بابری مسجد ٹائٹل سوٹ؛ مسلم فریقوں کے وکیل ڈاکٹر راجیو دھون نے کیا بحث کاآغاز؛ کہا، چار سو سال پہلے بابر نے بنوائی تھی مسجد؛ تب سے ہورہی ہے لگاتار نماز

Source: S.O. News Service | By I.G. Bhatkali | Published on 16th September 2019, 7:14 PM | ملکی خبریں |

نئی دہلی:16/ستمبر (ایس او نیوز/راست)    آج چیف جسٹس کے کورٹ میں سب سے پہلے آر ایس ایس کے لیڈر گووند آچاریہ کی وہ درخواست پیش ہوئی جس میں انہوں نے عدالت سے کہا کہ اس مقدمہ کی شنوائی کو ٹیلی کاسٹ کیا جائے تاکہ عوام اسے براہ راست دیکھ سکیں۔ اس پر چیف جسٹس نے کورٹ کی رجسٹری سے کہا کہ وہ بتائیں کہ اس سسٹم کو جاری کرنے کے لئے کتنا وقت درکار ہوگا۔ اس پر(مسلم فریقوں کے وکیل) ڈاکٹر راجیو دھون نے دریافت کیا کہ کیا یہ اب سب کیسوں کے لئے لاگو ہوگا اور کہا کہ کورٹ کو یہ بات پیش نظر رکھنی چاہئے کہ یہ کیس بہت حساس ہے۔ اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ عدالت اس کو پیش نظر رکھے گی۔ اس کے بعد سوٹ نمبر 5پر بحث شروع ہوئی جو رام للا براجمان کی طرف سے داخل ہوا تھا۔ جس میں دو پٹیشنرس ہیں، ایک رام للا براجمان اور دوسرا رام جنم بھومی۔ اس پر ڈاکٹر راجیو دھون نے بحث کا آغاز کرتے ہوئے بتایا کہ 1989میں جب یہ سوٹ فائل کیا گیا تھا تو اسکی وجہ یہ بتائی گئی تھی کہ عدالت میں جو سوٹ پہلے سے موجود ہیں اس کے شنوائی میں دیر ہورہی ہے، اس لئے ہم ایک نیا سوٹ فائل کررہے ہیں کیوں کہ ہمیں نیا مندر بنانا ہے۔ رام جنم بھومی نیاس کے ٹرسٹ کے ٹرسٹیوں میں وشوہندوپریشد کے لیڈرس شامل تھے، جس میں بطور خاص وشنو ہری ڈالمیا، ایس این کاٹجو، دیوکی ننداگروال وغیرہ۔ اس سوٹ میں بھی سیاحوں کے سفر ناموں کا سہارا لیا گیا جس میں بطور خاص ٹفن تھیلر(1766-1771) کا۔ اس سیاح کے بیان میں کہا گیا یہاں کے لوگوں کا ایسا ماننا ہے کہ قلعے کو توڑ کر مسلم ٹیمپل بنایا گیا۔ لوگوں کا یہ بھی ماننا ہے کہ یہ جگہ رام جنم بھومی ہے۔ نیاس نے اپنے دعوی میں فیض آباد گزیٹیر سے بھی کچھ چیزیں پیش کیں۔ کسی میں کہا گیا کہ بابر نے مندر کو توڑا تھا، کسی میں کہا گیا کہ اورنگ زیب نے توڑا تھا اور کسی نے کہا مندر کے ملبے پر مسجد کی تعمیر کی گئی۔ یہ سب متضاد دعوے ہیں۔

