بابری مسجد، مسلم پرسنل لابورڈ اور مولانا سید سلمان ندوی : سوشل میڈیا پر وائر ل سید سعادت اللہ حسینی کی ایک تحریر

Source: S.O. News Service | Published on 13th February 2018, 11:42 PM | اسپیشل رپورٹس | ان خبروں کو پڑھنا مت بھولئے |

بابری مسجد ،پرسنل لابورڈ اور مولانا سلمان ندوی صاحب وغیرہ سے متعلق جو واقعات گذشتہ چند دنوں میں پیش آئے ان کے بارے میں ہرطرف سے سوالات کی بوچھار ہے۔ ان مسائل پر اپنی گذارشات اختصار کے ساتھ درج کررہاہوں ۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کی صحیح اور مبنی برعدل و اعتدال ، سوچ کی طرف رہنمائی فرمائے ،آمین۔

۱۔یہ کہنا کہ بابری مسجد کی جگہ حوالہ کردی جائے تو فرقہ پرست قوتوں کے پاس 2019کے لئے کوئی ایشو نہیں رہے گا، بڑی کمزور بات ہے۔ اس کے بالمقابل واقعہ یہ ہے کہ ،ان قوتوں کااصل مسئلہ اب یہی ہے کہ یہ ایشو اب باتی نہیں رہا، بلکہ گلے کی ہڈی بن چکاہے۔ اپوزیشن میں رہتے ہوئے حکومت کو لعن طعن کرکے اور ہجوم کے ہاتھوں قانون شکنی کے ذریعے اس ایشو کو زندہ رکھنا ممکن تھا۔ اب جب کہ مرکزاور ریاست ہرجگہ پر انہی کی حکومت ہے،و ہ عوام کے پاس کیا منہ لے کر جائیں؟ انہوں نے تو مندر کی تعمیر کا وعدہ کیا تھا۔ اب اقتدار ملنے کے بعد ان کے ووٹرز اس وعدہ کی تکمیل کی توقع رکھتے ہیں۔ یہ ایشو دوبارہ زندہ ہوسکتاہے تو صرف اس صور ت میں کہ کس طرح اس وعدہ کی تکمیل اور مندر کی تعمیر کی راہ ہموار ہو۔

اب مسئلہ یہ ہے کہ عدالت میں مقدمہ آخری مرحلوں میں ہے۔ الہ آباد ہائی کورٹ کے مقدمہ کے فیصلہ سے معلوم ہوتاہے کہ کوئی کمزور قانونی بنیاد بھی مندر کے حق میں فیصلہ کے لئے موجود نہیں ہے۔ اگر عدالت یہاں بھی بندربانٹ کا طریقہ اختیار کرتی ہے تو دنیا بھرمیں ملک کے عدالتی نظام کا وقار بری طرح مجروح ہوگا۔ اور اگر مسجد کے حق میں فیصلہ سناتی ہے تو حکومتوں میں رہتے ہوئے عدالت کے حکم کی صریح خلاف ورزی ، ان قوتوں کے لئے ، ناممکن نہ سہی بہت مشکل ضرور ہوگی۔

اس الجھن کا حل یہ ڈھونڈا گیا کہ کسی طرح فیصلہ سے پہلے مسلمان خود دستبردار ہوجائیں ۔ وعدہ کی تکمیل اور عوام کو منہ دکھانے کی گنجائش نکل آئے ۔ اس طویل کشمکش کی پرامن یکسوئی کا سہرا باندھ کر اور فتح یابی کے تاریخی جشن کے درمیان 2019کا بگل بجایا جائے۔

اس لئے یہ سمجھنا ضروری ہے کہ مقدمہ سے دستبرداری ، حکمران جماعت سے ایشو چھیننا نہیں بلکہ اُسے ایشو فراہم کرنا ہے۔ ایک مردہ ایشوکو جو اس کے گلے کی ہڈی بن چکاہے، دوبارہ زندہ کرناہے۔

