جیلوں میں بند مظاہرین کی رہائی کو لےکر اے پی سی آر کاپینل ڈسکشن؛ سماجی کارکنان نے گرفتاریوں پر اُٹھائے سوال؛اگر ضمانت اُصول ہے اور جیل استثنیٰ تو یہ کس کے لئے ؟
نئی دہلی،26/ستمبر (ایس او نیوز )2019-20 میں سی اے اے-این آر سی مخالف مظاہروں سے منسلک کئی کارکنوں کی گرفتاری کے چار سال مکمل ہونے پرنئی دہلی کے کانسٹی ٹیوشن کلب میں ایسوسی ایشن فار پروٹیکشن آف سول رائٹس (اے پی سی آر) کے زیر اہتمام ایک پینل ڈسکشن کا انعقاد کیا گیا جس میں ِخطاب کرتے ہوئے ایک طرف کانگریس کے سنئیر لیڈر دگ وجے سنگھ نے کالے قانون کے غلط استعمال کے خلاف آواز بلند کی ، وہیں کئی سماجی کارکنان نے کالے قانون سمیت سپریم کورٹ جج کے گھر پر وزیراعظم نریندر مودی کی آمد کو لے کر بھی سخت تنقید کا نشانہ بنایا۔
یو اے پی اے قانون کے تحت مظاہرین کو چار سالوں سے جیل میں بند رکھنے اور ہائی کورٹ، یہاں تک کہ سپریم کورٹ کی طرف سے بھی ضمانت نہ دئے جانے پر جیل میں بند کارکنوں کے لواحقین نے اپنے درد اور جذبات کو بیان کیا وہیں خاندان کے اہم سرپرستوں کو ہی گرفتار کرنے پر وہ کس طرح کے مسائل سے جوج رہے ہیں، اُسے ذمہ داران کے گوش گذار کیا اوراتنے لمبے عرصے سے کیس کی سنوائی نہ ہونے سے ہورہی پریشانیوں کا تذکرہ کرتے ہوئے اس عزم کا اظہار کیا کہ جن آوازوں کو دبانے کے لئے گرفتاریاں ہوئی ہیں، وہ آوازیں نہیں دبیں گی ، جن کارکنان کے حوصلوں کو توڑنے کی کوشش کی جارہی ہے، اُن کے حوصلوں کو ٹوٹنے نہیں دیا جائے گا۔
اے پی سی آر کے زیراہتمام اس اہم پروگرام سے خطاب کرتے ہوئے کانگریس کے سینئر لیڈر دگ وجے سنگھ نے آر ایس ایس پر حملہ کرتے ہوئے کہا کہ جس طرح جرمنی میں ہٹلر کے دور میں یہودیوں کو نشانہ بنایا گیا تھا۔آرایس ایس نے ہندوستان میں مسلمانوں کو اپنا ہدف بنایا ہے ۔جیل میں بند کارکنوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کا اظہار کرتے ہوئے دگ وجے سنگھ نے کہا کہ اُن کا تعلق ایسے علاقہ سے ہے،جسے آر ایس ایس کی "نرسری” کہا جاتا ہے۔انہوں نے کہا کہ میں انہیں قریب سے جانتا ہوں۔ وہ نہ جمہوریت پر یقین رکھتے ہیں نہ آئین پر۔ جس طرح ہٹلر نے یہودیوں کو اپنا ہدف بنایا، آر ایس ایس نے مسلمانوں کو اپنا ہدف بنایا ہے۔ آگے بتایا کہ آر ایس ایس ایک ایسا غیر رجسٹرڈ ادارہ ہے جس کے پاس نہ تو کوئی قانونی حیثیت ہے اور نہ ہی باقاعدہ رکنیت کا نظام۔ اگر کوئی پکڑا جاتا ہے، تو وہ اسے اپنا رکن ماننے سے انکار کر دیتے ہیں، جیسا کہ انہوں نے ناتھورام گوڈسے کی گرفتاری کے وقت کیا تھا۔ آر ایس ایس کے کارکنان ملک کے ہر نظام میں اور ہر جگہ پر گھس چکے ہیں… ہمیں ایک سنجیدہ خود شناسی کرنے کی ضرورت ہے۔انہوں نے سوال کیا کہ ضمانت ایک اصول ہے اور جیل استثنیٰ ہے، مگر کیا وجہ ہے کہ مسلمانوں کے لیے ضمانت مستثنیٰ ہو جاتی ہے؟ ا نہوں نے اس بات پر افسوس کا اظہار کیا کہ جب متاثرہ فریق مسلمان ہوتا ہے تو عدالتیں شاذ و نادر ہی اُنہیں ضمانت دیتی ہیں۔
