گلبرگہ میں سنٹرل یونیورسٹی کرناٹک کو زعفرانے کی کوشش جاری، طلباکاالزام
گلبرگہ ،12؍ستمبر (ایس او نیوز؍راست) سنٹرل یونیورسٹی آف کرناٹک موقوعہ گلبرگہ کے کئی ایک طلبانے الزام عائد کیا ہے کہ یونیورسٹی اسٹاف کے چند ارکان ہر صبح طلبا کے ساتھ نشستیں منعقدکرتے ہیں اور یونیورسٹی کے کیامپس کو زعفرانے کی کوشش کررہے ہیں۔ ان طلباکاکہنا ہے کہ کئی ایک طلبا یونیورسٹی کیامپس میں اس طرح کی سرگرمیوں کے سخت مخالف ہیں اور انھوں نے وائیس چانسلر کو دو ماہ قبل احتجاجی یادداشت بھی پیش کردی ہے۔اس یادداشت میں کہا گیا ہے کہ اس طرح کی سرگرمیوں اور پروپگنڈوں سے 1400طلبا پر مشتمل اس یونیورسٹی کیامپس کی فرقہ وارانہ ہم آہنگی متاثر ہوجائیگی۔ واضح رہے کہ سنٹرل یونیورسٹی موضع کڑگنچی تعلقہ الند ضلع گلبرگہ میں سال 2009می قائیم کی گئی تھی۔ طلبا نے اپنی یادداشت میں کہاہے کہ ہمیں یونورسٹی کے باہر ہندوتوا کی سرگرمیوں پر کوئی اعتراض نہیں ہے لیکن ہماری یونیورسٹی کو چندفیاکلٹی ارکان سیاست کھیلتے ہوئے آر ایس ایس کا اڈہ بنانے کی کوشش کررہے ہیں۔ گزشتہ مہینہ انھوں نے آر ایس ایس کے ایک قومی لیڈر کو یونیورسٹی کیامپس میں مدعوکرکے یونیورسٹی میں آر ایس ایس یونٹ قائم کرنے کے لئے کہا تھا۔ اس طرح یہ چندفیاکلٹی ممبرس اور کچھ طلبا مل کر دیگر طلبایونیورسٹی میں یہ خوف پیداکررہے ہیں کہ اگر انھوں نے اس سرگرمیوں کی مخالفت کی تو اس صورت میں انھیں معطل کردیاجائے گا۔ اس یونیورسٹی میں اس طرح کی سرگرمیاں ایک سال پہلے شروع ہوئی ہیں جب کہ موجودہ وائیس چانسلرنے اپنے عہدہ کا جائیزہ لیا تھا۔ ایک طالب علم کاکہنا تھاہ اگر اس کی شناخت ظاہرہوگئی تو اس صورت میں یونیورسٹی اس کیپی ایچڈی مکمل ہونے پر روک لگادے گی۔
راجستھان سے تعلق رکھنے والے پوسٹ گریجویشن کے ایک طالب علم نے دعویٰ کیا ہے کہ اے بی وی پی کے ارکان کو اپنی تعلیم مکمل کرنے کے بجائے کیامپس میں قیام کرنے کی اجازت دی گئی ہے تاکہ وہ ہندوتوا کی آئیڈیالوجی کی تبلیغ کرسکیں۔ لیکن اس کے برخلاف اے بی وی پی کیامپس کے صدر اور آر ایس ایس کے سوئیم سیوک نریندر چودھری نے کہا ہیکہ تقریبا 40تا 50طلبا ہر صبح فیاکلٹی ارکان کے ساتھ کیامپس میں جمع ہہوجاتے ہیں تاکہ وہاں صحت کو بہتر بنانے کیلئے ورزش،یوگا اور پرانائیم وغیرہ کرسکیں اور پھر یہ کہتے ہیں کہ یہ کوئی آر ایس ایس کی نشست نہیں ہے۔ پی ایچ ڈی کرنے والے ایک اور طالب علم کا کہناتھاکہ ہمیں یوگا پر کوئی اعتراض نہیں ہے لیکنیہاں طلبا اپنے ہاتھوں میں بمبو ؤں کی لکڑیاں تھامے ہوئے آر ایس ایس کے ڈرل کرتے ہیں۔ اس سے ہم آہنگی متاثر ہوگی۔ اس طالب علم نے کہا کہ آئیندہ انتخابات کے پیش نظر طلبا کو آلہ کے طورپر استعمال کیاجارہا ہے۔ اس ضمن میں وائیس چانسلر بٹو ستیہ نارائین نے اپنے اخباری بیان میں مذکورہ بالا الزامات کی تردید کرتے ہوئے کہا ہے کہ جب تک ان کی کارکردگی متاثر نہیں ہوتی وہ اس معاملہ میں مداخلت نہیں کریں گے۔ اگر آر ایس ایس ایک ممنوعہ تنظیم ہے تو اس صورت میں پولیس کو اس معاملہ کاروائی کرنے دیجئے۔۔ رجسٹرار یونیورسٹی بسواراج دونورنے کہا ہے کہ یونیورسٹی مزکورہ بالا آئیڈیالوجی کی نہ توتائید کرتی ہے اور نہ ہی مخالفت، آر ایس ایس کوئی ممنوعہ تنطیم نہیں ہے۔ انھوں نے کہا کہ چند افراد یونیورسٹی کے وقارکومتاثر کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