۲۔یہ سمجھنا بھی بہت سادہ لوحی کی بات ہے کہ یہ ایشو ختم ہوجائے تو اس طرح کی سیاسی جماعتوں کے پاس ایشو ختم ہوجائیں گے۔ گذشتہ چند سالوں ہی کا جائزہ لے لیجئے کہ کتنے نئے ایشو پیدا ہوگئے؟ کیا کوئی سوچ بھی سکتاتھا کہ ’لوجہاد‘ جیسی نامعقول بات بھی اکیسویں صدی کے ہندوستان میں ایشو بن سکتی ہے؟ بابری مسجد کا مسئلہ بھی مصنوعی طورپر تخلیق کردہ ایشو ہے۔ الہ آباد ہائی کورٹ کا فیصلہ ،خاص طورپر جسٹس سدھیراگروال کا تفصیلی فیصلہ جن لوگوں نے پڑھاہے، وہ جانتے ہیں کہ اب یہ بات عدالت کی مہر کے ساتھ ثابت ہوگئی ہے کہ رام چندرجی کی اُس مقام پر پیدا ئش کی آستھا کی بنیاد ، نہ کوئی کتاب ہے اور نہ کوئی قدیم روایت ۔

انیسویں صدی میں زبردستی بت رکھ کر اور پھر شور شرابہ کرکے یہ آستھا پیدا کی گئی ہے۔ ان قوتوں کے سیاسی عزائم اور ان کے حتمی مقاصد کا حصول ایسے ایشوز تخلیق کرتےرہنے میں ہے، سو وہ کرتے رہیں گے۔ ملک میں امن وامان کی بنیادی ضرورت یہ ہے کہ یہاں قانون کی حکمرانی ہو اور تمام سیاسی ہتھکنڈے اور نظریاتی کشمکش قانون کے تابع ہو۔ اس لئے نہایت ضروری ہے کہ قانونی عمل مکمل ہو۔ قانونی عمل میں کسی بھی قسم کا خلل اور عدلیہ کی کارروائی کا رک جانا دراصل موبو کریسی کے مقابلہ میں قانون کی شکست ہوگی۔ اور اس سے اس طرح کے نئے ایشوز کی تخلیق اور موبو کریسی کے رجحان کو زبردست تقویت ملے گی۔

۳۔ یہ بات بھی سمجھنے کی ہے کہ مقدمہ سے دستبرداری قانونی طورپر کسی کے لئے بھی ممکن نہیں ہے، نہ یوپی وقف بورڈ کےلئے، نہ کسی اور مسلمان فریق کے لئے، نہ پرسنل لابورڈ کے لئے اور نہ ہی کسی عالم یا سیاسی رہنماکےلئے۔ ماہرین قانون کہتےہیں کہ قانون وقف کے مطابق وقف کی جائیدا د فروخت کرنا، ہبہ کرنا یا اس کا تبادلہ کرنا سب، غیر قانونی ہے۔ غیر قانونی طورپر وقف کی جائیدادوں پر قبضہ ایک الگ مسئلہ ہے، لیکن اس قدر حساس اور مشہور مقدمہ میں ، باقاعدہ سپریم کورٹ میں صریح خلاف موقف ، وقف بورڈ نہیں لے سکتا۔ پھر یہاں وقف بورڈ اکیلا فریق نہیں ہے، کئی فریق ہیں اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ مقدمہ ایک Representative Suiteہے۔ یعنی مسلمان فریق، یہاں دراصل سارے مسلمان کی نمائندگی کررہے ہیں۔ ایسے میں ان نمائندوں کو یہ اختیار نہیں ہوتا کہ وہ مقدمہ سے دستبردار ہوجائیں۔ سارے مسلمان فریق بھی مقدمہ واپس لینے کی درخواست دے دیں تو قانونی طورپر کورٹ کے لئے ضروری ہوگا کہ وہ اشتہار دے اور کوئی بھی مسلمان گروپ اٹھ کر فریق بن جائے تو مقدمہ چلتا رہے گا۔ گویا مقدمہ سے دستبرداری اسی وقت ممکن ہے جب ہندوستان کے مسلمان سب کے سب اس پر متفق ہوجائیں۔

۴۔ اس لئے زیادہ معقول بات یہی ہے کہ مسلمان اس مقدمہ کو اس کے حتمی اور منطقی انجام تک پہنچائیں۔ اہل ملک کے سامنے سچائی پوری طرح واضح ہوجائے۔ مکر وفریب اور جھوٹ اور دغا کے علم بردار ہیرو نہ بنیں بلکہ ان کا جھوٹ ملک اور دنیا کے سامنے بے نقاب ہو۔ حریفانہ جذبات کی شدت کی عمر بہت کم ہوتی ہے لیکن سچائی اور حقیقت تاریخ کا اٹل حصہ بنتی ہے۔ یہ فرقہ وارانہ کشمکش آج ہے ، کل نہیں رہے گی لیکن یہ بات تاریخ میں ہمیشہ کے لئے نقش ہوجائے گی اور ہمیشہ اس ملک میں ہندو مسلم تعلقات کی بنیاد بنی رہے گی کہ ، بابری مسجد کی یہ لمبی لڑائی مسلمانوں نے سچ کی بنیاد پر لڑی تھی یا ایک جھوٹے دعوے کے لئے ؟

