آزادی کا امرت مہوتسو اور ایک جانباز ہندوستانی کی داستان شجاعت ۔۔۔۔۔از: سہیل انجم

Source: S.O. News Service | Published on 7th August 2022, 11:52 PM | اسپیشل رپورٹس |

ہندوستان کی آزادی کو 75 سال ہو گئے۔ گویا 1947 کی نومولود آزادی اپنی پختہ عمر کو پہنچ گئی۔ لیکن مختلف بہانوں سے اس آزادی کو سلب کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ آزاد ہندوستان کے معماروں نے پہلے وزیر اعظم پنڈت جواہر لعل نہرو کی قیادت میں ملک کو جس راستے پر ڈالا تھا اس سے بھٹکانے کے جتن کیے جا رہے ہیں۔ متعدد اداروں کی آزادی کو چھیننے کی کوشش کے علاوہ ایک سیکولر ملک کو ایک ہندو اسٹیٹ بنانے کی تیاری بھی چل رہی ہیں۔ تاریخ کو مٹا کر ایک نئی تاریخ لکھی جا رہی ہے۔ یہ تاریخ وہ لوگ لکھ رہے ہیں جن کا جد و جہد آزادی میں کوئی رول نہیں تھا۔ جنھوں نے جنگ آزادی میں حصہ لینے پر انگریزوں سے وفاداری کو ترجیح دی تھی۔ یعنی ملک نے ان 75 برسوں میں جو پایا تھا اس کو ملیا میٹ کیا جا رہا ہے۔

اس نئی تاریخ نویسی میں جنگ آزادی کے نئے ہیرو پیدا کیے جا رہے ہیں اور حقیقی ہیروز کی قربانیوں کو حقیر بتانے اور انھیں چھپانے کی بھی کوشش کی جا رہی ہے۔ اس ملک کی یہ سیاسی روایت رہی ہے کہ جب بھی جد و جہد آزادی کے حوالے سے گفتگو ہوتی تھی تو مہاتما گاندھی، پنڈت نہرو اور مولانا آزاد کے نام ضرور لیے جاتے تھے۔ لیکن اب ان کے نام گول کرنے کی روایت کی داغ بیل ڈالی جا رہی ہے۔ موجودہ حکومت پنڈت نہرو کو بدنام کرنے کے لیے ہر جائز ناجائز حربہ اختیار کر رہی ہے۔ وہ مولانا آزاد کا نام لینا بھی گوارہ نہیں کرتی دوسرے مسلم سرفروشوں کے کیا نام لے گی۔ جبکہ اس ملک کا ذرہ ذرہ مسلم مجاہدین آزادی کی قربانیوں کا گواہ ہے۔

1857 کی ناکام بغاوت کا موقع ہو یا کوئی اور موقع، دہلی کا ہر درخت مجاہدین کے لیے پھانسی کا تختہ بن گیا تھا۔ لاتعداد مسلمانوں کو کالے پانی کی سزا ہوئی۔ متعدد نے وہیں اپنی جان گنوا دی لیکن اف تک نہیں کی۔ اس وقت کے جج حضرات مجاہدین کو پھانسی کی سزا سناتے سناتے تھک گئے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ لوگ پھانسی سے بھی نہیں ڈرتے لہٰذا اب انھیں تاعمر قید با مشقت دی جائے گی۔ لیکن ان جاں بازوں کی خدمات کو اب یاد کرنے کی ضرورت بھی محسوس نہیں کی جاتی۔

حکومت نے اس سال کو یعنی 2022 کو آزادی کے 75 سال پورے ہونے کی وجہ سے ”امرت کال“ کہا ہے اور ”آزادی کا امرت مہوتسو“ منایا جا ہا ہے۔ اس مہوتسو کے دوران ان گمنام مجاہدین کو بھی یاد کرنے کی ضرورت ہے جنھوں نے اپنی جان تو گنوا دی لیکن حق کے راستے کو خیرباد نہیں کہا۔ آئیے انہی میں سے ایک جاں باز مرادآباد کے قاضی حامد علی کی ولولہ انگیز قربانی کا ذکر ہو جائے۔

قاضی حامد علی اردو کے ادیب و صحافی قاضی عبد الغفار کے دادا تھے۔ قاضی عبد الغفار کی پیدائش 1889ء میں مراد آباد کے ایک خوشحال گھرانے میں ہوئی تھی۔ ان کے دادا قاضی حامد علی کو 1857 کی بغاوت میں انگریزوں نے سولی پر لٹکا دیا تھا۔ پروفیسر عابدہ سمیع الدین نے اپنی تصنیف ”قومی محاذ آزادی اور یوپی کے مسلمان صحافی“ میں قاضی عبد الغفار کے دادا کی پھانسی کا ذکر قاضی عبد الغفار کے حوالے سے کیا ہے۔ ان کے مطابق:

