،7،اور 9نویں جماعت میں زیر تعلیم1.81کروڑبچوں کا سروےمرکز سے ملنے وال امداد 1.89 کروڑ روپیوں کے خرچ سے کئےجانےکی بات کہی گئی ہے۔