آزاد کشمیر کے انتخابات اور جماعت اسلامی ۔۔۔۔ از: میر افسر امان            

Source: S.O. News Service | Published on 31st May 2021, 1:26 PM | اسپیشل رپورٹس |

گلگت بلتستان کے بعد اب آزاد کشمیر کے انتخابات کی باری ہے۔ عام طور پر دیکھا گیا ہے کہ گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر کے انتخابات میں عوام اسی پارٹی کو ووٹ دیتے ہیں جس پارٹی کی حکومت مرکز میں ہوتی ہے۔گلگت بلتستان کے انتخابات کے انتخابات میں بھی ایسا ہی ہوا۔ باوجود کہ مریم صفدر اور بلاول زرداری نے وہاں بہت زبردست الیکشن مہم چلائی،مگر نتیجہ وہ ہی ہو ا جو ہم نے اور بیان کیا ہے۔کیا یہ بھی وجہ ہے کہ ان دونوں کومرکز سے امدادی رقوم کی ضرورت ہوتی ہے یاکوئی اور وجہ ہے۔کیا یہ بھی وجہ ہو سکتی ہے کہ ہمارے ملک میں نظریات کی سیاست نہیں ہوتی۔ مفادات، برادری ازم اورپیسے کی سیاست  ہوتی ہے۔

اگر اس کا تجزیہ کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ یہی بات زیادہ صحیح ہے۔ملک میں مفادات،برادری اور پیسے کی سیاست کارواج ہے۔پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ 35 سال سے پاکستان، گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر پر حکومتیں کرتی آئی ہیں۔پیپلز پارٹی نے 1971ء کے انتخابات صرف مغربی پاکستان میں اسلامی سوشل ازم کے ساتھ روٹی کپڑا مکان کی سیاست پر جیتے تھے۔پیپلز پارٹی میں کیمونسٹ پارٹی کے سارے نامی گرامی لوگ شریک تھے۔ذوالفقار علی بھٹو نے چناؤ جیتنے کے لیے کیمونسٹ طریقہ کار پر عمل کرکے عوام کو دھوکہ دیا۔ عوام کے جذبات کو اُبھارا۔ کہا کہ یہ زمنیں تمھاریں ہیں۔ یہ فیکرٹیاں تمھاری ہیں۔ عوام اس دھوکے میں آ گئے۔ پیپلز پارٹی کو الیکشن میں جیت ہوئی۔پھر ملکی اداروں کو بے ترتیبی سے قومیا لیا گیا۔ اصل میں ادھا تیتر آدھا بیٹیر والا معاملہ تھا۔ انڈسٹری میں ترقی رکی تو آمدنی رک گئی۔ تنخوائیں دینے کے لیے نوٹ چھاپے گئے۔جس سے ملک میں افراط زر ہوئی ا ور مہنگاہی ہوئی۔ بھٹو نے کیمونسٹ ساتھیوں کو ایک ایک کر کے پارٹی سے نکال دیا۔ وڈیروں،سرمایاداروں اور مفادات پرستوں کو ساتھ ملا لیا۔مزدورں نے وعدے پورے نہ ہونے پر احتجاج گیا۔ ان پر گولیاں چلائی گئیں۔ مزدوروں نے یاد گار شہید چوک بنائے۔ پیپلز پارٹی نے1977ء کے الیکشن میں دھاندلی کرائی۔ پاکستان قومی اتحاد نے نظام اسلام کی تحریک چلائی۔ نظام مصطفے کا راستہ روکنے کے لیے امریکا کے کہنے پرضیاء الحق نے مار شل لگایا۔اسلام کے لیے کچھ اقدامات بھی کیے۔ مگر ایک فرد کے احکامات سے نظام مصطفے قائم نہیں ہوتا۔ اس کے لیے سیاسی تیاری کرنی ہوتی ہے۔ ایک قتل کیس میں بھٹو کو عدالت نے پھانسی کی سزا سنائی۔ اس کے بعد کے الیکشن میں پیپلز پارٹی بھٹو کومظلوم بنا کر جیت ملی۔ بعد بے نذیر بھٹو شہید ہوئیں۔ پھر الیکشن میں زرداری کی سازش اور بے نذیر بھٹو کی شہادت کی وجہ سے الیکشن جیتی۔نہ پہلے نظریات تھے نہ بعد میں۔ صرف حادثات، مفادات،برادری اور پیسے کی وجہ سے پیپلزپارٹی انتخابات جیتتی رہی۔ عوام غریب سے غریب تر اور پیپلز پارٹی کی قیادت کرپشن کر کے امیر سے امیر تر ہوتی گئی۔

