سپریم کورٹ نے انتظامیہ کو لگائی پھٹکار مودی حکومت کشمیر سے متعلق ایک ایک سوال کا جواب دے
نئی دہلی،22/نومبر(ایس او نیوز/ایجنسی) سپریم کورٹ نے جموں وکشمیر انتظامیہ کو کہاکہ آرٹیکل370ہٹائے جانے کے بعد ریاست میں عائد پابندیوں سے متعلق ایک ایک سوال کا جواب دینا ہوگا۔ جسٹس این وی رمن کی قیادت والی بنچ نے سالیسٹر جنرل تشارمہتہ سے کہاکہ ریاست میں عائد پابندیوں سے متعلق ایک ایک سوال کا جواب آپ کو دینا ہوگا۔ قابل ذکر ہے کہ جموں کشمیر سے آرٹیکل 370/ ہٹائے جانے کے بعد وہاں لگی پابندیوں سے متعلق ایک معاملے کی شنوائی سپریم کورٹ میں چل رہی ہے۔ جموں وکشمیر میں لگی پابندیوں سے متعلق اس معاملے پر شنوائی کے دوران عدالت نے جمعرات کو ریاستی انتظامیہ سے کہاکہ انہیں ہر سوال کا جواب دینا ہوگا۔ شنوائی کے دوران جسٹس این وی رمن کی قیادت والی بنچ میں شامل جسٹس آر سبھاش ریڈی اور بی آر گوی نے کہاکہ عرضی گزاروں نے وہاں لگی پابندیوں کو چیلنج کیا ہے اس لئے تمام سوالوں کے جواب آپ کو دینے ہوں گے۔ عدالت نے کہاکہ ’مسٹر مہتہ، جو سوال عرضی گزاروں نے اٹھائے ہیں ان سبھی سوالوں کا آپ کو تفصیلی جواب دینا ہوگا۔ آپ کے ایفیڈیوٹ سے ہم کسی بھی نتیجے پر نہیں پہنچ پارہے ہیں۔ اس طرح کا تاثر مت دیجئے کہ آپ اس مقدمہ پر زیادہ دھیان نہیں دے رہے ہیں۔ اس کے بعد سالیسٹر جنرل تشارمہتہ نے شنوائی کے دوران کہاکہ عرضی گزاروں کی جانب سے پابندیوں کے بارے میں دیئے گئے زیادہ تر دلائل غلط ہیں۔ انہوں نے کہاکہ جب کورٹ میں وہ دلیل دیں گے، اس وقت وہ ہر پہلو پر جواب دیں گے۔ سالیسٹر جنرل نے کہاکہ ان کے پاس اسٹیٹس رپورٹ ہے لیکن انہوں نے یہ عدالت میں داخل نہیں کیا ہے کیونکہ ریاست میں حالات روز افزوں بدل رہے ہیں۔ جب وہ دلیلیں دیں گے تب صحیح اسٹیٹس رپورٹ پیش کریں گے۔ جسٹس این وی رمن کی قیادت والی بنچ نے انتظامیہ کی جانب سے عدالت میں پیش سالیسٹر جنرل سے صاف کہا ہے کہ پابندیوں کو چیلنج دینے والی عرضیوں میں بڑے پیمانے پر دلائل دیئے گئے ہیں اور انہیں سبھی سوالوں کا جواب دینا ہوگا۔ بنچ نے واضح کیا کہ ایک عرضی کو چھوڑ کر کسی میں بھی حراست کے معاملے اس کے پاس التوا نہیں ہیں۔ کورٹ نے کہا کہ ہم جموں کشمیر سے متعلق حراست کا کوئی معاملہ نہیں سن رہے ہیں۔ ہم اس وقت انورادھا بھسین کی جانب سے دائرکی گئی دوعرضیوں پر شنوائی کررہے ہیں۔ یہ عرضیاں آنے جانے اور پریس کی آزادی پر پابندیوں کے بارے میں ہیں۔ صرف ایک عرضی حراست کے بارے میں ہے۔ دوسرے عرضی گزاروں کی جانب سے پیش ہوئیں سینئر وکیل میناکشی اروڑہ نے چہرے پر ماسک پہننے والے مظاہرین پر سرکار کے ذریعے لگائی گئی پابندی کو ہٹانے کے ہانگ کانگ ہائی کورٹ کے حکم کا ذکرکیا۔ انہوں نے کہاکہ ہم نے کشمیر میں جو دیکھا، ہانگ کانگ کی حالت اس سے کہیں زیادہ خراب تھی۔ وہاں روز احتجاجی مظاہرے ہورہے تھے۔ اس پر جسٹس رمن نے کہا، شہریوں کے بنیادی حقوق کو بنائے رکھنے میں ہندوستان کا سپریم کورٹ کہیں زیادہ بہتر ہے۔ اس کے بعد جسٹس گوی نے اروڑہ سے پوچھا کہ کیا ہانگ کانگ نے سرحدپار دہشت گردی کے مدعے کا سامنا کیا ہے۔ اس پر اروڑہ نے کہاکہ اگر یہ حقیقت میں سرحد پار دہشت گردی کا مدعا ہوتا، تو پابندی صرف چنندہ علاقوں میں ہوتی پوری ریاست میں نہیں۔ وہیں مہتہ نے کہاکہ جموں کشمیر کے لوگوں سے حقوق نہیں چھینے گئے، بلکہ 70/سال میں پہلی بار دیئے گئے۔ انہوں نے کہاکہ تعلیم کے حقوق سے متعلق ایکٹ جموں کشمیر پر نافذ نہیں تھا۔ لیکن کوئی بھی عوامی نمائندہ عدالت میں نہیں آیا اور کہاکہ ہمارے بچے پڑھائی نہیں کرسکتے۔ اب وہ کہتے ہیں کہ انٹرنیٹ پر پابندی کی وجہ سے بولنے اور اظہار رائے کی آزادی پرپابندی ہے۔ انہوں نے آگے کہاکہ 5/اگست کو بھی سات اضلاع میں موبائل پر کوئی پابندی نہیں تھی۔ جن مقامات پر نظم ونسق کا مسئلہ نہیں تھا ان جگہوں پر917/اسکول 5/اگست کو بند نہیں ہوئے تھے۔ یہ دکھاتا ہے کہ حکام نے حالات کے مطابق کام کیا۔ چہارشنبہ کو وزیر داخلہ امیت شاہ نے کہاتھا کہ گھاٹی میں حالات بالکل نارمل ہیں۔ انہوں نے پولیس کی گولی سے ایک بھی فرد کی جان نہیں جانے کا دعویٰ بھی کیاتھا۔ انہوں نے راجیہ سبھا کو بتایا تھا کہ رات کے 8/بجے سے صبح کے 6/بجے کے بیچ چھوڑ کر جموں کشمیر کے 195پولیس اسٹیشنوں میں سے کسی میں بھی دفعہ 144نافذ نہیں ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہاتھا کہ اسکولوں میں حاضری 98/فیصدی ہے اور جموں کشمیر انتظامیہ کے مطمئن ہونے پر ہی انٹرنیٹ خدمات کو شروع کیا جائے گا۔ وہیں مرکزی وزیر جی کشن ریڈی نے راجیہ سبھا میں بتایاتھا کہ 4/اگست سے کشمیر گھاٹی میں رہنماؤں، علاحدگی پسندوں اور پتھر بازوں سمیت 5161لوگوں کی گرفتاریاں ہوئی ہیں۔ اس میں سے 218پتھر بازوں کے ساتھ 609لوگوں کو فی الحال حراست میں رکھاگیا ہے۔