البتہ یہ بات بھی صحیح ہے کہ اس مسئلہ کو جس طرح جذباتی سیاست کی بنیاد بنا دیا گیا ہے ، اس ملت اسلامیہ ہند کو شدید نقصان پہنچاہے۔ آئندہ شدت سے احتیاط کرنا ضروری ہے کہ ہمارے کسی اقدام سے یہ مسئلہ سیاست کی اور سماجی کشمکش کی بنیاد نہ بننے پائے۔ یہ مسئلہ سچ اور جھوٹ کا اورقانون کامسئلہ ہے، اسی دائرہ تک اسے محدود رکھنےکی ہرممکن کوشش ہونی چاہئے۔

۵۔ ان سب باتوں کو بیان کرکے ساتھ ساتھ ، ہم اس حقیقت کی طرف بھی اشارہ ضروری سمجھتے ہیں کہ ہمارے اس موقف کی حیثیت اس کے سوا کچھ نہیں کہ یہ انسانی غور وفکر کا نتیجہ اور اجتہادی موقف ہے۔ اس میں غلطی کا ہمیشہ امکان موجود ہے۔ اس پر بحث و تبادلہ خیال اور مختلف رائے کی گنجائش ہمیشہ رہے گی۔ ہر زندہ اور باشعور قوم ایسے مسائل پر غور وفکر اور تبادلہ خیال کی ہمیشہ ہمت افزائی کرتی ہے۔ ہمارے نزدیک مولانا سلمان صاحب کا اپنا نقطہ نظر ہوسکتاہے، انہیں اپنی رائے رکھنے کا اور اسے پیش کرنے کا حق حاصل ہے لیکن اس نقطہ نظر کی بنیاد پر اکیلے اقدام کردینا ، اسے اندرونی سطح پر غوروفکر اور سنجیدہ تبادلہ خیال کے بجائے میڈیا کا ایشو بنا دینا، اجتماعی فیصلہ کو ٹھکرانا اور سنجیدہ بات چیت کی مناسب کوشش کے بغیر اجتماعی فورم سے علحیدگی کا اعلان کردینا، یقیناً غلطی ہے۔ اس غلطی پر انہیں سنجیدہ ماحول میں متوجہ کرنا چاہئے۔

مولانا ارشد مدنی صاحب کا اخبارات میں بیان شائع ہواہے۔ قیم جماعت اسلامی ہند ، سلیم انجنئیر صاحب نے ایک ٹی وی مباحثہ میں اس موضوع پر اظہار خیال کیا ہے، یہ سب سنجیدہ اور باوقار رائے و اظہار اختلاف کے نمونے ہیں۔ہمارے نوجوانوں کو بھی اسی اسلوب کی اتباع کرنی چاہئے۔

ان واقعات سے زیادہ افسوس ناک وہ گفتگو ہے جو سوشل میڈیا میں سنجیدہ دینی حلقوں میں اس کے حوالہ سےہورہی ہے۔ خیالات پر بحث کو خیالات تک محدود رکھنے کی صلاحیت اجتماعی شعور اور بالغ نظری کی بڑی اہم علامت ہوتی ہے۔ یہ بحث اگر تیزی سے ذاتیات کی سطح پر اترنے لگے تو سمجھ لیجئے کہ ہمارا شعور ابھی بالغ نہیں ہواہے۔ یہ بڑے افسوس کی بات ہے کہ اس نابالغی کے مظاہرے ان دودنوں میں بہت کثرت سے ہوئے۔ اگر کوئی سیاسی قائد نامناسب زبان استعمال کرتاہے تو اس کا کوئی سیاسی مقصد ہوسکتاہے لیکن جولوگ سوشل میڈیا پر ذاتیات کے حوالہ سے قلم کے جوہر دکھا رہے ہیں ان کی اس غیر ذمہ دارانہ روش کی کیا توجیہہ ہوسکتی ہے؟

