بمبئی ہائی کورٹ کا عیدالاضحیٰ کے موقع پر رہائشی احاطوں میں قربانی کی اجازت دینے سے انکار؛ ممبئی کے مسلمان پریشان
ممبئی 8/اگست (ایس او نیوز/ایجنسی) بمبئی ہائی کورٹ نے منگل کے روز ایک عرضی پر سماعت کرتے ہوئے عیدالاضحیٰ کے موقع پر رہائشی احاطوں میں قربانی کی اجازت دینے سے انکار کر دیا ہے، جس کے ساتھ ہی ممبئی میں قربانی پر تلوار لٹک گئی ہے اور مسلم طبقہ سخت پریشان ہے۔ ذرائع سے ملی اطلاع کے مطابق جسٹس ایس سی دھرمادھیکاری اور جسٹس جی ایس پٹیل کی ایک بنچ نے جانوروں کو ذبح کرنے پر پابندی عائد کی ہے۔ بتایا گیا ہے کہ ہائی کورٹ نے حالانکہ قربانی پر پوری طرح سے پابندی نہیں لگائی، لیکن جو متبادل انھوں نے پیش کیا ہے، اس سے مسلم طبقہ کے لیے کافی پریشانیاں کھڑی ہو گئی ہیں۔ ہائی کورٹ نے اپنے فیصلے میں کہا کہ پرائیویٹ فلیٹس اور ہاؤسنگ سوسائٹیز میں جانوروں کا ذبیحہ نہیں ہو سکتا۔ عدالت نے ممبئی میں جانوروں کو غیر قانونی طریقے سے اِدھر اُدھر لے جانے پر بھی پابندی عائد کر دی۔ ہائی کورٹ کا کہنا ہے کہ ہر انٹری پوائنٹس کو چیک کیا جائے اور آر ٹی او اسے لے کر ورکشاپ منعقد کریں۔
خیال رہے کہ 12 اگست کو پورے ہندوستان میں عید قرباں منایا جارہا ہے جس کےموقع پر مسلمان سنت ابراہیمی پر عمل کرتے ہوئے جانوروں کی قربانیاں بھی دیں گے، لیکن ممبئی ہائی کورٹ کے اس فیصلے نے مسلمانوں کو تذبذب میں ڈال دیا ہے۔ ایسا محسوس ہو رہا ہے جیسے اس بار عیدالاضحیٰ پر ان کے گھروں میں خوشیاں اس طرح نہیں جھومیں گی جس طرح گزشتہ سالوں میں بقرعید کے موقع پر جھومتی تھیں۔
ذرائع نے بتایا کہ این جی او ’جیو میتری ٹرسٹ‘ اور ’ونیوگ پریوار‘ نے بمبئی ہائی کورٹ میں عرضی داخل کرتے ہوئے کہا تھا کہ جانوروں کے غیر قانونی ذبیحہ پر پابندی عائد کی جائے کیونکہ اس کی وجہ سے صاف صفائی رکھنے میں پریشانی ہوتی ہے۔ عرضی گزار کے مطابق اگر گھروں میں جانوروں کو مارنے کی اجازت دی گئی تو گندگی پر قابو پانا مشکل ہو جائے گا، اس لیے اس کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔ اسی عرضی پر سماعت کرتے ہوئے عدالتی بنچ نے گھروں میں قربانی نہ کرنے کی ہدایت دی۔ ساتھ ہی عدالت نے یہ بھی کہا کہ سوسائٹیز کے ایک کلو میٹر کے دائرے میں بھی جانوروں کی قربانی نہیں دی جائے گی۔
میڈیا سے ملی اطلاع کے مطابق عرضی گزار این جی او نے جانوروں کے ذبح کیے جانے پر گندگی پھیلنے کا خدشہ تو ظاہر کیا ہے، ساتھ ہی ماحولیات پر برا اثر پڑنے کا بھی حوالہ دیا ہے۔ انھوں نے کہا کہ کئی بیمار جانوروں کو شہر میں ذبیحہ کے مقصد سے لایا جا رہا ہے جن سے بیماریاں پھیل سکتی ہیں۔ اس کے علاوہ این جی او نے ممبئی کے چال (جھگی جھونپڑی والے علاقے) میں مختلف مذاہب سے منسلک لوگوں کے رہنے کا حوالہ بھی پیش کیا۔ انھوں نے کہا کہ یہاں الگ الگ طرح کا عقیدہ رکھنے والے لوگ رہتے ہیں، جنھیں جانوروں کو گھروں میں ذبح کرنے سے پریشانی ہوگی۔
بہر حال، عدالت نے اپنے فیصلے میں یہ ضرور کہا کہ قربانی یا جانوروں کے ذبیحہ پر پوری پابندی نہیں ہوگی بلکہ اس کے لیے طے شدہ مقامات ہوں گے تاکہ کسی طرح کی پریشانی نہ ہو۔ طے شدہ مقامات کے بارے میں عدالت نے بتایا کہ جانوروں کا ذبیحہ ایسی جگہ پر ہو جہاں صاف صفائی کا اچھا انتظام ہو۔ ساتھ ہی اس کے لیے بی ایم سی کی اجازت لینا بھی لازمی ہوگا۔ یہاں قابل ذکر ہے کہ بی ایم سی نے بقرعید کے پیش نظر 7 ہزار پرمٹس جاری کیے تھے لیکن عدالتی حکم کے بعد یہ پرمٹس غیر قانونی ہو گئے ہیں۔ اس سے واضح ہے کہ صرف لائسنس یافتہ بوچڑ خانوں میں قربا نی کا جانور ذبح کیا جا سکے گا یا پھر ایسے بازاروں میں جہاں ’نان ویج‘ کی اجازت ہو۔
واضح رہے کہ دہلی میں این جی ٹی (نیشنل گرین ٹریبونل) نے عید قرباں کے پیش نظر ہدایت دی ہے کہ گندگی کسی بھی حال میں جمنا میں نہ جانے پائے، لیکن قربانی پر کسی طرح کی پابندی دہلی میں نہیں ہے۔ کئی ریاستوں میں صاف صفائی رکھنے اور ماحولیات پر منفی اثر پڑنے سے بچانے کے لیے کچھ ہدایات ضرور جاری کیے گئے ہیں، لیکن ہائی کورٹ نے ممبئی میں جس طرح کی پابندی عائد کی ہے، اس سے اقلیتی طبقہ کا پریشان ہونا فطری ہے۔