غزہ پر اسرائیل کی بھاری بمباری جاری؛ عالمی برادری کی اپیل کے باوجودکیا اسرائیل کو روکنے والا کوئی نہیں ؟

Source: S.O. News Service | By I.G. Bhatkali | Published on 19th May 2021, 2:27 PM | عالمی خبریں | اسپیشل رپورٹس |

غزہ 19 مئی (ایس او نیوز) عالمی برادری، امریکہ اور اسلامی ملکوں کی بار بار جنگ بندی کی اپیلوں کے باوجود فلسطین کے علاقے غزہ کی پٹی پر اسرائیلی فوج کے  وحشیانہ حملوں  کا سلسلہ جاری ہے۔جس سے اب تک 237 فلسطینی شہید اور 1300 سے زائد زخمی ہو چکے ہیں۔

پاکستان سے شائع ہونے والے معروف روزنامہ جنگ کی رپورٹ کے مطابق اسرائیل کی بھاری بمباری نے نہ صرف عمارت اور اسپتالوں کو تباہ کیا   ہے بلکہ اُن تک جاتی تقریباً تمام سڑکوں کو بھی نیست و نابود کر دیا  گیاہے۔ اب صورتِ حال یہ ہے کہ ہر حملے کے بعد لاشیں اُٹھانے اور زخمیوں کو اسپتال پہنچانے کے ذرائع بھی مسدود ہوگئے ہیں۔

فضائی حملے مسلسل جاری ہیں اور غزہ کے بڑے رہائشی و تجارتی علاقے بجلی سے محروم ہوگئے ہیں۔ حتیٰ کہ چھوٹے موٹے دواخانوں میں بھی اندھیروں کا راج ہے اور زخمی تڑپ رہے ہیں۔

اب تک اسرائیلی فضائی حملوں میں کم از کم دو سے ڈھائی سو فلسطینی جاں بحق ہوچکے ہیں جن میں درجنوں بچے اور خواتین بھی شامل ہیں جب کہ حماس کے جوابی حملوں میں بہ مشکل دس اسرائیلی ہلاک ہوئے ہوں گے۔

تاریخی طور پر اسرائیل کا یہ وطیرہ رہا ہے کہ اگر ایک اسرائیلی مارا جاتا ہے تو اس کے جواب میں دس سے بیس گنا زیادہ فلسطینی مار دیئے جاتے ہیں اور بربریت میں عورتوں، بچوں اور بوڑھوں کی کوئی تمیز نہیں کی جاتی۔ پورے پورے خاندان تباہ کر دیئے گئے ہیں۔

گزشتہ دنوں تو اسرائیل نے میڈیا کو بھی نہیں بخشا اور غزہ میں الجلا ٹاور پر بھی فضائی حملے کرکے پوری عمارت تباہ کر دی جس سے بین الاقوامی صحافتی ادارے بھی اپنے دفاتر اور آلات سے محروم ہوگئے۔ تقریباً دو ہفتوں سے جاری اس اسرائیلی بربریت کا آغاز رمضان مبارک کے آخری ہفتے میں ہوا اور اسرائیل نے جمعتہ الوداع اور شب قدر کی پروا کئے بغیر حتیٰ کہ عیدالفطر کے مقدس ترین تہوار کو بھی نہ دیکھتے ہوئے فلسطینیوں کے ہزاروں مکان اور سیکڑوں خاندان تباہ کر دیئے ہیں۔

ان حملوں کا آغاز اس وقت ہوا تھا جب اسرائیل نے شیخ جرح کے علاقے میں فلسطینیوں کو اُن کے گھروں سے بے دخل کرنے کا آغاز کیا۔ اس کے بعد تو جیسے اسرائیل بالکل بے لگام ہوگیا اور عمارتوں پر عمارتیں تباہ کرتا رہا۔ گو کہ امریکا نے اسرائیل سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ غزہ کے کثیر المنزلہ ٹاور پر فضائی حملوں کی وجوہات بتائے مگر اسرائیل ایسے کسی مطالبے کو ماننے پر تیار نہیں ہے۔