’’جب دہلی میں غدر ہوا تو اس وقت ہمارے دادا مراد آباد کے قاضی تھے اور ہمارے والد کی عمر اس وقت تیرہ سال تھی۔ دہلی کے قلعہ میں کہرام برپا تھا۔ اس قیامت میں ایک شہزادہ قلعہ سے بھاگ کر مراد آباد کی طرف آنکلا۔ نفسانفسی کا عالم تھا۔ کوئی شہزادے کو پناہ دینے کو تیار نہ تھا۔ ہمارے دادا کو جب معلوم ہوا تو انھوں نے شہزادے کو اپنے یہاں چھپا لیا۔ انگریزوں کے پٹھو ہر طرف پھیلے ہوئے تھے۔ کسی نے خبر کردی کہ مرادآباد کے قاضی نے شہزادے کو پناہ دے کر غداری کی ہے۔ شہر میں کھلبلی مچ گئی۔ ہمارے دادا کے دوست احباب گھبرائے ہوئے آئے اور کہا کہ قاضی جی آپ نے یہ کیا غضب کیا۔ اب آپ کی خیر نہیں۔ خدا کے لیے روپوش ہوجائیے۔ آپ پر غداری کا الزام لگ چکا ہے۔ مگر قاضی جی نے صاف انکار کردیا اور کہا میں نے غداری نہیں وفاداری کی ہے اب جو ہوگا دیکھا جائے گا۔

چنانچہ ہمارے دادا مسجد میں عصر کی نماز ادا کررہے تھے کہ انگریز ان کو پکڑ کر لے گئے اور آناً فاناً پھانسی دے دی۔ ادھر پھانسی ہوئی ادھر دادی کو مع بچو ں کے گھر سے نکال کر مکان اور جائداد ضبط کرلی گئی۔ انگریزوں کے ظلم وستم سے ہر شخص خائف تھا۔ قاضی جی کی بیوہ کو پناہ دینے کی کسی میں ہمت نہ تھی۔ مگر کسی اللہ کے بندے نے رات گزارنے کے لیے جگہ دے دی۔ آدھی رات کا وقت ہوگا کہ کسی نے دروازے کی کنڈی کھٹکھٹائی۔ سارے گھر کی جیسے جان نکل گئی۔ لیکن مسلسل کنڈی کی آواز پر مرتا کیا نہ کرتا دروازہ کھولا تو معلوم ہوا کہ ایک لالہ آئے ہیں اور قاضی جی کی بیوہ سے بات کرنا چاہتے ہیں۔

ہماری دادی نے دروازے کی اوٹ سے آنے کی وجہ پوچھی تو لالہ نے کہا بہن قاضی جی کی لاش بے گور و کفن پڑی ہے اس کے لیے بھی کچھ سوچا؟ ہماری دادی نے کہا بھلا لالہ آدھی رات وہ بھی قیامت کی، میں مجبور عورت ذات کیا کرسکتی ہوں؟ لالہ نے ہمت دلائی اور کہا چلو ان کی لاش تلاش کر کے کچھ انتظام کریں۔ اس زمانے کی عورتیں جنھوں نے زندگی میں کبھی قدم گھر سے باہر نہ نکالا ہو وقت پڑ جانے پر مرد سے زیادہ ہمت کر جاتی تھیں۔ غرض ہماری دادی لالہ کے ساتھ جہاں سولی لٹکائی گئی تھی وہاں پہنچیں اور ہزاروں لاشوں میں سے شوہر کی لاش تلاش کی۔ وہیں پر ایک گڑھا کھودا اور لاش دفن کر کے نشانی کے طور پر ایک لکڑی لگا دی اور گھر آگئیں۔

اس کے بعد جب حالات درست ہوئے اور ہمارے دادا بے قصور ثابت ہوئے، جان تو واپس نہ آسکی لیکن انگریزوں نے بڑی عنایت کی کہ مکان اور جائداد واپس کر دی بلکہ کچھ انعام بھی دیا۔ پھر اس وقت ہمارے دادا کی قبربھی بنوائی گئی۔ کیونکہ دفن کرتے وقت کسی کو یہ ہوش نہ تھا کہ سر کس طرف ہے اور پاﺅں کس طرف۔ چنانچہ اس لکڑی کی مدد سے قبر پہچانی گئی اورچوکور قبر بنادی گئی اور حشر کا میدان ہمارا خاندانی قبرستان بن گیا۔‘‘

