کرناٹک میں حجاب کے بعد اب پگڑیوں کی باری؛ بنگلور کی ایک کالج میں سکھ طالبہ کو پگڑی اُتارنے کا دیا گیا حکم
بنگلورو 24 فروری (ایس او نیوز) کالج میں مسلم طالبات کو داخل ہونے سے روکنے کے بعد ایک طرف نہ صرف کرناٹک کے مسلمان ، بلکہ ملک بھر کے مسلمان تشویش میں مبتلا ہیں اور ہائی کورٹ کے فیصلے کا انتطار کررہے ہیں، اب مسلمانوں کے بعد سکھ کمیونٹی کے افراد بھی تشویش میں مبتلا ہوگئے ہیں کیونکہ آج جمعرات کو بنگلور کی ایک کالج میں ایک طالبہ کو پگڑی اُتارنے کی ہدایت دی گئی ہے اور کہا گیا ہے کہ اُسے پگڑی پہن کر کالج میں داخل ہونے نہیں دیا جائے گا۔
میڈیا میں آئی رپورٹوں کے مطابق بنگلور کی معروف مونٹ کارمل پی یو کالج میں یہ واقعہ پیش آیا ہے جہاں 10 فروری کے ہائی کورٹ کے عبوری حکم کا حوالہ دیتے ہوئے سکھ کمیونٹی سے تعلق رکھنے والی ایک طالبہ کو کہا گیا کہ وہ اپنے سرکی پگڑی کو اُتار دے۔
اگرچہ حجاب کو لے کر ریاست بھر کے کالجوں میں بڑے پیمانے پر مظاہرے ہوئے ہیں اور مظاہروں کا سلسلہ ہنوز جاری ہے، مگر بنگلور میں حجاب کو لے کر معاملے گرم نہیں تھے مگر اب پگڑی کو لے کر معاملہ سامنے آنے کے بعد کہا جارہا ہے کہ حکام اب اپنی سرحدوں کو عبور کررہے ہیں اور تازہ واقعے کے بعد یہ حساس مسئلہ دوسری کالجوں میں بھی پھیلنے کا خدشہ بڑھ گیا ہے۔
ہائی کورٹ کے خصوصی بنچ نے بدھ کے روز واضح کیا تھا کہ جب تک عدالت میں حجاب معاملہ کو لے کر فیصلہ نہیں سنایا جاتا اُس وقت تک اُن کالجس میں جہاں پہلے سے یونیفارم کا قانون لاگو ہے، صرف یونیفارم میں ہی طلبہ کو آنا ہوگا ، کسی زائد کپڑے کو قبول نہیں کیا جائے گا۔ اس وضاحت کے بعد پتہ چلا ہے کہ پنجاب یونیورسٹی اور گریجویشن کالجوں کے کلاس رومز میں طلبہ کو مذہبی علامتوں والے کپڑوں کی اجازت نہیں دی گئی ہے۔
اطلاع کے مطابق جب کالج کی طالبات کو حجاب اُتارنے کے لئے کہا گیا تو طالبات کے والدین نے مطالبہ کیا کہ ہائی کورٹ کے حکم کو تمام طالبات پر یکساں طور پر لاگو کیا جائے۔ مسئلہ اس وقت شروع ہوا جب پیر کو پریکٹیکل امتحانات کے دوران کالج کا معائنہ کرنے پہنچے پی یو ایجوکیشن کے ڈپٹی ڈائریکٹر جی سری رام نے عدالت کے حکم کے مطابق دو طالبات کو حجاب اتارنے کی ہدایت دی جس سے طلبہ میں غم و غصہ پھیل گیا اور مزید طلبہ نے اس کے خلاف شدید احتجاج کیا۔
کالج حکام نے کئی میٹنگیں کیں اور طلباء سے کہا کہ وہ احکامات پر عمل کریں اگرچہ کالج کے حکام نے کامیابی کے ساتھ طلباء کی اکثریت کو قائل کر لیا، لیکن چند ایک نے اصرار کیا کہ اگر وہ حجاب کو ہٹانا چاہتے ہیں، تو دوسروں کو بھی مذہبی علامات پہننے کی اجازت نہیں ہونی چاہیے۔
دریں اثنا، ماؤنٹ کارمل پی یو کالج کے حکام نے ایک سکھ طالبہ کو ہائی کورٹ کے حکم پر عمل کرنے کے لیے اپنی پگڑی اتارنے کو کہا۔ حکام نے اس کے بارے میں اس کے والد کو بھی میل کیا۔ لڑکی کو 16 فروری کو اپنی پگڑی اتارنے کے لیے کہا گیا تھا لیکن اُس نے پگڑی اُتارنے سےانکار کیا ۔ تاہم، جب پی یو ایجوکیشن کے ڈپٹی ڈائریکٹر جی سری رام نے کالج کا دورہ کیا اور طلباء سے حجاب نہ پہننے کے لیے کہا، تو انہوں نے مطالبہ کیا کہ وہ صرف حجا ب نہیں دیگر مذہبی علامات پہننے والوں کو بھی روکیں۔ جس کے بعد متعلقہ سکھ طالبہ کو پگڑی اُتارنے کی ہدایت دی گئی۔سکھ طالبہ کے اہل خانہ نے کالج حکام کو صاف طور پر کہا ہے کہ وہ اپنی پگڑی نہیں اتاریں گے اور اس معاملے پر قانونی رائے لیں گے۔
میڈیا میں آئی رپورٹوں کو مانیں تو ماونٹ کارمل کالج کے ترجمان کا کہنا ہے ہمیں لڑکیوں کی پگڑی پر کوئی اعتراض نہیں تھا، لیکن جب 16 فروری کو کالج دوبارہ کُھلا تو ہم نے تمام طلبہ کو ہائی کورٹ کے حکم سے آگاہ کیا ۔ منگل کو جب ڈی ڈی پی یو نے کالج کا دورہ کیا تو اُسے حجاب میں لڑکیوں کا ایک گروپ ملا۔ اُنہیں دفتر میں بلا کر جب ہائی کورٹ کے حکم کے بارے میں بتایا گیا تو لڑکیوں نے مطالبہ کیا کہ اگر ہمیں حجاب سے روکا گیا تو کالج میں دوسرے مذاہب والوں کو بھی مذہبی علامات والے کپڑے پہننے کی اجازت نہیں ہونی چاہئے۔ ان طالبات نے سکھ لڑکی کی پگڑی کی طرف اشارہ کیا، جس پر ہم نے سکھ لڑکی کے والدسے بات چیت کی اور بعد میں اُسے ای میل بھی بھیجا، لیکن طالبہ کے والد نے کہا کہ پگڑی ان کی زندگی کا ایک لازمی حصہ ہے۔ لڑکی کے والد گروچرن سنگھ نے کالج انتظامیہ کو بتایا کہ ان کی بیٹی پگڑی نہیں اُتارے گی۔ انہوں نے اس مسئلہ کو اب گروسنگھ سبھا کے ایڈمنسٹریٹر جیتیندر سنگھ کے روبرو پیش کی ہے، ساتھ ساتھ وہ دیگر وُکلاء اور مختلف تنظیموں سے بھی رابطہ کررہے ہیں۔