دیکھنے اور سوچنے کی بات یہ ہے کہ اگر چین میں کوئی انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہوتی ہے تو چاہے اس کے ٹھوس شواہد موجود ہوں یا نہ ہوں امریکا واویلا مچانا شروع کر دیتا ہے جب کہ اسرائیل آج سے نہیں بل کہ گزشتہ پون صدی سے بار بار کھلم کھلا ایسے حملے کرتا رہا ہے جن میں بے گناہ اور نہیتے فلسطینیوں کی جانیں جاتی رہی ہیں لیکن امریکا صرف زبانی کلامی جمع خرچ سے ہی کام چلاتا رہا ہے اور یہی حال باقی دنیا کا ہے جس میں مسلمان اور عرب ممالک بھی شامل ہیں۔انجلا ٹاور پر حملے میں بین الاقوامی میڈیا سمیت ایسوسی ایٹڈ پریس اور الجزیرہ کے دفاتر بھی شامل تھے۔ ان کو تباہ کرنے کا مقصد یہ ہے کہ غزہ سے باہر وہ براہِ راست مناظر نہ دکھائے جاسکیں جن میں فلسطینی خاندانوں کو بے دردی سے نشانہ بنایا جارہا ہے۔

نئے امریکی صدر جوبائیڈن کے برسراقتدار آنے سے قبل توقع کی جارہی تھی کہ امریکا اب اسرائیل کے بارے میں سابق صدر ٹرمپ کی پالیسی میں تبدیلی لائے گا اور نئے امریکی وزیر خارجہ اینٹونی بلنکن نے اس بارے میں کچھ اشارے بھی دیئے تھے مگر اب لگتا ہے وہ تمام توقعات غلط تھیں کیوں کہ بلنکن نے کوپن ہیگن میں ایک پریس کانفرنس میں بتایا کہ وہ اب تک اسرائیلی حکام کی جانب سے کسی مثبت جواب سے آگاہ ہیں نہ ہی انہوں نے ان حملوں کو غیر قانونی قرار دے کر اُن کی مذمت کی ہے۔

اب اسرائیلی حملے ایک بڑے شہری سانحے کا روپ دھارتے جارہے ہیں اور سڑکوں اور عمارتوں کے علاوہ تقریباً تمام شہری سہولتیں شدید نقصان سے دوچار ہوئی ہیں۔ پانی، بجلی، گیس اور صحت وغیرہ کی سہولتیں بھی ناپید ہوچکی ہیں اور صحت وغیرہ کی سہولتیں جو غزہ میں پہلے ہی بری حالت میں تھیں اب مکمل تباہی کا شکار ہوچکی ہیں، کیوں کہ اسپتالوں تک رسائی بھی ناممکن ہوچکی ہے۔

اب صورتحال یہ ہے کہ لوگ اپنے عزیز و اقارب کے لاشے اور زخمیوں کو اسٹریچر اور ہاتھوں میں اٹھائے ادھر ادھر بھاگتے نظر آتے ہیں۔ لگتا ہے کہ عالمی ضمیر اور نام نہاد عالمی برادری مکمل طور پر بے حسی کا مظاہرہ کررہی ہے۔

اقوام متحدہ کے سیکرٹری نے ایک حیرت انگیز بیان میں دونوں فریقوں پر زور دیا ہے کہ وہ جنگ بندی کردیں اس طرح یہ تاثر دینے کی کوشش کی ہے کہ جیسے یہ کوئی باقاعدہ جنگ ہے جو دو افواج کے مابین لڑی جارہی ہے جب کہ حقیقت یہ ہے کہ فلسطینیوں کے پاس کوئی باقاعدہ فوج ہے اور نہ کوئی بحریہ یا فضائیہ جب کہ اسرائیل دنیا کی جدید ترین جنگی ٹیکنالوجی کا حامل ہے اور اپنے جدید ترین دفاعی نظام کی بدولت فلسطینی حملوں سے بھی بہت بڑی حد تک محفوظ ہے کیوں کہ فلسطینیوں کی طرف سے داغے جانے والے میزائیل فضا میں ہی تباہ کر دیئے جاتے ہیں۔