 اس کے بعد ڈاکٹر دھون نے کہا کہ رام جنم بھومی اور مورتی دو الگ الگ ہستیاں ہیں اور دونوں ایک دوسرے سے آزاد ہیں۔ مورتی بنائی جاتی ہے پھر اس کی پران پرتشٹھا ہوتی ہے جس میں لگ بھگ پانچ دن لگتے ہیں اس کے بعد اسکی پوجا ارچنا ہوتی ہے۔ اس سے پہلے مورتی میں الوہیت نہیں ہوتی۔ اور جہاں تک سمبھؤ (پرکٹ ہونا) کا تعلق ہے، اس کے لئے بھی آستھا اور وشواس کا ہونا کافی نہیں ہے۔ اس کے لئے کچھ عمل ہونا چاہئے، جیسے کوئی چیز ابھر کر سامنے آجائے اور یہ بھی معلوم ہونا چاہئے کہ وہ واقعہ کب ہوا تھا۔ 1949میں جب مورتیاں باہر سے اٹھا کر اندر رکھی گئیں، اس وقت کہا جاسکتا تھا کہ مورتیاں پرکٹ ہوئی ہیں لیکن اس وقت یہ نہیں کہا گیا۔ یہ تصور (کہ مورتیاں پرکٹ ہوئیں) 1989 میں ٹرسٹ بننے کے بعد سامنے آیا۔سمبھؤ (بھگوان) پوری جائیداد پر دعوی کررہے ہیں، ان کا ماننا ہے کہ قبضہئ مخالفانہ ہوگیا ہے اس لئے کہ لگاتار1949سے پوجا ہورہی ہے۔ حالانکہ جو آدمی پجاری ہونے کا دعوی کرتا ہے وہ پجاری نہیں بلکہ کورٹ کا ریسور تھا وہ آدمی پجاری کا کام نہیں کرسکتا۔

 ڈاکٹر دھون نے کہا نرموہی اکھاڑے اور رام للا کے سوٹ میں بھی آپسی تضاد ہے۔ نرموہی اکھاڑے کا کہنا ہے کہ سوٹ نمبر 2(رام جنم بھومی) و سوٹ فائل کرنے کا کوئی ادھیکار نہیں ہے اس لئے کہ وہ لیگل پرسن نہیں ہے۔ پھر نرموہی اکھاڑے نے اپنے سوٹ میں کہا کہ رام جنم بھومی نیاس ٹرسٹ کو بھی مندر بنانے کا کوئی اختیار نہیں ہے۔ باہری صحن کا انتظام 1982تک نرموہی اکھاڑے کے پاس تھا اور یہ کہہ رہے ہیں کہ مندر کے شبایت (پجاری) ہم ہی ہیں ٹرسٹ نہیں ہوسکتا۔ اس کے بعد ڈاکٹر دھون نے مسلم پارٹی کا جواب پڑھ کر سنایا کہ نیاس کو سوٹ فائل کرنے کا کوئی حق نہیں ہے۔ لگ بھگ چار سو سال پہلے بابر نے یہ مسجد بنوائی تھی تب سے لگاتار نماز ہورہی ہے، یہ زمین ہمیشہ سے مسجد ہی رہی ہے۔ 1961کے روینوریکارڈمیں بھی مسجد اور قبرستان درج ہے۔

 ڈاکٹر دھون نے کہا کہ اگر اسے رام جنم بھومی مان لیا جائے تو اس کے نتائج کیا ہوں گے؟ (۱) اس پر پھر کوئی اور ٹائٹل کا دعویدار نہیں ہوسکتا اور نہ ہی قبضہئ مخالفانہ کا اور نہ اسکا بٹوارا ہوسکتا ہے اس لئے یہ لوگ Deity کے اس تصور کو 1989میں لے کر آئے ہیں۔ (۲)نیاس نے اپنے اپیل میں دستور کی دفعہ 25کا حوالہ دیا ہے اور کہا کہ اس مسجد کی کوئی خصوصی اہمیت نہیں ہے جیسا کہ مکہ اور مدینہ کی ہے اور اپنے دعوے کو آرٹیکل 25سے ثابت کرنے کی کوشش کی۔ تو کیا آرٹیکل 25بھی صرف ایک مذہب کے ماننے والوں پر لاگو ہوگا۔اس پوری اپیل کو پڑھنے سے مورتیوں اور رام جنم بھومی کے بیچ جو فرق ہے وہی ثابت ہوتا ہے، اس کے علاوہ اورکچھ نہیں۔ کل بھی بحث جاری رہے گی۔