ایک نظر اس پر بھی

بھٹکل سنڈے مارکیٹ: بیوپاریوں کا سڑک پر قبضہ - ٹریفک کے لئے بڑا مسئلہ 

شہر بڑا ہو یا چھوٹا قصبہ ہفتہ واری مارکیٹ عوام کی ایک اہم ضرورت ہوتی ہے، جہاں آس پاس کے گاوں، قریوں سے آنے والے کسانوں کو مناسب داموں پر روزمرہ ضرورت کی چیزیں اور خاص کرکے ترکاری ، پھل فروٹ جیسی زرعی پیدوار فروخت کرنے اور عوام کو سستے داموں پر اسے خریدنے کا ایک اچھا موقع ملتا ہے ...

نئی زندگی چاہتا ہے بھٹکل کا صدیوں پرانا 'جمبور مٹھ تالاب'

بھٹکل کے اسار کیری، سونارکیری، بندر روڈ، ڈارنٹا سمیت کئی دیگر علاقوں کے لئے قدیم زمانے سے پینے اور استعمال کے صاف ستھرے پانی کا ایک اہم ذریعہ رہنے والے 'جمبور مٹھ تالاب' میں کچرے اور مٹی کے ڈھیر کی وجہ سے پانی کی مقدار بالکل کم ہوتی جا رہی ہے اور افسران کی بے توجہی کی وجہ سے پانی ...

بڑھتی نفرت کم ہوتی جمہوریت  ........ ڈاکٹر مظفر حسین غزالی

ملک میں عام انتخابات کی تاریخوں کا اعلان ہونے والا ہے ۔ انتخابی کمیشن الیکشن کی تاریخوں کے اعلان سے قبل تیاریوں میں مصروف ہے ۔ ملک میں کتنے ووٹرز ہیں، پچھلی بار سے اس بار کتنے نئے ووٹرز شامل ہوئے، نوجوان ووٹرز کی تعداد کتنی ہے، ایسے تمام اعداد و شمار آرہے ہیں ۔ سیاسی جماعتیں ...

مالی فراڈ کا نیا گھوٹالہ : "پِگ بُوچرنگ" - گزشتہ ایک سال میں 66 فیصد ہندوستانی ہوئے فریب کاری کا شکار۔۔۔۔۔۔۔(ایک تحقیقاتی رپورٹ)

ایکسپوژر مینجمنٹ کمپنی 'ٹینیبل' نے ایک نئی رپورٹ جاری کی ہے جس میں یہ انکشاف کیا گیا ہے کہ پچھلے سال تقریباً دو تہائی (66 فیصد) ہندوستانی افراد آن لائن ڈیٹنگ یا رومانس اسکینڈل کا شکار ہوئے ہیں، جن میں سے 81 فیصد کو مالی نقصان کا سامنا کرنا پڑا ہے۔

مسلمان ہونا اب اس ملک میں گناہ ہے۔۔۔۔۔۔۔۔از: ظفر آغا

انہدام اب ایک ’فیشن‘ بنتا جا رہا ہے۔ یہ ہم نہیں کہہ رہے بلکہ یہ مدھیہ پردیش ہائی کورٹ کا بیان ہے۔ بے شک مکان ہو یا دوکان ہو، ان کو بلڈوزر کے ذریعہ ڈھا دینا اب بی جے پی حکومت کے لیے ایک فیشن بن چکا ہے۔ لیکن عموماً اس فیشن کا نشانہ مسلم اقلیتی طبقہ ہی بنتا ہے۔ اس کی تازہ ترین مثال ...

کیا وزیرمنکال وئیدیا اندھوں کے شہر میں آئینے بیچ رہے ہیں ؟ بھٹکل کے مسلمان قابل ستائش ۔۔۔۔۔ (کراولی منجاو کی خصوصی رپورٹ)

ضلع نگراں کاروزیر منکال وئیدیا کا کہنا ہے کہ کاروار میں ہر سال منعقد ہونےو الے کراولی اتسوا میں دیری اس لئے ہورہی ہے کہ  وزیرا علیٰ کا وقت طئے نہیں ہورہاہے۔ جب کہ  ضلع نگراں کار وزیر اس سے پہلے بھی آئی آر بی شاہراہ کی جدوجہد کےلئے عوامی تعاون حاصل نہیں ہونے کا بہانہ بتاتے ہوئے ...