بابا صدیقی قتل کیس کا مرکزی ملزم یوپی کے بہرائچ سے گرفتار
ممبئی، 11/نومبر (ایس او نیوز /ایجنسی)مہاراشٹر کے سابق وزیر اور این سی پی کے رہنما اجیت پوار کے قریبی ساتھی بابا صدیقی کے قتل کیس میں مزید پانچ افراد کو گرفتار کیا گیا ہے۔ اس کیس میں شوٹر شیوکمار اور اس کے حامیوں کو 10 نومبر کو گرفتار کیا گیا۔ اترپردیش کی ایس ٹی ایف اور ممبئی کرائم برانچ کی مشترکہ ٹیم نے شوٹر کو نانپارہ بہرائچ سے گرفتار کیا ہے۔ پولیس کے مطابق، ملزم کو پناہ دینے والے افراد بھی اس کارروائی میں شامل ہیں۔
بتایا جا رہا ہے کہ ملزم شوٹر شیوکمار نیپال فرار ہونے کا منصوبہ بنا رہا تھا۔ ایس ٹی ایف ٹیم کی قیادت پرمیش کمار شکلا کے ہیڈکوارٹر میں قائم ٹیم کے سب انسپکٹر جاوید عالم صدیقی کر رہے تھے۔
شوٹر شیوکمار کو گرفتار کرنے کے علاوہ، پولیس نے انوراگ کشیپ، گیان پرکاش ترپاٹھی، آکاش سریواستو اور اکھلیشیندر پرتاپ سنگھ کو بھی اسے پناہ دینے اور نیپال فرار ہونے کی کوشش میں مدد کرنے کے جرم میں گرفتار کیا ہے۔ بتایا جا رہا ہے کہ بہرائچ کے گندارا کا رہنے والا شیوکمار بابا صدیقی کے قتل میں ملوث تھا۔ ممبئی پولیس ایک ماہ سے مرکزی ملزم کی تلاش میں تھی۔
گرفتار ملزم شیو کمار نے پوچھ تاچھ کے دوران بتایا کہ وہ اور دھرم راج کشیپ ایک ہی گاؤں کے رہنے والے ہیں۔ وہ پونے میں اسکریپ کا کام کرتا تھا۔ اس نے بتایا کہ میری اور شبھم لونکر کی اسکریپ کی دکان ساتھ ساتھ تھی۔ شبھم لونکر لارنس بشنوئی کے لیے کام کرتے ہیں۔ اس نے مجھے اسنیپ چیٹ کے ذریعے لارنس بشنوئی کے بھائی انمول بشنوئی سے کئی بار بات کرنے پر مجبور کیا۔ بابا صدیقی کے قتل کے بدلے میں مجھے بتایا گیا کہ قتل کے بعد آپ کو دس لاکھ روپے ملیں گے اور آپ کو ہر ماہ کچھ نہ کچھ ملتا رہے گا۔
رپورٹ کے مطابق شیو کمار نے مزید کہا، ’’ہتھیار اور کارتوس، سم، موبائل فون وغیرہ شبھم لونکر اور محمد یاسین اختر نے دیا تھا ۔ قتل کے بعد تینوں شوٹروں کو ایک دوسرے سے بات کرنے کے لیے نئی سمیں اور موبائل فون دیے گئے تھے۔ پچھلے کئی دنوں سے ہم ممبئی میں بابا صدیقی کی ریکی کر رہے تھے اور جب ہمیں 12 اکتوبر 2024 کی رات صحیح وقت ملا تو ہم نے بابا صدیقی کو قتل کر دیا۔‘‘
اس نے یہ بھی بتایا کہ اس دن میلے کی وجہ سے پولیس اور بھیڑ تھی جس کی وجہ سے دو افراد موقع پر ہی پکڑے گئے اور میں فرار ہو گیا تھا۔ میں نے راستے میں فون پھینک دیا اور ممبئی سے پونے چلا گیا۔ پونے سے جھانسی اور لکھنؤ ہوتے ہوئے بہرائچ پہنچا۔ درمیان میں ہینڈلرز سے کسی کا فون پوچھ کر اپنے ساتھیوں سے بات کرتا رہا۔