ہمارے بڑے بھی انسان ہیں۔ کبھی اختلاف کی حساسیت ان کو بھی جذباتی بنا سکتی ہے ۔ ایسے ماحول میں ہمارارویہ وہی ہونا چاہئے جو گھر میں ماں باپ کے درمیان کسی وقتی تلخ کلامی پر بچوں کا ہوتاہے۔ انہیں نہ خود کو دوگروپوں میں تقسیم کرنے کی ضرورت پیش آتی ہے اور نہ ایک دوسرے پر لعن طعن کی۔ بحث کو زیر بحث مسئلہ تک محدود رکھئے۔ اس امت کو بڑےمسائل کا سامنا ہےاور اندیشہ ہے کہ آئندہ اور بڑے مسائل کا مقابلہ کرنا پڑسکتاہے۔ ایسی معمولی باتوں پر ہم ٹوٹتے اور بکھرتے رہیں تو پھر ہم زندہ کیسے رہیں گے؟

سید سعادت اللہ حسینی

ایک نظر اس پر بھی

نئی زندگی چاہتا ہے بھٹکل کا صدیوں پرانا 'جمبور مٹھ تالاب'

بھٹکل کے اسار کیری، سونارکیری، بندر روڈ، ڈارنٹا سمیت کئی دیگر علاقوں کے لئے قدیم زمانے سے پینے اور استعمال کے صاف ستھرے پانی کا ایک اہم ذریعہ رہنے والے 'جمبور مٹھ تالاب' میں کچرے اور مٹی کے ڈھیر کی وجہ سے پانی کی مقدار بالکل کم ہوتی جا رہی ہے اور افسران کی بے توجہی کی وجہ سے پانی ...

بڑھتی نفرت کم ہوتی جمہوریت  ........ ڈاکٹر مظفر حسین غزالی

ملک میں عام انتخابات کی تاریخوں کا اعلان ہونے والا ہے ۔ انتخابی کمیشن الیکشن کی تاریخوں کے اعلان سے قبل تیاریوں میں مصروف ہے ۔ ملک میں کتنے ووٹرز ہیں، پچھلی بار سے اس بار کتنے نئے ووٹرز شامل ہوئے، نوجوان ووٹرز کی تعداد کتنی ہے، ایسے تمام اعداد و شمار آرہے ہیں ۔ سیاسی جماعتیں ...

مالی فراڈ کا نیا گھوٹالہ : "پِگ بُوچرنگ" - گزشتہ ایک سال میں 66 فیصد ہندوستانی ہوئے فریب کاری کا شکار۔۔۔۔۔۔۔(ایک تحقیقاتی رپورٹ)

ایکسپوژر مینجمنٹ کمپنی 'ٹینیبل' نے ایک نئی رپورٹ جاری کی ہے جس میں یہ انکشاف کیا گیا ہے کہ پچھلے سال تقریباً دو تہائی (66 فیصد) ہندوستانی افراد آن لائن ڈیٹنگ یا رومانس اسکینڈل کا شکار ہوئے ہیں، جن میں سے 81 فیصد کو مالی نقصان کا سامنا کرنا پڑا ہے۔

مسلمان ہونا اب اس ملک میں گناہ ہے۔۔۔۔۔۔۔۔از: ظفر آغا

انہدام اب ایک ’فیشن‘ بنتا جا رہا ہے۔ یہ ہم نہیں کہہ رہے بلکہ یہ مدھیہ پردیش ہائی کورٹ کا بیان ہے۔ بے شک مکان ہو یا دوکان ہو، ان کو بلڈوزر کے ذریعہ ڈھا دینا اب بی جے پی حکومت کے لیے ایک فیشن بن چکا ہے۔ لیکن عموماً اس فیشن کا نشانہ مسلم اقلیتی طبقہ ہی بنتا ہے۔ اس کی تازہ ترین مثال ...

کیا وزیرمنکال وئیدیا اندھوں کے شہر میں آئینے بیچ رہے ہیں ؟ بھٹکل کے مسلمان قابل ستائش ۔۔۔۔۔ (کراولی منجاو کی خصوصی رپورٹ)

ضلع نگراں کاروزیر منکال وئیدیا کا کہنا ہے کہ کاروار میں ہر سال منعقد ہونےو الے کراولی اتسوا میں دیری اس لئے ہورہی ہے کہ  وزیرا علیٰ کا وقت طئے نہیں ہورہاہے۔ جب کہ  ضلع نگراں کار وزیر اس سے پہلے بھی آئی آر بی شاہراہ کی جدوجہد کےلئے عوامی تعاون حاصل نہیں ہونے کا بہانہ بتاتے ہوئے ...

