کرونا وائرس: گھر گھر دفتر کھل گئے
واشنگٹن،21؍مارچ (ایس او نیوز؍ایجنسی) کرونا وائرس کے بحران کے نتیجے میں پوری دنیا کے سرکاری اور نجی ادارے اپنے ملازمین کو گھر سے کام کرنے کا موقع فراہم کر رہے ہیں اور بہت سے ادارے اپنے ملازمین کو ان کے گھروں میں ہی ٹیلی ورکنگ کی آن لائن ٹریننگ دے کر ان سے کام کروا رہے ہیں۔ اور یوں، دنیا بھر کے لاکھوں ملازمین کو گھر سے دفتر کا کام کرنے کا ایک منفرد تجربہ ہو رہا ہے۔
بہت سے مقامات پر ایک ہی گھر کے مختلف حصوں میں گھر کے افراد نے اپنے اپنے کمپیوٹرز یا لیپ ٹاپس کے ساتھ اپنے دفتر کھول رکھے ہیں۔
کرونا بحران نے ٹیلی ورکنگ کی اہمیت اور افادیت کو اجاگر کر دیا ہے اور اس مشکل صورت حال میں یہ اداروں کے کام کا پہیہ چلنے کا ایک موثر ذریعہ بن کر سامنے آیا ہے۔ امریکہ اور یورپ میں ٹیلی ورکنگ کا سلسلہ بہت سے اداروں میں بہت عرصے سے جاری ہے۔ لیکن، کیا اس بحران کے بعد اس سلسلے میں اضافہ کیا جائے گا؟ اور کیا دنیا کے دوسرے ملکوں میں جہاں ٹیلی ورکنگ کو ابھی تک متعارف نہیں کرایا گیا، کرونا بحران کے بعد اس سسٹم کو متعارف کرایا جائے گا یا کرایا جا سکتا ہے؟ وائس آف امریکہ نے اس بارے میں پاکستان اور دنیا بھر سے ملازمین اور ماہرین سے انٹرویوز کیے ہیں۔
ٹورانٹو کینڈا میں انرجی کی ایک امریکی کمپنی کے پروگرام مینجر اور ریئل اسٹیٹ کے ایک کامیاب بزنس مین طاہر رمزی نے وائس آف امریکہ کو ایک انٹرویو میں بتایا کہ کرونا بحران نے اگرچہ لوگوں کے لیے بہت سے مسائل پیدا کیے، لیکن اس سے ایک مثبت پہلو اس سوچ کی صورت میں سامنے آیا کہ کام کےلیے دفتر جانا ضروری نہیں ہوتا۔ گھر بیٹھ کر بھی دفتر کا کام اسی کامیابی سے کیا جا سکتا ہے، جیسا کہ وہاں جا کر کیا جاتا ہے۔ اور اس سے ملازمین کے ساتھ ساتھ آجروں کو بھی بہت سے مالی اور انتظامی فائدے حاصل ہو سکتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اس سے پہلے یہ سوچ اور یہ سسٹم بہت سے دفاتر میں موجود تھا۔ لیکن، اب اس بحران کےدوران ایک پریکٹیکل مثال کے طور پر سامنے آیا ہے اور اب یقینی طور پر ادارے اس سسٹم کو کسی نہ کسی معقول انداز میں اپنانے کی کوشش ضرور کریں گے۔