اے پی سی آر ۔ حق کی لڑائی میں نیا کاروان ۔۔۔۔ ازقلم: مدثر احمد

Source: S.O. News Service | Published on 28th August 2019, 6:17 PM | مہمان اداریہ |

ہندوستان میں جمہوری نظام اور مسلمانوں کے مسائل پر قانونی کارروائی کرنے والی تین تنظیمیں ہیں ان میں جمیعت العلماء ہند ، اے پی سی آر اور پاپولر فرنٹ آف انڈیا ہر طرح سے مسلمانوں کے قانونی مسائل پر لڑائی لڑنے کے پابند ہیں ، ان میں سب سے زیادہ سرگرم تنظیمیں جمیعت العلماء ہند اور اے پی سی ہیں جو دہشت گردی کے معاملات سے لے کر ملک میں  بنائے جارہے نت نئے قوانین جو عوام کے مفاد میں  نہیں  ہیں انکے لئے قانونی چارہ جوئی کررہے ہیں ۔ اے پی سی آر کچھ سال قبل تشکیل شدہ ایسی ٹیم ہے جو حقوق انسانی کے لئے آواز بلند کرنے کے علاوہ عوام میں قانونی بیداری لانے اور عوام کو بنیاد حقوق سے آراستہ کرنے کیلئے مسلسل جد و جہد کررہی ہے ۔ اسوسیشن آف پروٹیکشن آف سویل رائٹس ( اے پی سی آر) ایک ایسی جماعت ہے جس میں ماہرین قانون، ماہرین صحافت ، ماہرین اقتصادیات و معاشیات ہیں اور یہ آرگنائزیشن ملک کی مختلف سماجی و انسانی حقوق کیلئے آواز اٹھانے والی تنظیموں کے اشتراک و تعاون سے مسلسل کام کررہی ہے ۔ حالانکہ اس آرگنائیزیشن کے اغراض و مقاصد بالکل دستورہند کے تحت ہیں اور یہ تنظیم پوری شفافیت کے ساتھ حقوق انسانی کیلئے کام کررہی ہے جو ملک کی گودی و مودی میڈیا کے لئے قبول نہیں ہے یہی وجہ ہے کہ اس تنظیم کو میڈیا میں فوکس نہیں کیا جاتا۔ اے پی سی آر نے اپنے وجود میں آنے کے بعد سے مختلف ایسے مقدمات پر قانونی لڑائی لڑی ہے جس میں درجنوں مسلمان اور آدی واسیوں کے ساتھ ناانصافی ہورہی تھی ۔ بنگلور میں مسلم نوجوانوں کو دہشت گردی کے نام پر جو گرفتاریاں ہوئی تھیں ان مقدموں کی پیروی کے لئے اے پی سی آر نے ہی قابل وکلاء کی مدد سے ان نوجوانوں کو رہا کروایا اسکے علاوہ شمال مشرقی ریاستوں میں آدی واسیوں کے ساتھ جو ناانصافیاں ہورہی ہیں ان پر آواز اٹھانے کیلئے بھی اے پی سی آر نے اہم رول ادا کیا ہے ۔ ملک بھر میں جس تیزی کے ساتھ قوانین بدل رہے ہیں یا موجودہ قوانین میں ترمیم لاتے ہوئے ملک کو تباہی کی جانب لے جانے کیلئے حکومتوں کی جانب سے کام کیا جارہاہے اس کے خلاف آواز اٹھانے کیلئے آج ملک کے ہر شہری کو آگے آنے کی ضرورت ہے ۔ یو اے پی اے، ین سی آر اور ین پی آر جیسے قوانین کو نافذ کرتے ہوئے ملک میں افراتفری و خوف کا ماحول پیدا کیا جارہاہے ، ان قوانین کو نا کام بنانے یا پھر منسوخ کروانے کے لئے جو تنظیمیں  آواز اٹھارہی ہیں  ان میں سے اے پی سی آر بھی ایک تنظیم ہے ۔ حال ہی میں اے پی سی آر نے سپریم کورٹ میں یو اے پی کے خلاف عرضی دائر کرتے ہوئے اس قانون پر نظر ثانی کرنے اور ترمیم کرنے کی گذارش کی ہے جسے سپریم کورٹ نے منظور کرلیا ہے۔حالانکہ اس قانونی جنگ کیلئے کافی محنت و قربانیاں کرنی ہونگی لیکن انصاف ملنے کے قوی امکانات ہیں۔ حال ہی میں کشمیر سے تعلق رکھنے والے 6 بے گناہ مسلمانوں کو عدالت سے رہائی ملی ہے اور یہ رہائی انہیں  پورے 23 سال بعد ملی ، مرکزی حکومت نے ان لوگوں کو اس وقت کے ٹاڈا اور پوٹا جیسے قوانین کے تحت بند کیا تھا یہی قوانین اب یو اے پی اے کی شکل میں عمل میں لائے جارہے ہیں ۔ یو اے پی اے ایک ایسا قانون ہے جس میں کسی بھی شخص کو شک کی بنیاد پر جانچ ایجنسیاں بغیر کسی یف آئی آر یا وارنٹ کے گرفتار کرسکتی ہے اور عدالتیں انہیں فوری ضمانت پر رہا بھی نہیں  کرسکتی ۔ ایسے خطرناک قوانین کے خلاف آواز اٹھانا آج وقت کی اہم ضرورت ہے ۔ اے پی سی آرنے ایسے قوانین کے تعلق سے عوام میں بیداری لانے کیلئے مہم شروع کرنے کافیصلہ کیا ہے۔بعض لوگ ایسی تنظیموں سے صرف اس وجہ سے علیحدہ رہتے ہیںکہ یہ تنظیمیں کسی خاص جمیعت یا مکتب کے ماننے والوںکی جانب سے عمل میں لائی جاتی ہیںجبکہ جب قانون کو نافذ کرنے والے کسی مسلمان کو گرفتار کرتے ہیںتو وہ یہ نہیں دیکھتے کہ وہ کونسے مذہب یا مسلک سے تعلق رکھتا ہے۔اگر ہندوستان میں آنے والے دنوں میں سکون کی سانس لینا ہے تو خصوصاً مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ قانونی معلومات حاصل کریںاور حقوق کیلئے لڑنے والی تنظیموں کے ساتھ جڑ کر ان کو مضبوط کریں۔اسوسیشن فار پروٹیکشن آف سیول رائٹس( اے پی سی آر ) صرف مسلمانوںکے حقوق کیلئے لڑنے والی تنظیم نہیں ہے بلکہ ہر کمزور طبقے پر ہونے والے ظلم کے خلاف آوا ز اٹھانے والاایک نیا کاروان ہے اور اس کاروان کو مضبوط ومستحکم کرنا ہر انصاف پسند شہری کی ذمہ داری ہے۔اگر اب بھی مسلمان علیحدہ رہ کر ملک کی جمہوریت کی بات کرتے ہیںتو یہ ایک طرح سے کم عقلی ہوگی اور اس میں کامیابی ملنا نہایت مشکل ہے ۔ علامہ اقبال کا شعر ہے کہ

