دہشت گردی کے 3 ملزمین کو ملی ضمانت - سامنے آیا این آئی اے کا کھوکھلا طریقہ کار ؛ اے پی سی آر کی کاوشوں کا نتیجہ
نئی دہلی 12 / جنوری (ایس او نیوز) دہشت گردی مخالف قانون یو اے پی اے کے تحت گرفتار تین ملزمین کو حالیہ دنوں میں عدالت سے ملی ضمانت کے بعد ان معاملات کی پیروی کرنے والا ادارہ اے پی سی آر(اسوسی ایشن فور پروٹیکشن آ ف سیول رائٹس) کی عوامی سطح پر ستائش کی جارہی ہے ، وہیں این آئی اے کے کھوکھلے طریقہ اور کمزور بنیادوں پر کی جا رہی گرفتاریوں پر تشویش بھی جتائی جارہی ہے۔ ایسا اس لئے سمجھا جا رہا ہے کیونکہ اس طرح دہشت گردی کے ملزمین کو عدالت سے ضمانت پہلی بار نہیں ملی ہے ، اس سے پہلے بھی برسوں تک جیل میں بند رہنے کے بعد کئی ملزمین کو بے قصور قرار دے کر عدالت کے ذریعے رہا ئی مل چکی ہے ۔ ٹھوس اورقابل گرفت ثبوتوں کے بغیر اس طرح بے قصور نوجوانوں کو دہشت گردی کے الزام میں گرفتار کرنے کی وجہ سے ملک کی دہشت گرد مخالف اعلیٰ ترین تحقیقاتی ایجنسی کے طریقہ کار اور اس کے منشاء پربھی سوال اٹھنے لازمی ہیں۔
ابھی حال ہی میں جن تین لوگوں کو عدالت نے ضمانت دی ہے ان کے نام فیاض احمد خان (25 سال)، منان گلزار ڈار اور عبداللہ سعود انصاری (25 سال) ہیں ۔
معاملہ نمبر 1 : فیاض احمد خان کے بارے میں معلوم ہوا ہے کہ وہ جموں و کشمیر کے کپوارہ میں مزدوری کرتا ہے ۔ اسے 14 مئی 2022 کو یو اے پی اے قانون کے تحت گرفتار کیا گیا تھا ۔ لیکن این آئی اے نے قانون کے مطابق 180 دن (تین مہینے) کے اندر عدالت میں اس کے خلاف چارج شیٹ داخل نہیں کی ۔ اس بنیاد پر پٹیالہ ہاوس کورٹ نئی دہلی کے پرنسپال ڈسٹرکٹ اینڈ سیشنس جج دھرمیش شرما نے فیاض کو ضمانت پر رہا کر دیا ۔ حد تو یہ ہوگئی کہ ملزم کی پیروی کرتے ہوئے اے پی سی آر کے وکلاء تمنا پنکج اور پریا واٹس نے ضمانت کی جو درخواست داخل کی تھی اس پر این آئی اے اپنا جواب دینا بھی ضروری نہیں سمجھا ۔
معاملہ نمبر 2- : منان گلزار ڈار کشمیر کا مشہور نوجوان فوٹو جرنلسٹ ہے جو مختلف بین الاقوامی میڈیا کے لئے کام کرتا ہے ۔ این آئی اے نے منان کو پاکستان کے لشکر طیبہ ، البدر، حزب المجاہدین جیسی ممنوعہ تنظیموں کے مشترکہ پلیٹ فارم یونائٹیڈ جہاد کاونسل (یو جے سی ) کے ساتھ ساز باز رکھنے اور ان سے وابستہ آقاوں کے لئے کام کرنے کا الزام لگاتے ہوئے یو اے پی اے کے تحت دہشت گردانہ سازش کیس میں 22 اکتوبر 2021 کو گرفتار کیا تھا اور اسے تہاڑ جیل میں قید رکھا گیا ۔