 آج کی بحث کے دوران ڈاکٹر دھون کے علاوہ مسلم پرسنل بورڈ کی سینئر ایڈوکیٹ میناکشی اروڑہ اور بورڈ کے سیکریٹری سینئر ایڈوکیٹ ظفر یاب جیلانی بھی موجود تھے۔ اسی طرح بورڈ کے ایڈوکیٹ آن ریکارڈ کے طور پر ایڈوکیٹ شکیل احمد سید، ایڈوکیٹ ایم آر شمشاد، ایڈوکیٹ اعجاز مقبول، ایڈوکیٹ ارشاد احمد اور ایڈوکیٹ فضیل احمد ایوبی بھی موجود رہے ان کے علاوہ ان کے جونیئر وکلاء بھی موجود تھے۔

ایک نظر اس پر بھی

صحافی سومیا وشواناتھن کے قاتلوں کی ضمانت پر سپریم کورٹ کا نوٹس

سپریم کورٹ صحافی سومیا وشواناتھن قتل کیس میں 4 ملزمین کو ضمانت دینے کی جانچ کے لیے تیار ہے۔ عدالت نے چاروں قصورواروں اور دہلی پولیس کو نوٹس جاری کرتے ہوئے ان سے چار ہفتوں کے اندر جواب طلب کیا ہے۔ عدالت ایک عرضی پر سماعت کر رہی تھی جس میں دہلی ہائی کورٹ کی سزا کو معطل کرنے اور 4 ...

کیجریوال کے لیے جیل ٹارچر چیمبر بن گئی، نگرانی کی جا رہی ہے: سنجے سنگھ

عام آدمی پارٹی نے منگل کو الزام لگاتے ہوئے کہا کہ جیل میں بند کیجریوال کی سی سی ٹی وی فوٹیج کا لنک ڈھونڈ کر دیکھا جا رہا ہے اور ان کی نگرانی کی جا رہی ہے۔ عام آدمی پارٹی کے راجیہ سبھا ایم پی سنجے سنگھ نے کہا کہ کیجریوال کے خلاف سازش ہو رہی ہے۔ کیجریوال کے ساتھ تہاڑ جیل میں کسی بھی ...

ہیمنت سورین کو راحت نہیں ملی، ای ڈی نے ضمانت عرضی پر جواب دینے کے لیے عدالت سے وقت مانگا

 زمین گھوٹالے میں جیل میں قید جھارکھنڈ کے سابق وزیر اعلیٰ ہیمنت سورین کی طرف سے دائر ضمانت کی عرضی پر جواب دینے کے لیے ای ڈی نے ایک بار پھر عدالت سے اپنا موقف پیش کرنے اور وقت مانگا ہے۔ جیسے ہی سورین کی درخواست پر منگل کو پی ایم ایل اے کی خصوصی عدالت میں سماعت شروع ہوئی، ای ڈی نے ...

کجریوال کو ضمانت کی درخواست 75 ہزار جرمانہ کے ساتھ خارج

دہلی ہائی کورٹ نے پیر کے دن قانون کے ایک طالب ِ علم کی درخواست ِ مفادِ عامہ (پی آئی ایل) 75 ہزار روپے جرمانہ عائد کرتے ہوئے خارج کردی جس میں چیف منسٹر دہلی اروند کجریوال کو ”غیرمعمولی عبوری ضمانت“ دینے کی گزارش کی گئی تھی۔

یوپی-بہار میں شدید گرمی کی لہر کی پیش گوئی، کئی ریاستوں میں بارش کا الرٹ

راہملک کی شمالی ریاستوں میں درجہ حرارت ہر گزرتے دن کے ساتھ بڑھ رہا ہے۔ بڑھتی ہوئی گرمی کے باعث لوگوں کو شدید پریشانی کا سامنا ہے۔ تاہم کچھ ریاستوں میں بارش بھی ہو رہی ہے۔ ہندوستان کے محکمہ موسمیات (آئی ایم ڈی) نے کہا ہے کہ ہمالیائی مغربی بنگال، بہار، اوڈیشہ، آسام، مغربی ...