آننت کمار ہیگڈے۔ جو صرف ہندووادی ہونے کی اداکاری کرتا ہے ’کراولی منجاؤ‘کے چیف ایڈیٹر گنگا دھر ہیرے گُتّی کے قلم سے
بھٹکل 3/فروری (ایس او نیوز) اُترکنڑا کے رکن پارلیمان آننت کمار ہیگڈے جن کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ عین انتخابات کے موقعوں پر متنازعہ بیانات دے کر اخبارات کی سُرخیاں بٹورتے ہوئے انتخابات جیتنے میں کامیاب ہوتا ہے، اُس کے تعلق سے کاروار سے شائع ہونے والے معروف کنڑا روزنامہ کراولی منجاو کے ایڈیٹر نے سنڈے ایڈیشن میں اپنے خیالات کا اظہار کیا ہے، جس کا اُردو ترجمہ یہاں پیش کیا جارہا ہے۔
’’ہند و لڑکیو ں کے جسم کو چھونے والے ہاتھ کاٹ دئے جائیں۔‘‘ یہ ہمارے رکن پارلیمان اننت کمار ہیگڈے کا بیان ہے جو ان کے دسیوں متنازع بیانات میں سے ایک ہے، جس کے ذریعے انہوں نے ایک اور پانسہ پھینکا ہے۔اننت کمار ہیگڈے کو اگرکوئی کٹرپنتھی یا کٹر وادی مہابرہمن اور منووادی سمجھتا ہے تو پھر یہ غلط ہے۔ اگر اس لحاظ سے کسی کے پاس کوئی اہلیت ہے اور کسی کو ایسی کوئی ڈگری دی جاسکتی ہے تو وہ ہمارے ضلع میں سرسی کے رکن اسمبلی اور سابق وزیر وشویشورا ہیگڈے کاگیری ہیں جو اس کے قابل ہیں۔
جہاں تک اننت کمار ہیگڈے کا معاملہ ہے وہ سیاسی مفاد کے لئے متنازع بیانات کو چارے کے طور پراستعمال کرتے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ ایسے میں اگر مخالف پارٹیوں کی جانب سے ان کی مخالفت ہوتی ہے تو پھر یہ ان کے لئے عوامی مقبولیت کا سبب ہوتی ہے۔فی الحال وہ رکن پارلیمان کی حیثیت سے اپنی ناکامیوں کی وجہ سے پیش آنے والی صورتحال سے گزر رہے ہیں۔اس کی وجہ سے اگر انہیں کوئی انتہا پسند، ہندو وادی اور اقلیتوں کو قصوروار ٹھہرانے والا فرقہ پرست مانتا ہے تو وہ ان کی اپنی عقل اور سوچ کی حد ہے۔ وہ بے شک منو وادی نہیں ہے۔ ذات پات کے نظام والے ہندو دھرم میں برہمنوں کے ایک محافظ کے طور پر ان کو دیکھنابس ایک چھلاوہ ہے۔ وہ ہر گھڑی گرگٹ کی طرح ایک رنگ بدلنے والی شخصیت ہے۔ وہ نئے زمانے کے چانکیہ کی طرح عقل اور زبان کی طاقت سے کمزور شودروں کو اپنی عسکری طاقت بناکر ان کے دلوں میں اقلیتوں کے خلاف زہر گھولنا اور انہیں دیش مخالف قرار دے کر اپنے فوجیوں کو قربان کرنے والے انسان ہیں۔ سماجی ترقی کے مقابلے میں صرف فرقہ پرستی کو ہوا دینے میں کامیاب ہوئے ہیں۔
گزشتہ پانچ میعادوں میں کسی ایک تعمیری کام کی بنیاد رکھنے کی کوئی خبریا کسی منصوبے کے افتتاح کاپروگرام ان کے نام نہیں ہے۔ تو پھرسوال اٹھ سکتا ہے کہ کروڑوں روپے کے ایم پی فنڈ کاانجام کیا ہوا۔اس لئے انہوں نے اسے فرقہ واریت کا موضوع چھیڑ کر دبا رکھا ہے۔ لیکن وہ بے شک فرقہ پرست نہیں ہیں ۔ وہ محض ایک افیون ہے جو عوامی نمائندہ بننے کے لئے عوام کو کھلارہے ہیں۔ وہ کبھی بھی ہندو دھرم یا ہندوؤں کے مفاد کے لئے رہے ہی نہیں۔ یہ صر ف ان کے لئے ایک لبادہ ہے۔یہ بیانات سب ناٹک ہیں۔ وہ دیش، ذات اور دھرم کے چاہنے والے بھی نہیں ہیں۔ صرف خودپسند اور خود پرست آدمی ہیں۔ ایک بات یاد رکھئے کہ اپنی ذمہ داریاں نبھانے میں ناکام ہونے والے عوام کے سامنے اس کا اعتراف کرنے میں شرمندگی محسوس کرتا ہے۔مگر اس ناکامی کو بھی جو اپنی عیاری اور چالاکی سے سماجی اقدار کی شکل میں پیش کرتے ہوئے سڑک چھاپ ناٹک کے طرز پر ڈائیلاگ بازی کرتا ہے اور اداکاری کیا کرتا ہے، وہ اننت ہے!