بابری مسجد کی جگہ پر رام مندر تعمیر ہونےکے بعد، یکے بعد دیگرے مزید مسلم عبادت گاہیں نشانے پر؛ اب اجمیر کی ایک اور مسجد کی باری
اجمیر 30/نومبر(ایس او نیوز) بابری مسجد کی شہادت، پھر اُس جگہ پر رام مندر کی تعمیر کے بعد یکے بعد دیگرے مسلمانوں کی عبادت گاہوں کو نشانہ بنانے کا سلسلہ شروع ہوچکا ہے۔ اُترپردیش کے سنبھل کی شاہی جامع مسجد کے سروے کے بعد راجستھان میں واقع معروف اجمیر کے درگاہ کا تنازعہ ابھی جاری ہی تھا کہ اجمیر میں ہی واقع قدیم مسجدوں میں سے ایک ’ڈھائی دن کا جھونپڑا‘ نامی مسجد بھی شدت پسند ہندو تنظیموں کے نشانے پر آگئی ہے۔ نیا تنازعہ اُس وقت پیدا کیا گیا جب اس مسجد میں پڑھی جانے والی نماز پر اعتراض جتا کر نماز پڑھے جانے کو روکنے کی کوشش کی گئی۔
میڈیا میں آئی رپورٹوں کے مطابق کچھ دن قبل ہندو اور جین مذہب سے تعلق رکھنے والے سَنت اس مسجد پہنچے تھے اور نماز پڑھے جانے پر ناراضگی کا اظہار کیا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ یہاں کے گربھ گرہ اور باہر کی دیواروں کے کھمبوں پر ہندو-جین مندر کا طرز تعمیر دیکھا جا سکتا ہے۔ اس لیے یہاں نماز نہیں پڑھی جانی چاہیے۔
اس مسجد کے تعلق سے بتایاجارہا ہے کہ یہاں پر تنازعہ رواں سال کے شروع میں اس وقت بھی ہوا تھا جب ایک جین سادھو اسے دیکھنے کے لیے پہنچے تھے۔ اس وقت انھیں کچھ لوگوں نے اندر داخل ہونے سے روک دیا تھا۔ جس کے بعد ہنگامہ پیدا ہو گیا تھا، کیونکہ یہ مسجد ایک سیاحتی مقام ہے۔ اس کی دیکھ ریکھ کی ذمہ داری ہندوستانی محکمہ آثار قدیمہ کی ہے۔ اس واقعہ کے بعد اجمیر سمیت ملک بھر کے جین طبقہ نے انتظامیہ کے سامنے اپنا اعتراض ظاہر کیا تھا۔
میڈیا رپورٹوں کے مطابق یہ مسجد 1192ء میں افغان سپہ سالار محمد غوری کے حکم پر قطب الدین ایبک نے بنوایا تھا۔ ہندو تنظیموں کا دعویٰ ہے کہ اس جگہ پر ایک بہت بڑا سنسکرت اسکول اور مندر تھا، جنھیں توڑ کر مسجد تعمیر کی گئی۔اس کے صدر دروازے کے بائیں طرف سنگ مرمر کی بنی ایک نقاشی بھی ہے جس پر سنسکرت میں لکھا ہوا ہے۔ اس مسجد میں مجموعی طور پر 70 ستون ہیں۔ کہا جارہا ہے کہ ستون ان مندروں کے ہیں جنھیں منہدم کر دیا گیا تھا، لیکن ستون کو اسی حالت میں چھوڑ دیا گیا تھا۔ ان ستونوں کی اونچائی تقریباً 25 فیٹ ہے اور ہر ستون پر خوبصورت نقاشی کی گئی ہے۔
رپورٹوں کے مطابق محمد غوری جب پرتھوی راج چوہان کو شکست دینے کے بعد اجمیر سے گزر رہا تھا تو اسی دوران ان کی نظر اس جگہ پر پڑی تھی۔ غوری نے سپہ سالار قطب الدین ایبک کو حکم دیا کہ یہاں سب سے مناسب جگہ پر مسجد کی تعمیر کی جائے۔ غوری نے اس کی تعمیر کے لیے 60 گھنٹوں، یعنی ڈھائی دن کا وقت لیا۔ مزدوروں نے بغیر رکے لگاتار 60 گھنٹے کام کر اس مسجد کی تعمیر کی تھی۔