نواز لیگ نے بھی مفادات، برادری، اور پیسے کے زور پر انتخابات جیتے۔ نون لیگ کا نعرہ تھا کہ پاکستان کو ایشیا کا ٹائیگر بنائے گی۔35 سال حکومت کر کے 32 ارب ڈالر کے قرضے لے کر، ملک کو دیوالیے کے قریب پہنچا کر فارغ ہوئی۔ قرض مکائے ملک بچاؤ۔ لوگوں سے پیسا بٹورا، جس کا کوئی اتا پتا نہیں۔نون لیگ کے دور میں ملک میں بجلی گیس کی لوڈ شیڈنگ نے عوام کو تنگ کیا۔ نون لیگ موٹر ویز، میٹرو بس سروس اور گرین ٹرین کے میگا پروجیگٹ میں پیسے لگاتی رہی۔ ملک کے عوام کے تقریاتی پیسے ان میگا پروجیکٹ میں لگتے رہے۔ عوام مہنگائی، بجلی گیس کی لوڈ شیڈنگ میں خراب ہوتے رہے۔عوام غریب سے غریب تر اور نون لیگ کی لیڈر شپکرپشن کرکے امیر سے امیر تر ہوتی گئی۔

تحریک انصاف پاکستان نے پیپلز پارٹی اور نون لیگ کی خرابیاں بیان کر کے فائدہ اُٹھایا۔ ساتھ ساتھ  پاکستان کی نوے فی صد بے بس عوام کے دل کی آرزو کو اپنے منشور کا حصہ بنایا۔ علامہ شیخ محمد اقبالؒ کا خواب، قائد اعظم محمد علی جناح کا اسلامی وژن، مدینہ کے فلاحی اسلامی ریاست کا نعرہ دیا۔ الیکشن جیتنے کے لیے سابق سیکرٹیری جہانگیر ترین جسے عدالت سے 62۔63 پر پورا نہ اترنے پر نا اہل قرار دیا۔جو اب چینی اسکنڈل میں ملزم ہے۔جو ناانصافی کا کہہ کر اپنی ہی حکومت کے خلاف چالیس ممبران کا پریشیئر گروپ بنا چکا ہے۔جس نے تحریک انصاف کوالیکٹبلز کو ساتھ ملا کر الیکشن جیتوا یا۔ اب بھان متی کا کنبہ جس میں ملک دشمن ایم کیو ایم، پاکستان مخالف قوم پرست جماعتیں اور وردی میں فوجی کو سو بار جیتوانے والی قاف لیگ کے ساتھ کے اتحادی حکومت ہے۔ ان کو علامہ اقبالؒ،قائد اعظمؒ اور مدینہ کی فلاحی ریاست کا کبھی خیال خواب میں بھی نہیں آیا ہوگا۔ صرف عمران خان وزیر اعظم پاکستان ہر روز اسی گردان کو دوھراتا رہتا ہے۔ اِرد گرد وہی پیپلز پارٹی، نون لیگ کے لوگ۔ اُو پر سے عمران خان نے ملک کی معیشت اسلامی نظام کی مخالف سودی نظام کی حامی،آئی ایم ایف کے حوالے کر دیا۔ آئی ایم یف نے ٹیکس پر ٹیکس لاگا مہنگاہی کا طوفان بر پاہ کر دیا۔