الزام یہ بھی لگایا گیا تھا کہ یو جے سی کی ہدایت پر پاکستانی آقاوں نے کشمیر وادی میں دہشت گردی کو دوبارہ شروع کرنے کے لئے 'دی ریزسٹنس فورس' (ٹی آر ایف)، 'پیپل اگینسٹ فاشسٹ فورسس' (پی اے ایف ایف)، 'مسلم جانباز فورس' جیسے نئے محاذ کھڑے کیے تھے ۔
این آئی اے نے منان کے تعلق سے دعویٰ کیا تھا کہ ممنوعہ تنظیموں کے مارے گئے دہشت گردوں کے پوسٹرس ، تصاویر اور ڈیجیٹل آلہ جات سے حاصل شدہ معلومات سے پتہ چلا تھا کہ ملزم منان بنیاد پرست ہے اور وہ ایک 'بہت بڑی سازش' کا حصہ ہے ۔ ایجنسی نے منان پر صرف پولیس اور آرمی پر سنگباری کے لئے نوجوانوں کو اکسانے کا الزام ہی نہیں لگایا بلکہ فوٹو جرنلسٹ کے لبادے میں سیکیوریٹی فورسس کی تصاویر، ان کے محاذ اور تعیناتی کی تصاویر مختلف سوشیل میڈیا پلیٹ فارمس پر شیئر کرنے کا ملزم قرار دیا ۔ این آئی اے نے اس پر آئی پی سی اور یو اے پی اے کی مختلف دفعات کے تحت کیس دائر کیا ۔
اے پی سی آر کی ایڈوکیٹ تارا نرولا نے منان کی پیروی کرتے ہوئے گواہوں کے مبہم بیانات کی بیناد پر اس گرفتاری اور کیس کی سخت مخالفت کی ایڈوکیٹ نے عدالت کو آگاہ کیا کہ منان کو بڑی سازش سے جوڑنے کے لئے چارج شیٹ کے ساتھ اس کے فون کال کی جو تفصیلات اور لوکیشن رپورٹ عدالت میں پیش کی گئی ہے وہ استغاثہ کے دعوے سے مطابقت نہیں رکھتی ۔ نرولا نے کہا کہ "جتنے الزامات لگائے گئے ہیں وہ سب کے سب بے بنیاد ، بغیر ثبوت اور جھول سے بھرے ہوئے ہیں ۔"
ضمانت عرضی کی مخالفت کرتے ہوئے این آئی اے نے جو ڈیجیٹل ثبوت پیش کیے تھے اسے عدالت نے بھی "ناکافی" قرار دیتے ہوئے تبصرہ کیا کہ " ماننا پڑے گا کہ سیکیوریٹی فورسس، ان کے مقام تعینات وغیرہ سے متعلقہ تصاویر کسی شخص یا تنظیم کو کسی بھی وقت شیئر کرنے کا کوئی ثبوت نہیں ہے ۔" عدالت نے ضمانت کے حکم میں کہا ہے کہ ۔۔۔۔ یہ کہنا کافی ہے کہ کسی بھی انداز میں پیش کیا گیا کوئی بھی ثبوت کسی بھی قسم کی دہشت گردانہ کارروائی کی طرف اشارہ نہیں کرتا ۔" عدالت نے یہ بھی کہا کہ کسی کے موبائل فون میں اگر کوئی قابل اعتراض مواد موجود تھا جسے :"سیانے شخص نے خود ہی ڈیلیٹ کردیا ہے، وہ ملزم کو اس جرم یا الزام سے جوڑنے کے لئے کافی نہیں ہوگا ۔"
معاملہ نمبر 3- : ممنوعہ تنظیم پاپولر فرنٹ آف انڈیا کے مبینہ رکن عبداللہ سعود انصاری (27 سال) کو این آئی اے /اے ٹی ایس کورٹ لکھنو نے 7 جنوری کو ضمانت پر رہا کرنے کا حکم جاری کیا ۔ عبداللہ سعود کو گزشتہ سال ستمبر میں ملک گیر پیمانے پر پی ایف آئی کارکنان کے ٹھکانوں پر این آئی اے کے چھاپوں کے دوران بنارس سے گرفتار کیا گیا تھا ۔ اس پر یو اے پی اے اور آئی پی سی کی دفعات کے تحت کیس درج ہوا تھا ۔
