اسقاط حمل جرم کے دائرے سے باہر ہو، سپریم کورٹ میں پٹیشن
نئی دہلی، 15 جولائی(ایس او نیوز/آئی این ایس انڈیا)اسقاط حمل کو جرم کے دائرے سے مکمل طورپرباہرکرنے کے لیے سپریم کورٹ میں مفاد عامہ کی عرضی دائر کی گئی ہے۔درخواست میں کہا گیا ہے کہ جننا خواتین کی پسند کا معاملہ ہے، اس لیے جننا کو عمل اور اسقاط حمل کے بارے میں فیصلہ کرنے کا حق ہونا چاہئے۔اس درخواست پر سپریم کورٹ سماعت کے لئے تیار ہو گیا ہے اور مرکز کو نوٹس بھیجا ہے۔تین خواتین نے اس سلسلے میں دائر درخواست میں کہا ہے کہ اسقاط حمل صرف ماں کی زندگی بچانے کے لئے نہیں ہو سکتی ہے۔اس معاملے پر خواتین کی رائے بھی اہم ہے۔درخواست میں کہا گیا ہے کہ سرکاری مشینری خواتین کو پوری مدت حاملہ رکھنے کے لئے مجبور نہیں کر سکتا ہے۔بتا دیں کہ میڈیکل ٹرمنیشن آف حمل ایکٹ، 1971 کے مطابق، اسقاط حمل کرانے کی مدت 12 ہفتے ہے، 12 ہفتے کے اندر خواتین اسقاط حمل کروا سکتی ہے،تاہم خاتون کو ذہنی اور جسمانی مسئلہ ہونے کی صورت میں اور جنین میں صحت کے مسائل یا پیچیدگیاں آنے پر ہی قانون میں مختلف انتظامات کئے گئے ہیں۔یہ قانون کہتا ہے کہ 20 ہفتے کے بعد اسقاط حمل نہیں کرایا جا سکتا ہے لیکن اگر ماں کی جان کو خطرہ ہے تو یہاں بھی دوسرا قانون ہے۔اس مفاد عامہ کی عرضی میں کہا گیا ہے کہ اس کی خواہش کے خلاف حکومت خواتین کو حمل جاری رکھنے کے لئے نہیں کہہ سکتی ہے۔خواتین کو یہ طے کرنے کا حق ہونا چاہئے کہ وہ حاملہ رہنا چاہتی ہے کہ نہیں۔درخواست میں کہا گیا ہے کہ جننا اور حمل، پھر حمل کو پوری مدت تک رکھنا یا پھر اسے ختم کرنا، یہ ایک خاتون کی ذاتی پسند، اس کے وقار، ذاتی آزادی، اور خودکار فیصلہ کا معاملہ ہے اور اسے آئین کی دفعہ 21 میں نشان زدکیا گیا ہے۔