پھر غزہ کے پاور پلانٹ میں بھی ایندھن کی شدید کمی ہوچکی ہے جس سے صحت کے نظام پر مزید برا اثر پڑے گا۔ اس کے علاوہ تقریباً تمام فلسطینی شدید قسم کے ذہنی دبائو کا شکار ہوچکے ہیں کیوں کہ اسرائیل کی زیادہ تر فوجی کارروائیاں اب ڈرون ٹیکنالوجی کے ذریعے ہو رہی ہیں جو بہت تباہ کن ثابت ہوتی ہیں جس سے بچنے کا فلسطینیوں کے پاس کوئی راستہ نہیں۔

اسرائیل کے یہ مسلح ڈرون اپنی یادداشت میں فلسطینی علاقوں کے چپے چپے سے واقف ہیں اور بہت درست نشانوں پر حملے کرتے ہیں جس سے ثابت ہوتا ہے عام شہری آبادی کو اسرائیلی جان بوجھ کر نشانہ بنا رہا ہے۔ گو کہ اسرائیل کا دعویٰ ہے کہ وہ صرف عسکری مقاصد کیلئے استعمال ہونے والے مقامات کو نشانہ بنا رہا ہے مگر حقیقت میں ایسا نہیں ہے کیوں کہ اس نے فلسطینیوں کے گنجان آبادی والے شہری علاقوں کو بھی نشانہ بنایا ہے۔دوسری طرف حماس اور اسلامی جہاد نامی تنظیمیں ہیں جو اس تنازع میں کمزور ترین فریق ہیں اور ان کے پاس جو تھوڑے بہت ہتھیار ہیں ان سے اسرائیل کا بہت معمولی نقصان ہوتا ہے اور وہ کوئی موثر کارروائی کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے۔

اسرائیل کا دعویٰ ہے کہ حماس نے کوئی ڈیڑھ ہزار راکٹ اسرائیل کی طرف داغے لیکن ان میں سے نوے فیصد راکٹ فضا میں قائم آہنی حصار کے باعث اس میں داخل نہ ہو سکے اور جو داخل ہوئے وہ بھی ادھر ادھر ضائع ہو گئے۔ یاد رہے کہ یہ آہنی حصار اسرائیل نے اربوں ڈالرز خرچ کر کے جدید ترین ٹیکنالوجی سے قائم کیا۔ 

دوسری طرف امریکا اسرائیل کو اقوام متحدہ میں بھی بھرپور مدد فراہم کر رہا ہے۔ چین نے اس بات پر افسوس کا اظہار کیا ہے کہ امریکا اقوام متحدہ کو بھی اس تشدد کے خلاف کھل کر بات کرنے کی اجازت نہیں دے رہا اور سلامتی کونسل ایک بے کار ادارہ بن چکی ہے جس کی کوئی آواز نہیں اس طرح کے تشدد اور جارحیت کو روکنے کی کوئی حکمت عملی بھی نہیں ہے۔

تقریباً تمام بڑے چھوٹے امیر غریب ممالک اپنی ذمہ داریاں ادا نہیں کر رہے اور صرف باتوں اور ایک دوسرے کو فون پر اکتفا کئے بیٹھے ہیں۔ اس سلسلے میں عالمی برادری کو اپنا ضمیر جھنجھوڑ کر جگانے کی ضرورت ہے اور صرف یہ کہنے سے کہ اسرائیل کو اپے دفاع کا حق ہے صورت حال مزید بگڑ رہی ہے۔

اسلامی ممالک بھی باتیں کر رہے ہیں ترک صدر اردووان نے پوپ فرانسس سے گفتگو تو کی ہے اور اسرائیل پر پابندی لگانے کی درخواست کی ہے گویا کہ پوپ اس سلسلے میں کوئی کردار ادا کر سکتے ہیں۔