اترکنڑا میں جاری رہے گی منکال وئیدیا کی مٹھوں کی سیاست؛ ایک اور مندر کی تعمیر کے لئے قوت دیں گے وزیر۔۔۔(کراولی منجاؤ کی خصوصی رپورٹ)

ریاست کے مختلف علاقوں میں مٹھوں کی سیاست بڑے زورو شور سے ہوتی رہی ہے لیکن اترکنڑا ضلع اوراس کے ساحلی علاقے مٹھوں والی سیاست سے دورہی تھے لیکن اب محسوس ہورہاہے کہ مٹھ کی سیاست ضلع کے ساحلی علاقوں پر رفتار پکڑرہی ہے۔ یہاں خاص بات یہ ہےکہ مٹھوں کے رابطہ سے سیاست میں کامیابی کے ...

مہوا موئترا نے ای ڈی کے سمن کو کیا نظر انداز، کرشنا نگر میں چلائیں گی انتخابی مہم

 ترنمول کانگریس (ٹی ایم سی) لیڈر مہوا موئترا نے انفورسمنٹ ڈائریکٹوریٹ (ای ڈی) کے سمن کو نظر انداز کرتے ہوئے کہا کہ وہ آج کرشنا نگر لوک سبھا حلقہ میں انتخابی مہم چلائیں گی۔ انہیں دہلی میں ای ڈی کے دفتر میں پوچھ گچھ کے لیے حاضر ہونے کو کہا گیا تھا۔

دہلی میں شدید گرمی، درجہ حرارت 37 ڈگری سیلسیس تک پہنچا

 دہلی اور اس کے آس پاس کے علاقوں میں درجہ حرارت میں اضافہ درج کیا جانے لگا ہے اور مارچ میں ہی گرمی نے اپنا زور دکھانا شروع کر دیا ہے۔ محکمہ موسمیات کے مطابق بدھ کو قومی راجدھانی میں رواں سال کا گرم ترین دن ریکارڈ کیا گیا۔ دریں اثنا، زیادہ سے زیادہ درجہ حرارت 37 ڈگری سیلسیس تک پہنچ ...

لوک سبھا انتخاب: مالوگم میں صرف ’ایک ووٹر‘ کے لیے الیکشن کمیشن نے اٹھایا بڑا قدم!

لوک سبھا انتخاب کی سرگرمیوں کے درمیان اروناچل پردیش سے ایک دلچسپ خبر سامنے آ رہی ہے۔ اروناچل پردیش میں لوک سبھا اور اسمبلی انتخاب سے قبل الیکٹورل افسران کی ایک ٹیم انجا ضلع کے مالوگم گاؤں پہنچنے والی ہے۔ دراصل اس گاؤں میں 44 سالہ سوکیلا تایانگ تنہا ووٹر ہیں اور وہ خاتون بھی ...

عازمین کیلئے دوسری قسط جمع کرانے کی آج آخری تاریخ

قرعہ اندازی میں منتخب عازمین اورویٹنگ لسٹ کنفرم ہونے والے تمام عازمین کو دوسری قسط کےطور پر ایک لاکھ ۷۰؍ ہزار روپے جمع کرانے کیلئے توسیع شدہ تاریخ کا آج  بروز جمعرات ۲۸؍ مارچ آخری دن ہے ۔ اسی کے ساتھ ایسی خواتین جو محرم کے زمرے میں شامل تھیں، یعنی ان کے شوہروں یا اہل خانہ نے ...

کیجریوال کی گرفتاری کے خلاف آج دہلی ہائی کورٹ میں سماعت، عآپ کا سڑکوں پر احتجاج جاری

دہلی شراب پالیسی معاملہ میں وزیر اعلی اروند کیجریوال کی گرفتاری کے بعد سڑکوں پر احتجاج جاری ہے۔ منگل (26 مارچ) کو عام آدمی پارٹی کے کارکنان وزیر اعظم کی رہائش گاہ کا گھیراؤ کرنے کے لیے سڑکوں پر نکل آئے اور شدید احتجاج کیا، جس پر دہلی پولیس نے سیکورٹی سخت کرتے ہوئے مظاہرین کو ...