منگلورو 5 / جون (ایس او نیوز) کیا جنوبی کینرا کے مسلمان سوشیل ڈیموکریٹک پارٹی آف انڈیا کو کانگریس پارٹی کا متبادل سمجھتے ہیں، اس موضوع پر انڈین ایکسپریس کے نامہ نگار ونسینٹ ڈیسوزا کی ایک رپورٹ شائع ہوئی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ مسلمانوں کا ایک بڑا طبقہ یہ محسوس کرتا ہے کہ کانگریس نے ہندو ووٹرس ہاتھ سے نکل جانے کا خدشہ دیکھتے ہوئے ملالی مسجد اور حجاب کے مسئلے کو پوری طرح سنجیدگی سے نہیں لیا ۔ یہی وجہ ہے کہ اب تک بہت معمولی اثر و رسوخ رکھنے والی سوشیل ڈیموکریٹک پارٹی آف انڈیا فرقہ وارانہ لحاظ سے حساس ضلع میں پوری تیزی کے ساتھ اپنا راستہ بناتی دکھائی دے رہی ہے ۔
اگر منگلورو میں منعقدہ پارٹی کنونشن کو اس کا اشارہ مانیں تو ایسا لگتا ہے کہ ضلع کے لوگ بالخصوص یہاں کی ووٹرس کا 20 فیصد تناسب رکھنے والے مسلمان آر ایس ایس اور بی جے پی سے ٹکر لینے کے لئے کانگریس کے بجائے ایس ڈی پی آئی کو متبادل مان رہے ہیں ۔
حجاب اور ملالی مسجد معاملہ پر کانگریس کے رویہ سے غیر مطمئن مسلمانوں اور حجاب حامی طلبہ نے ضلع میں کانگریسی چہرہ سابق منسٹر یو ٹی قادر کے خلاف اپنی ناراضی کا اظہار کیا تھا ۔ اس موقع کا پورا فائدہ ایس ڈی پی آئی اور اس کی طلبہ تنظیم کیمپس فرنٹ آف انڈیا نے اٹھایا ۔
جب کبھی حساس مسائل سر اٹھاتے ہیں تو کانگریس نپے تلے انداز میں موقف ظاہر کرتی ہے جبکہ ایس ڈی پی آئی اور سی پی آئی (ایم) [ جس نے حال ہی میں مسلمانوں کے مسائل اجاگر کرنے کے لئے میگھالیہ میں کنونشن منعقد کیا تھا] عوام کے مسائل پوری طاقت کے ساتھ اٹھاتے ہیں ۔
دکشن کنڑا ڈسٹرکٹ کانگریس مائناریٹی ونگ کے صدر شاہ الحمید اس بات کو نہیں مانتے کہ کانگریس پارٹی نے مسلم طبقہ کے ساتھ کوئی ناانصافی کی ہے ۔ ان کا کہنا ہے کہ ان کی پارٹی حساس مسائل سے کوئی سیاسی مفاد حاصل کرنے کی نیت نہیں رکھتی بلکہ وہ مسائل حل کرنے کی کوشش کرتی ہے ۔ ایس ڈی پی آئی کی جانب سے کانگریس پر 'نرم ہندوتوا' اپنانے کے الزام کا توڑ کرتے ہوئے شاہ الحمید کا کہنا ہے کہ اس طرح کے حملوں سے سیکولر ووٹ تقسیم ہونگے اور اس کا فائدہ بی جے پی کو پہنچے گا ۔
ایس ڈی پی آئی دکشن کنڑا کے صدر ابوبکر کولائی نے کہا کہ ہماری پارٹی پر سیکولر ووٹ تقسیم کرنے کا الزام لگانا کانگریس پارٹی کی پرانی حکمت عملی ہے ۔ "کانگریس ایک مضبوط اپوزیشن کے طور پر ناکام ہوچکی ہے اور وہ عوام کے مسائل اٹھانے کے قابل نہیں رہی ہے ۔ یہی وجہ سے عوام اب ایس ڈی پی آئی کو ایک متبادل کے طور پر دیکھ رہے ہیں ۔"
سیاسی مبصر ڈاکٹر چندرا پجاری کہتے ہیں کہ بی جے پی ہندوتوا سیاست پر عمل کر رہی ہے اس کے برخلاف کانگریس نے سیکیولرازم کو ایک ضمنی چیز کے طور پر اپنایا ہے ۔ "اس وجہ سے کچھ کانگریس کے حامیوں نے اپنی وفاداریاں ایس ڈی پی آئی کے ساتھ جوڑ دی ہونگی ۔ لیکن انتخابات میں ایس ڈی پی آئی کو اس کا فائدہ فوری طور پر نہیں ہوگا بلکہ اس کے لئے ایک لمبا عرصہ درکار ہوگا ۔"