عوام کی چیخیں نکل رہیں ہیں۔ کہتے ہیں نا کہ”پیٹ نہ پیاں روٹیاں۔ ساریاں گلیں 

         کھوٹیاں۔ یہ بھی عوام کو معلوم ہے کہ غربت کفر کی طرف لی جاتی ہے۔

 اس تجزیہ سے معلوم ہوا کہ عوام کے دکھوں کا مداوہ،نہ پیپلز پارٹی، نہ نون لیگ اور نہ ہی تحریک انصاف کے پاس ہے۔ سب ناکام ہو چکے ہیں۔ اب میدان میں صرف ایک جماعت اسلامی ہے جو ایک ٹھوس اسلامی نظریاتی جماعت ہے۔ علامہ اقبالؒ کے خواب،قائد اعظم کے اسلامی وژن کی حقیقی جانشین ہے۔ کرپشن فری ہے۔ مفادات، برادری اور پیسے کی سیاست سے کوسوں دور ہے۔ اب تو سپریم کورٹ نے بھی اپنے ریمارکس میں کہہ دیا کہ 62۔63پر اگر سیاست دانوں کو پرکھا جائے تو جماعت اسلامی کے امیر ہی پورے اُتر سکتے ہیں۔ان حالات میں آزاد جموں کشمیر میں انتخابات ہونے جا رہے ہیں۔ تینوں پارٹیوں کے لچھن اوپر بیان کیے گئے ہیں۔ جماعت اسلامی کا کشمیر کی آزادی کے لیے کام کا ایک شاندار ریکارڈ موجود ہے۔ اس نے آزاد کشمیر اسمبلی کے لیے اپنے 31 حلقوں میں سے62امیدار سامنے لائے ہیں۔ ہم آزاد کشمیر کے عوام سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ آزادی کے بیس کیمپ میں جماعت اسلامی کا میاب کرائیں۔ اس سے آزاد کشمیر پر حملہ کر کے اس پر قبضہ کرنے والے دہشت گرد مودی کو پیغام پہنچے گا۔ کہ یہ لوہے کی چنے ہیں۔ اِنیں چباؤ گے تو تمھارے دانت ٹوٹیں گے۔ پہلے جماعت اسلامی آزاد کشمیر اور بعد پاکستان کے الیکشن میں کامیاب ہو کر مقبوضہ کشمیر کو آزاد کرائے گی۔ان شاء اللہ۔ یہ کشمیر کے بورڈ ہٹانے والی پیپلز پارٹی، آلو پیاز کی تجارت کرنے والی نون لیگ اور زبانی جمع خرچ کرنے والی تحریک انصاف نہیں ہے۔یہ جماعت اسلامی کی ایک نظریاتی حکومت ہو گی۔ جس کے پاس بھارت کو للکارنے والوں کارکن پوری دنیا میں موجود ہیں۔یہ مفادات، برداری اور پیسیوں کی باتیں کرنے والے نہیں۔بلکہ اپنی کشمیر اور پاکستان پر جانیں قربان کرنے والے لوگ ہیں۔ لہذا کشمیریوں کو اب مفادات، برادری اور پیسے کے بتوں کوتوڑ کر آزاد کشمیر کے الیکشن میں جماعت اسلامی کو کامیاب کرنا چاہیے۔ این سی او سی کو آزاد کشمیر کے انتخابات2 ماہ کے لیے ملتوی کرنے کی غلطی نہ کرے۔ انتخابات شیڈول کے مطابق ہونے چاہییں۔      

(                    بشکریہ:     مشرقی اُفق ،31؍ مئی2021ء                )

ایک نظر اس پر بھی

نئی زندگی چاہتا ہے بھٹکل کا صدیوں پرانا 'جمبور مٹھ تالاب'

بھٹکل کے اسار کیری، سونارکیری، بندر روڈ، ڈارنٹا سمیت کئی دیگر علاقوں کے لئے قدیم زمانے سے پینے اور استعمال کے صاف ستھرے پانی کا ایک اہم ذریعہ رہنے والے 'جمبور مٹھ تالاب' میں کچرے اور مٹی کے ڈھیر کی وجہ سے پانی کی مقدار بالکل کم ہوتی جا رہی ہے اور افسران کی بے توجہی کی وجہ سے پانی ...