اس دوران جیل میں بند عمر خالد کے والد ایس کیو آر الیاس نے غیر قانونی سرگرمیاں (روک تھام) ایکٹ جیسے سخت قوانین پر تشویش کا اظہار کیا جس کے تحت خالد اور دیگر کو گرفتار کیا گیا ہے۔انہوں نے کہا”چاہے وہ عمر ہو، یا گلفشا ں یا پھر بھیما کورے گاؤں کیس میں گرفتار ہونے والے… پارلیمنٹ کے اندر بنائے گئے یہ سخت قوانین دہشت گردی کو روکنے کے لیے ہیں، لیکن ان کا استعمال عام لوگوں کے خلاف کیا جارہا ہے۔الیاس صاحب نے کہا کہ جب بی جے پی کی طرف سے پوٹا لایا گیا تو کانگریس نے دِکھاوے کے لئے اُسے ختم کر دیا اور اس کی جگہ پر UAPA کو لاتے ہوئے پوٹا کی تمام دفعات کو واپس لایا گیا ، انہوں نے واضح کیا کہ پارلیمنٹ کے ذریعے جو سخت ترین قانون لاگو کئے گئے ہیں اس قانون نے انسانی حقوق کی کس طرح سے خلاف ورزی کی ہے اور بنیادی حقوق کو ختم کیا ہے، اس کا آپ اندازہ بھی نہیں لگاسکتے۔ ڈاکٹر الیاس نے کہا کہ نوجوانوں کو گرفتار صرف اس وجہ سے کیا گیا کہ انہوں نے سرکار کو چیلنج کیا تھا، سی اے اے کے خلاف جو لڑائی لڑی گئی تھی، اُسی کی وجہ سے ہمارے نوجوان آج جیلوں میں بند ہیں۔ ڈاکٹر الیاس نے کہا کہ آج جیلوں میں سینکڑوں لوگ اسی کالے اور سخت قانون کے تحت بند ہیں، جن میں سے کئی ایسے ہیں جن کا کوئی پُرسان حال نہیں ہے، اُن کے لئے کوئی آواز اُٹھانے والا بھی نہیں ہے، انہوں نے مطالبہ کیا کہ ان کالے قوانین کو واپس لیا جائے۔ ڈاکٹر الیاس نے واضح کیا کہ آج جن نوجوانوں کو غلط الزامات کے تحت بند کیا گیا ہے، اُن میں سے کسی کی بھی ہمت نہیں ٹوٹی ہے، اور یہ سب نوجوان یہ لڑائی دوبارہ لڑنے کے لئے تیار ہیں۔انہوں نے اس بات پر تعجب کا اظہار کیا کہ عام لوگوں کو ایسے کالے قانون کے تحت گرفتار کرنے کے بعد جب یہ لوگ دس پندرہ سالوں بعد بے قصور ثابت ہوکر رہا ہوجاتے ہیں تو عدالت کیوں نہیں پوچھتی کہ بے قصور لوگوں کو گرفتار کیوں کیا گیا، جن لوگوں نے گرفتار کیا اُن کے خلاف کاروائی کیوں نہیں ہوتی ؟ انہوں نے صاف کیا کہ جب تک ملک میں ایسا نظام لاگو نہیں ہوگا، یہ سلسلہ یوں ہی چلتا رہے گا۔ انہوں نے سوال کیا کہ اگر چیف جسٹس آف انڈیا اپنے گھر میں ملک کے وزیراعظم کو مدعو کرتے ہیں اور ان کے ساتھ پوجا کرکے اس کی وڈیو ازور فوٹوز پورے ملک کے عوام کے لئے وائرل کرتے ہیں تو کیا میں اس بات کی اُمید کرسکتا ہوں کہ میرے ساتھ انصاف ہوگا ؟
سپریم کورٹ جج کے مکان پر وزیراعظم مودی کی آمد اور اُن کے ساتھ پوجا کئے جانے کی وڈیو کو لے کر سی پی آئی (ایم ایل) کے جنرل سکریٹری دیپانکر بھٹّا چاریہ نے بھی سخت تشویش کا اظہار کیا اور کہا کہ سپریم کورٹ کے ججس کی طرف سے نچلی عدالتوں کو کہا جاتا ہے کہ اُنہیں ڈرنا نہیں چاہئے، لیکن خود سپریم کورٹ کے چیف جسٹس نے وزیراعظم کے ساتھ پوجا میں شریک ہوکر تمام نچلی عدالتوں کو ڈرانے کا کام کیا ہے۔ بھٹاچاریہ نے کہا کہ عدالتوں میں ڈر اور خوف کی وجہ سے ہی جیلوں میں بند ملزمین کی سنوائی نہیں ہورہی ہے، انہوں نے جیلوں میں بند نوجوانوں کو ہیروز قرار دیتے ہوئے کہا کہ ان کے ساتھ نا انصافی ہورہی ہے۔آگے کہا کہ ملک اِس وقت ایک کھلی جیل میں تبدیل ہوچکا ہے۔ کچھ لوگ جیلوں میں بند ہیں ، مگر جو باہر ہیں، وہ بھی کھلی جیل میں ہی ہیں۔ بھٹاچاریہ نے پورے عزم کے ساتھ کہا کہ یہ ملک ہمیشہ انصاف کے لیے لڑے گا، اور ہم کبھی بھی جھکنے والے نہیں ہیں، یہ ملک ہٹلر اور تانا شاہوں کے لئے نہیں بنا ہے۔ سماجی کارکن اور ایکٹر سورابھاسکر نے کہا کہ ملک میں مسلمانوں کو آتنگ واد یا غدار کہہ کر گرفتار کرنا سب سے آسان کام ہوگیا ہے، سورا بھاسکر نے اس بات پر تعجب کا اظہار کیا کہ ہم آسانی سے نیتاوں کو اور پولس کو گالیاں دیتے ہیں لیکن عدالتی نظام پر سوال اُٹھانے میں بہت ڈر محسوس کرتے ہیں کہ توہین عدالت کا کیس ہوجائے گا، انہوں نے صاف کیا کہ انصاف بولنے سے یا ایکشن بازی سے نہیں بلکہ کرنے سے ہوتا ہے۔