کرناٹک ہائی کورٹ نے اذان پر پابندی کے خلاف عرضی کو کیا خارج؛ کہا اذان سے دوسروں کے عقائد کی نہیں ہوتی خلاف ورزی
بنگلورو،23؍اگست (ایس او نیوز؍ایجنسی) کرناٹک ہائی کورٹ کی دو رکنی بنچ نے مساجد سے اذان پر پابندی عائدکرنے کے مطالبہ پرمشتمل ایک عرضی کو یہ کہتے ہوئے خارج کردیا کہ اذان سے آئین کی آرٹیکل 25 اور 26 کے تحت دوسروں کے عقائد کی خلاف ورزی نہیں ہوتی۔اور ان آرٹیکل کے ذریعہ "مذہبی رواداری" کے اصول کومجسم کیا گیا ہے جو ہندوستانی تہذیب کی ایک خصوصیت ہے۔
کرناٹک ہائی کورٹ کے قائم مقام چیف جسٹس آلوک ارادھے اورجسٹس ایس وشواجیت شیٹی کی ڈویژن بنچ نے آج پیر کو ایک مفاد عامہ کی عرضی کو نمٹا دیا۔جس میں الزام لگایاگیا تھا کہ اذان کے مندرجات سے معاشرے کو تکلیف پہنچتی ہے۔معزز ججس نے کہا کہ اس استدلال کو کہ اذان کے مندرجات سے درخواست گزار اور دوسرے عقیدے کے لوگوں کے بنیادی حق کی خلاف ورزی ہوتی ہے کو قبول نہیں کیا جا سکتا۔
درخواست گزارچندرشیکھر آر کی جانب سے پیش ہونے والے وکیل منجوناتھ ایس ہالاور نے عدالت کوبتایا کہ اگرچہ اذان مسلمانوں کاایک ضروری مذہبی عمل ہے۔لیکن اذان میں استعمال ہونے والے’’اللہ اکبر‘‘ کے الفاظ (جس کا ترجمہ اللہ سب سے بڑا ہے) دوسروں کے مذہبی عقائدکو متاثر کرتے ہیں۔
انہوں نے حکام کے ذریعے ریاست کی مساجد کو لاؤڈ اسپیکر کے ذریعہ اذان کے مواد کو استعمال کرنے سے روکنے کی عدالت سے ہدایت طلب کی تھی۔وکیل کی جانب سے پیش کی جانے والی درخواست میں اذان کے دوسرے الفاظ بھی شامل تھے
تاہم معزز بنچ نے وکیل کو اسے پڑھنے سے روکتے ہوئے زبانی تبصرہ کیا اور کہا کہ ‘ اپنے بنیادی حقوق کی خودخلاف ورزی نہ کریں۔جج نے کہاکہ آپ نے عدالت کو بتایاہے کہ ان الفاظ کے سننے سے آپ کے حقوق کی خلاف ورزی ہوتی ہے تو پھر آپ کیوں انہیں پڑھناچاہتے ہیں۔ بنچ نے کہاکہ دستورہند کی دفعہ25(1)کے تحت ہرشخص کواپنے مذہب پرکھل کر عمل کرنے اوراس کی تبلیغ کرنے کاحق حاصل ہے۔ تاہم یہ حق مطلق حق نہیں ہے بلکہ امن عامہ کی بنیاد پر پابندیوں سے مشروط ہے۔امن عامہ،اخلاقیات اور صحت کی بنیاد پر نیز ہندوستان کے آئین کے حصہ 3 میں دیگر دفعات کے تابع ہے۔
دو رکنی بنچ نے کہاکہ بلاشبہ درخواست گزار کے ساتھ ساتھ دیگر مذاہب کے ماننے والوں کو بھی اپنے مذہب پر عمل کرنے کا حق حاصل ہے۔اور اذان مسلمانوں کو نماز پڑھنے کی دعوت ہے۔اور یہ معاملہ ہے کہ خود درخواست گزار نے اپنی رٹ پٹیشن کے پیرا 6 (b) میں استدعا کی ہے کہ اذان اسلام سے تعلق رکھنے والے افراد کا ایک لازمی مذہبی عمل ہے۔معزز ججس نے کہا کہ یہ بات بھی قابل غور ہے کہ یہ خود درخواست گزار کا معاملہ نہیں ہے کہ آرٹیکل 25 کے تحت اس کے بنیادی حق کی ضمانت دی گئی ہے جو لاؤڈ سپیکر یا پبلک اڈریس سسٹم کے ذریعہ اذان دے کرکسی بھی طریقے سے خلاف ورزی کررہا ہے یا اس کے مندرجات سے درخواست گزار کے بنیادی حق کی خلاف ورزی ہوتی ہے یاوہ افراد جو دوسرے عقیدے سے تعلق رکھتے ہیں۔ساتھ ہی معزز ججس نے حکام کوہدایت دی کہ وہ اس بات کویقینی بنائیں کہ لاؤڈ اسپیکر،پبلک اڈریس سسٹم اور آواز پیداکرنے والے آلات اور دیگر موسیقی کے آلات کو رات 10 بجے سے صبح 6 بجے تک صوتی لہر کی شدت کے حساب سے استعمال کرنے کی اجازت نہیں ہوگی۔
اس سلسلہ میں عدالت نے 17 جون کو ہائی کورٹ کی کوآرڈینیٹ بنچ کی جانب سے دئیے گئے حکم کا حوالہ دیا۔جس میں متعلقہ حکام کو ہدایت دی گئی تھی کہ وہ لاؤڈ اسپیکر اور پبلک اڈریس سسٹم کے غلط استعمال کو روکنے کے لیے مہم چلائیں۔