اردووان اور پوپ کے درمیان فون پر گفتگو ان درجنوں فون کالوں میں سے ایک ہے جو عالمی لیڈر ایک دوسرے کو کر رہے ہیں۔یہ باتیں اشارہ کر رہی ہیں کہ عالمی طاقتیں اس بار بھی ماضی کی طرح صرف شور مچاتی رہیں گی اور فلسطینی بے یارو مددگار ہی اسرائیل کی جارحیت کا شکار بنتے رہیں گے۔

ایک نظر اس پر بھی

اسرائیلی جہاز پر پھنسے 17 ہندوستانیوں سے ہندوستانی افسران کی جلد ہوگی ملاقات، ایران کی یقین دہانی

  ایران و اسرائیل کی کشیدگی کے دوران جہاں ایک جانب ہندوستانی اسٹاک ایکسچنج لڑکھڑا نے لگا ہے تو وہیں ایران کی جانب سے ہندوستان کے لیے ایک راحت کی خبر بھی ہے۔ ایران نے اعلان کیا ہے کہ وہ ہندوستانی افسران کو اسرائیلی مقبوضہ جہاز پر سوار 17 ہندوستانیوں سے ملاقات کی جلد اجازت دے گا۔ ...

کینیڈا میں 24 سالہ ہندوستانی طالب علم کا گولی مار کر قتل

کینیڈا کے شہر وینکوور کے علاقے سن سیٹ میں 24 سالہ ہندوستانی طالب علم کو اس کی کار میں گولی مار کر ہلاک کر دیا گیا۔ پولیس نے اتوار کو یہ جانکاری دی۔ وینکوور پولیس نے ایک بیان میں کہا کہ 24 سالہ چراغ انٹیل علاقے میں ایک گاڑی کے اندر مردہ پایا گیا۔

افغانستان میں سیلاب کے باعث 33 افراد ہلاک

ا فغانستان کے کچھ حصوں میں گزشتہ تین دنوں میں شدید بارشوں، برف باری اور سیلاب کی وجہ سے 33 افراد کی موت ہو گئی اور 27 دیگر زخمی ہو گئے۔نیشنل ڈیزاسٹر اتھارٹی کے ترجمان ملا جانان سائک نے اتوار کو یہ اطلاع دی۔

ایران کا اسرائیل پر ڈرونز اور کروز میزائلوں سے بڑا حملہ؛ خطے میں مچ گئی افراتفری

ایران نے شام میں قونصل خانے پر اسرائیلی بمباری کے جواب میں اسرائیل پر حملہ کردیا ہے۔ رپورٹوں کے مطابق ایران نے اسرائیل پر درجنوں ڈرونز اوع کروز میزائل داغے ہیں، جس کے ساتھ ہی پورے خطے میں افراتفری مچ گئی ہے۔

ایران کا اسرائیلی جہاز پر قبضہ، جہازپر سوار 17 ہندوستانیوں کی رِہائی کے لئےکوششیں تیز؛ کیا ایران اپنے قونصل خانے پر حملے کا بدلہ لے گا ؟

 اسرائیل اور ایران کے درمیان جاری کشیدگی  اور  آبنائے ہرمز کے قریب  اسرائیل پر ایرانی حملے کے بڑھتے  خدشات کے درمیان ایرانی فوج  نے  ایک اسرائیلی کارگو  جہاز پر قبضہ کر لیا  جس میں 17 ہندوستانی شہری بھی شامل ہیں۔ میڈیا رپورٹوں کے مطابق  معاملہ سامنے آنے کے بعد  حکومت ہند ...

