اقلیتی کمیشن چیرمین کے تقرر کو بھونڈا مذاق بنادیا گیا، جی اے باوا کے تقرر کا حکمنامہ جاری کرنے کے بعد انہیں چارج لینے سے روکنے کی وجہ کیا ہے؟
بنگلورو، یکم جون(ایس او نیوز) ریاستی حکومت کی طرف سے اقلیتی کمیشن کے لئے چیرمین کا تقرر ایک مذاق کا موضوع بن گیا ہے۔ پچھلی سدرامیا حکومت میں رکن کونسل نصیر احمد کو اقلیتی کمیشن کا چیرمین بنایا گیا تھا اور کل وقتی کمیشن کی تشکیل عمل میں آئی تھی، لیکن انتخابات کے بعد نئی حکومت کے قیام کے بعد جہاں نصیر احمد نے اخلاقاً اقلیتی کمیشن کی صدارت سے استعفیٰ دے دیا تو اس کمیشن کی قیادت محکمے کے وزیرنے خود سنبھال لی۔ابھی حال ہی میں وظیفہ یاب پولیس افسر جے اے باوا کو اقلیتی کمیشن کے چیرمین کے طور پر مقرر کرنے کا حکمنامہ جاری ہوا تھا، آج شام جی اے باوا اس عہدے کا چارج سنبھالنے والے تھے، اس کے لئے بڑے پیمانے پر تیاریاں کرلی گئی تھیں، ریاست کے مختلف مقامات سے لوگ جی اے باوا کو مبارکباد دینے کے لئے اقلیتی کمیشن کے دفتر پہنچ چکے تھے، عین وقت پر جی اے باوا کو کمیشن کی صدارت سنبھالنے سے روک دیا گیا۔بتایاجاتاہے کہ کانگریس جے ڈی ایس اتحاد میں جی اے باوا کے تقرر کو لے کر انتشار پیدا ہونے کے نتیجے میں انہیں چارج لینے سے روک دیا گیا۔ ریاستی حکومت کے اس رویے خاص طور پر کانگریس قیادت نے جس طرح اقلیتی کمیشن کے چیرمین کے تقرر کو ایک مذاق میں تبدیل کردیا ہے اس پر لوگوں میں شدید برہمی کا اظہارکیا جارہاہے۔ ہر بار اقلیتوں کے ساتھ کسی نہ کسی محاذ پر ناانصافی ہوتی رہی ہے۔ چاہے وہ وزارت کی تشکیل کا مرحلہ ہو، کانگریس ٹکٹوں کی تقسیم کا ہو یا پھر کانگریس کی فیصلہ ساز کمیٹیوں میں اقلیتوں کی نمائندگی کا نہ ہونا، اس سلسلے میں بارہا نشاندہی کئے جانے پر آئندہ اصلاح کی یقین دہانی تک نہیں کرائی گئی، اب ایک بار پھر کانگریس قیادت نے اقلیتوں کے وقار کو مجروح کرتے ہوئے دیانتدار کانگریس کارکن جی اے باوا کے اقلیتی کمیشن کے چیرمین کے طور پر تقرر کو بھونڈا مذاق بناکر رکھ دیا۔ اگر انہیں اقلیتی کمیشن چیرمین منتخب نہیں کرنا تھا تو پھر سرکاری حکمنامہ کیوں کیا گیا اور جب سرکاری حکمنامہ جاری ہوگیا تو انہیں عہدہ سنبھالنے سے کیوں روکا گیا؟۔ ریاست بھر کے مسلمانوں میں اس طرح کے سوالات اٹھ رہے ہیں اور دانشوروں کے حلقوں میں کہاجارہا ہے کہ ہر بار اس طرح کا مذاق اور ناانصافی صرف مسلمانوں کے ساتھ ہی کیوں ہوتی ہے، مخلوط حکومت میں شامل ہونے کے مجبوری کے نام پر قربانی مسلمانوں کو ہی کیوں دینی پڑتی ہے۔ کیا دیگر طبقوں کو قربانی دینے کے لئے آمادہ کرنے میں کانگریس قیادت میں طاقت نہیں ہے اور کانگریس کیا مسلمانوں اور مسلم قیادت کو اتنی کمزور سمجھی ہے کہ انہیں جس طرح چاہے کچلا جائے اگر ایسا نہیں تو پھر ریاست کی مسلم قیادت کے ٹھیکیدار بنے بیٹھے لوگوں کو واضح کردینا چاہئے کہ جی اے باوا کے ساتھ آخر ایسا کیوں کیاگیا۔؟