ایودھیا فیصلہ: سابق سپریم کورٹ جج نے اُٹھائے سوال، پوچھا، کیا عدالت یہ بھول جائے گی کہ جب آئین وجود میں آیا تو وہاں پر مسجد تھی؟
نئی دہلی 10/نومبر (ایس او نیوز) سپریم کورٹ کے ریٹائرڈ جج اسوک کمار گنگولی نے ہفتے کے روز سیاسی طور پر حساس ایودھیا ملکیت معاملے سے متعلق سپریم کورٹ کے فیصلے پر سوالات کھڑے کئے ہیں اور کہا ہے کہ وہ اس فیصلے سے پریشان ہیں۔ متنازع زمین ہندووں کو دئے جانے اور مسجد کے لئے ایودھیا میں ہی کہیں اور زمین دئے جانے کے فیصلہ پر اپنے ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے گنگولی نے کہا کہ جس طرح کا فیصلہ سپریم کورٹ کی جانب سے دیا گیا ہے اس سے ان کے ذہن میں شکوک و شبہات جنم لے رہے ہیں، نیز انہیں ایسا لگ رہا ہے کہ فیصلہ اگر اس طرح ہوں گے تو ملک میں بے شمار ایسے مذہبی مقامات ہیں جنہیں توڑنا پڑے گا۔
ہندوستان ٹائمز کی رپورٹ کے مطابق جسٹس گنگولی نے سوال کیا کہ ، ’سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد ایک مسلمان کیا سوچے گا؟ وہاں برسوں سے ایک مسجد تھی جسے منہدم کر دیا گیا۔ اب سپریم کورٹ نے وہاں ایک مندر بنانے کی اجازت دی ہے۔ یہ اجازت اس بنیاد پر دی گئی کہ یہ زمین رام للا کے ساتھ منسلک ہے۔ انہوں نے پوچھا کہ صدیوں پہلےاس زمین پر کس کا مالکانہ حق تھا، کیا اس کا فیصلہ سپریم کورٹ کرے گی؟ کیا سپریم کورٹ یہ بھول جائے گی کہ جب آئین وجود میں آیا تھا تو وہاں پر مسجد موجود تھی؟ انہوں نے کہا کہ آئین میں دفعات موجود ہیں اور اس کی حفاظت کرنا سپریم کورٹ کی ذمہ داری ہے۔‘‘
2012 میں ریٹائرڈ ہونے والے سپریم کورٹ کے سابق جج جسٹس گنگولی نے کہا، ’’یہ فیصلہ کرنا سپریم کورٹ کی ذمہ داری نہیں ہے کہ آئین کے وجود میں آنے سے پہلے وہاں کیا موجود تھا۔ ہندوستان میں اس وقت جمہوریت نہیں تھی۔ اس وقت وہاں ایک مسجد تھی، ایک مندر تھا، بدھ استوپ تھا، ایک چرچ تھا… اگر ہم اس پر فیصلہ کرنے بیٹھیں گے تو بہت سے مندروں – مساجد اور دیگر عمارتوں کو توڑنا پڑے گا۔ ہم ’افسانوی حقائق‘ کی بنیاد پر آگے نہیں بڑھ سکتے۔‘‘
جسٹس گنگولی نے کہا ، ’’اقلیتوں نے نسلوں سے دیکھا ہے کہ وہاں ایک مسجد تھی۔ مسجد کو توڑ دیا گیا۔ سپریم کورٹ کے فیصلے کے مطابق وہاں ایک مندر تعمیر ہوگا۔ اس فیصلے نے میرے ذہن میں شکوک و شبہات پیدا کر دئے ہیں۔ آئین کے طالب علم کی حیثیت سے مجھے اس فیصلہ کو قبول کرنے میں دشواری محسوس ہو رہی ہے۔‘‘
جسٹس گنگولی جو مغربی بنگال کے حقوق انسانی کمیشن کے چیرمین بھی رہ چکے ہیں نے کہا کہ میں اس فیصلے سے ڈسٹرب ہوں، جب آئین وجود میں ا ٓیا تھا تو ہم نے وہاں مسجد دیکھی تھی اورمسجد کے انہدام کے تعلق سے سپریم کورٹ کا جب سابقہ ججمنٹ ہم دیکھتے ہیں تو ریکارڈ ملتا ہے کہ وہاں 500 سال پرانی عبادت گاہ تھی جسے منہدم کردیا گیا۔ گنگولی نے سپریم کورٹ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ نے کہا کہ مسجد کے نیچے ایک ڈھانچہ تھا لیکن آپ نے یہ نہیں کہا کہ وہ ڈھانچہ مندر کا تھا۔ ایسا کوئی ثبوت نہیں ہے کہ مندر کو توڑ کر مسجد تعمیر کی گئی۔ ایسے میں کیا آثار قدیمہ کی بات پر 500 سال بعد عدالت اس طرح کا فیصلہ کرسکتی ہے ؟ انہوں نے نشاندھی کرتے ہوئے کہا کہ سپریم کورٹ نے قبول کیا ہے کہ جس جگہ پر نماز پڑھی جاتی ہے تو اُسے مسجد تسلیم کیا جاتا ہے۔ انہوں نے سوال کیا کہ ایسے میں آپ 500 سال کے بعد اس کی ملکیت کا فیصلہ کیسے کریں گے؟ انہوں نے حیرت کا اظہار کرتے ہوئے پوچھا کہ عدالت میں جو لوگ دستاویزات لے کر آئے ہیں اُس بنیاد پر فیصلہکرنے کے بجائے کیا آپ ملکیت کا فیصلہ آثار قدیہمہ کی رپورٹ کی بنیاد پر کریں گے ؟