ایک ہوجائیں تو بن سکتے ہیں خورشید و مبین

منتشر ہو تو مرو ،شور مچاتے کیوں ہو

ایک نظر اس پر بھی

کارپوریٹ گھرانوں اور ہندوتوا کا ’سازشی گٹھ جوڑ‘، مودی حکومت میں ’کھیل‘ کے سبھی اصول منہدم!

فاشسٹ عناصر ہمارے جدید سماج میں رہتے ہیں، لیکن عموماً وہ بہت ہی چھوٹے طبقہ کے طور پر حاشیے پر پڑے رہتے ہیں۔ وہ مین اسٹریم میں تبھی آ پاتے ہیں جب انھیں اجارہ داری والی پونجی کی مدد ملے کیونکہ اسی سے ان عناصر کو اچھا خاصہ پیسہ اور میڈیا کوریج مل پاتا ہے۔ یہ مدد کب ملتی ہے؟ تب، جب ...

مسلم تھنک ٹینک: قوم مسلم کی ایک اہم ترین ضرورت ۔۔۔ از: سیف الرحمن

آج جب کہ پوری دنیا و اقوام عالم ترقی کے منازل طے کر رہی ہیں اور پوری دنیا میں آگے بڑھنے کی مقابلہ آرائی جاری ہے جِس میں ہمارا مُلک ہندوستان بھی شامل ہے ، تو وہیں ملک کر اندر بھی موجود الگ الگ طبقات میں یہ دوڑ دیکھنے کو مل رہی ہے

عالمی کپ فٹبال میں ارجنٹینا کی شاندار جیت پر ہندی روزنامہ ہندوستان کا اداریہ

کھیلوں کے ایک سب سے مہنگے مقابلے کا اختتام ارجینٹینا  کی جیت کے ساتھ ہونا بہت خوش آئندہ اور باعث تحریک ہے۔ عام طور پر فٹبال کے میدان میں یوروپی ملکوں کا دبدبہ دیکھا گیا ہے لیکن بیس برس بعد ایک جنوبی امریکی ملک کی جیت حقیقت میں فٹبال کی جیت ہے۔

ہر معاملے میں دوہرا معیار ملک کے لیے خطرناک ۔۔۔۔ منصف (حیدرآباد) کا اداریہ

سپریم کورٹ کے حالیہ متنازعہ فیصلے کے بعد انفورسمنٹ ڈائرکٹوریٹ (ای ڈی) کی سرگرمیوں میں مزید شدت پیدا ہوگئی ۔ مرکزی ایجنسی نے منی لانڈرنگ کیس میں ینگ انڈیا کے  دفاتر کو مہر بند کردیا۔  دہلی  پولیس نے کانگریس کے ہیڈ کوارٹرس کو عملاً  پولیس چھاؤنی میں تبدیل کر دیا۔ راہول اور ...

نوپور تنازع: آخر مسلمان جوابی غلطیاں کیوں کر رہے ہیں؟۔۔۔۔تحریر:قمر وحید نقوی

دو ہفتے بعد نوپور شرما کے تبصرے کے تنازع پر ہندوستانی مسلمانوں کے ایک طبقے نے جس غصے کا اظہار کیا ہے وہ بالکل مضحکہ خیز اور سیاسی حماقت کا ثبوت ہے۔ اتنے دنوں بعد ان کا غصہ کیوں بھڑکا؟ کیا ان کے پاس اس سوال کا کوئی منطقی جواب ہے؟

تقسیم کی  کوششوں کو روکنے کے ساتھ ساتھ ہم آہنگی و خیرسگالی پر زوردینا ضروری : ملک کے موجودہ حالات پر کنڑا روزنامہ ’پرجاوانی ‘ کا اداریہ

ملک کے مختلف مقامات پر عبادت گاہوں کے متعلق جو  تنازعات پیدا کرنے کی کوششیں ہورہی ہیں و ہ دراصل سماجی اور سیاسی تقسیم کا مقصد رکھتی ہیں۔ ایسی کوششوں کے پیچھے معاشرے میں ہنگامہ خیزی پیدا کرنے کامقصدکارفرما ہےتو ملک کے سکیولرنظام کو کمزور کرنے کا مقصد بھی اس میں شامل ہے۔