بڑھتی نفرت کم ہوتی جمہوریت  ........ ڈاکٹر مظفر حسین غزالی

ملک میں عام انتخابات کی تاریخوں کا اعلان ہونے والا ہے ۔ انتخابی کمیشن الیکشن کی تاریخوں کے اعلان سے قبل تیاریوں میں مصروف ہے ۔ ملک میں کتنے ووٹرز ہیں، پچھلی بار سے اس بار کتنے نئے ووٹرز شامل ہوئے، نوجوان ووٹرز کی تعداد کتنی ہے، ایسے تمام اعداد و شمار آرہے ہیں ۔ سیاسی جماعتیں ...

مالی فراڈ کا نیا گھوٹالہ : "پِگ بُوچرنگ" - گزشتہ ایک سال میں 66 فیصد ہندوستانی ہوئے فریب کاری کا شکار۔۔۔۔۔۔۔(ایک تحقیقاتی رپورٹ)

ایکسپوژر مینجمنٹ کمپنی 'ٹینیبل' نے ایک نئی رپورٹ جاری کی ہے جس میں یہ انکشاف کیا گیا ہے کہ پچھلے سال تقریباً دو تہائی (66 فیصد) ہندوستانی افراد آن لائن ڈیٹنگ یا رومانس اسکینڈل کا شکار ہوئے ہیں، جن میں سے 81 فیصد کو مالی نقصان کا سامنا کرنا پڑا ہے۔

مسلمان ہونا اب اس ملک میں گناہ ہے۔۔۔۔۔۔۔۔از: ظفر آغا

انہدام اب ایک ’فیشن‘ بنتا جا رہا ہے۔ یہ ہم نہیں کہہ رہے بلکہ یہ مدھیہ پردیش ہائی کورٹ کا بیان ہے۔ بے شک مکان ہو یا دوکان ہو، ان کو بلڈوزر کے ذریعہ ڈھا دینا اب بی جے پی حکومت کے لیے ایک فیشن بن چکا ہے۔ لیکن عموماً اس فیشن کا نشانہ مسلم اقلیتی طبقہ ہی بنتا ہے۔ اس کی تازہ ترین مثال ...

کیا وزیرمنکال وئیدیا اندھوں کے شہر میں آئینے بیچ رہے ہیں ؟ بھٹکل کے مسلمان قابل ستائش ۔۔۔۔۔ (کراولی منجاو کی خصوصی رپورٹ)

ضلع نگراں کاروزیر منکال وئیدیا کا کہنا ہے کہ کاروار میں ہر سال منعقد ہونےو الے کراولی اتسوا میں دیری اس لئے ہورہی ہے کہ  وزیرا علیٰ کا وقت طئے نہیں ہورہاہے۔ جب کہ  ضلع نگراں کار وزیر اس سے پہلے بھی آئی آر بی شاہراہ کی جدوجہد کےلئے عوامی تعاون حاصل نہیں ہونے کا بہانہ بتاتے ہوئے ...

اترکنڑا میں جاری رہے گی منکال وئیدیا کی مٹھوں کی سیاست؛ ایک اور مندر کی تعمیر کے لئے قوت دیں گے وزیر۔۔۔(کراولی منجاؤ کی خصوصی رپورٹ)

ریاست کے مختلف علاقوں میں مٹھوں کی سیاست بڑے زورو شور سے ہوتی رہی ہے لیکن اترکنڑا ضلع اوراس کے ساحلی علاقے مٹھوں والی سیاست سے دورہی تھے لیکن اب محسوس ہورہاہے کہ مٹھ کی سیاست ضلع کے ساحلی علاقوں پر رفتار پکڑرہی ہے۔ یہاں خاص بات یہ ہےکہ مٹھوں کے رابطہ سے سیاست میں کامیابی کے ...