معمولی کام کاج کرکے زندگی بسر کرنے والے عبداللہ سعود کے بارے میں این آئی اے نے دعویٰ کیا تھا کہ وہ 2017 سے پی ایف آئی کا سرگرم رکن رہا ہے اور اس کے گھر سے اشتعال انگیز تقاریر اور ویڈیو کلپس برآمد ہوئے ہیں ۔ اس الزام کے ثبوت میں این آئی اے نے کہا تھا کہ پی ایف آئی پر پابندی کے حوالہ سے ظفرالاسلام نے سنگین الزامات این آئی اے پر لگائے تھے اس ویڈیو کو انصاری نے دوسروں کے ساتھ شیئر کیا تھا ۔ این آئی اے نے یہ بھی دعویٰ کیا تھا کہ انصاری نے پی ایف آئی کے ساتھ اپنی وابستگی کی بات قبول کی ہے ۔
اے پی سی آر کی طرف سے انصاری کی پیروی کرنے والے ایڈوکیٹ نجم الثاقب خان نے اپنے موکل کو جھوٹے الزامات میں پھنسانے کی بات کہی اور عدالت کو بتایا کہ انصاری کے ماضی میں کسی قسم کی مجرمانہ سرگرمیوں میں ملوث ہونے کا کوئی ریکارڈ نہیں ہے ۔ انہوں نے عدالت کو بتایا کہ ملزم تحقیقات میں تعاون کرنے کے مقصد سے پولیس اسٹیشن گیا تھا مگر اسے غیر قانونی طور پر حراست میں لیا گیا اور پھر اس کے گھر والوں کو اطلاع دئے بغیر ہی اسے عدالتی تحویل میں بھیجا گیا ۔
ایڈوکیٹ خان نے عدالت کے سامنے یہ بات بھی رکھی کہ "پولیس نے ملزم پر بہت زیادہ دباو ڈالا اور بہت سارے سادے کاغذات پر اس کے دستخط لیے گئے ۔" انہوں نے کہا کہ تحقیقاتی افسر کو ایسا کوئی بھی ثبوت نہیں ملا ہے جو انصاری اور ممنوعہ تنظیم کے رابطے کو ثابت کرے ۔ " یہاں ریکارڈ پر پیش کیے گئے اس کے موبائل فون یا دوسرے دستاویزات سے کسی بھی قسم کی مشکوک ملک دشمن سرگرمیوں کی کوئی بات ظاہر نہیں ہوتی ۔" وکیل کے دلائل سننے اور ملزم کے خلاف لگائے گئے الزامات کا جائزہ لینے کے بعد اسپیشل این آئی اے / اے ٹی ایس کورٹ لکھنو کے ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشنس جج ویویکا نندا شرن ترپاٹھی نے 50 ہزار کے دو ضمانتی بونڈس فراہم کرنے کی شرط کے ساتھ انصاری کی ضمانت منظور کردی ۔
حکومت کے جبر و ستم کے متاثرین کو اے پی سی آر کی طرف سے مفت قانونی امداد فراہم کرنے والے ایڈوکیٹ نجم الثاقب خان نے بتایا کہ "ہم اس بات پر مکمل یقین رکھتے ہیں کہ جب تک ملزم کا جرم ثابت نہیں ہوتا تب تک ہر ملزم بے قصور مانا جائے گا ۔ سپریم کورٹ کے بے مثال فیصلے کے مطابق ضمانت ایک قانون اور جیل استثنیٰ ہے ۔ میں ممنون ہوں کہ عدالت نے ہمارے دلائل قبول کیے اور ملزم کو ضمانت مل گئی ۔