بھٹکل سنڈے مارکیٹ: بیوپاریوں کا سڑک پر قبضہ - ٹریفک کے لئے بڑا مسئلہ 

شہر بڑا ہو یا چھوٹا قصبہ ہفتہ واری مارکیٹ عوام کی ایک اہم ضرورت ہوتی ہے، جہاں آس پاس کے گاوں، قریوں سے آنے والے کسانوں کو مناسب داموں پر روزمرہ ضرورت کی چیزیں اور خاص کرکے ترکاری ، پھل فروٹ جیسی زرعی پیدوار فروخت کرنے اور عوام کو سستے داموں پر اسے خریدنے کا ایک اچھا موقع ملتا ہے ...

نئی زندگی چاہتا ہے بھٹکل کا صدیوں پرانا 'جمبور مٹھ تالاب'

بھٹکل کے اسار کیری، سونارکیری، بندر روڈ، ڈارنٹا سمیت کئی دیگر علاقوں کے لئے قدیم زمانے سے پینے اور استعمال کے صاف ستھرے پانی کا ایک اہم ذریعہ رہنے والے 'جمبور مٹھ تالاب' میں کچرے اور مٹی کے ڈھیر کی وجہ سے پانی کی مقدار بالکل کم ہوتی جا رہی ہے اور افسران کی بے توجہی کی وجہ سے پانی ...

بڑھتی نفرت کم ہوتی جمہوریت  ........ ڈاکٹر مظفر حسین غزالی

ملک میں عام انتخابات کی تاریخوں کا اعلان ہونے والا ہے ۔ انتخابی کمیشن الیکشن کی تاریخوں کے اعلان سے قبل تیاریوں میں مصروف ہے ۔ ملک میں کتنے ووٹرز ہیں، پچھلی بار سے اس بار کتنے نئے ووٹرز شامل ہوئے، نوجوان ووٹرز کی تعداد کتنی ہے، ایسے تمام اعداد و شمار آرہے ہیں ۔ سیاسی جماعتیں ...

مالی فراڈ کا نیا گھوٹالہ : "پِگ بُوچرنگ" - گزشتہ ایک سال میں 66 فیصد ہندوستانی ہوئے فریب کاری کا شکار۔۔۔۔۔۔۔(ایک تحقیقاتی رپورٹ)

ایکسپوژر مینجمنٹ کمپنی 'ٹینیبل' نے ایک نئی رپورٹ جاری کی ہے جس میں یہ انکشاف کیا گیا ہے کہ پچھلے سال تقریباً دو تہائی (66 فیصد) ہندوستانی افراد آن لائن ڈیٹنگ یا رومانس اسکینڈل کا شکار ہوئے ہیں، جن میں سے 81 فیصد کو مالی نقصان کا سامنا کرنا پڑا ہے۔

مسلمان ہونا اب اس ملک میں گناہ ہے۔۔۔۔۔۔۔۔از: ظفر آغا

انہدام اب ایک ’فیشن‘ بنتا جا رہا ہے۔ یہ ہم نہیں کہہ رہے بلکہ یہ مدھیہ پردیش ہائی کورٹ کا بیان ہے۔ بے شک مکان ہو یا دوکان ہو، ان کو بلڈوزر کے ذریعہ ڈھا دینا اب بی جے پی حکومت کے لیے ایک فیشن بن چکا ہے۔ لیکن عموماً اس فیشن کا نشانہ مسلم اقلیتی طبقہ ہی بنتا ہے۔ اس کی تازہ ترین مثال ...

کیا وزیرمنکال وئیدیا اندھوں کے شہر میں آئینے بیچ رہے ہیں ؟ بھٹکل کے مسلمان قابل ستائش ۔۔۔۔۔ (کراولی منجاو کی خصوصی رپورٹ)

ضلع نگراں کاروزیر منکال وئیدیا کا کہنا ہے کہ کاروار میں ہر سال منعقد ہونےو الے کراولی اتسوا میں دیری اس لئے ہورہی ہے کہ  وزیرا علیٰ کا وقت طئے نہیں ہورہاہے۔ جب کہ  ضلع نگراں کار وزیر اس سے پہلے بھی آئی آر بی شاہراہ کی جدوجہد کےلئے عوامی تعاون حاصل نہیں ہونے کا بہانہ بتاتے ہوئے ...