بھٹکل جامعہ اسلامیہ سے 96 طلبہ نے حاصل کی عالمیت کی سند، 35 طلبہ بنے حافظ قرآن؛ الوداعی تقریب میں طلبا نے مرحوم رہبروں کو پیش کیا خراج عقیدت
بھٹکل 4 مارچ (ایس او نیوز/پریس ریلیز) امسال بھٹکل جامعہ اسلامیہ سے 96 طلبہ عالمیت کی سند حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے جبکہ 35 طلبہ نے حافظ قران بننے کا شرف حاصل کیا۔ اس موقع پر 2 اور 3 مارچ کو تین نشستوں میں الوداعی تقریب کا اہتمام کیا گیا تھا جس میں فارغین نے اپنے تاثرات پیش کرتے ہوئے ان محسنین و معاونین کے احسانات کو یاد کرکے شکریہ ادا کیا جنھوں نے اس تعلیمی سفر میں ان کی ہر طرح سے رہنمائی کی، اور طلبا نے مرحوم رہبروں کا بھی تذکرہ کرتے ہوئے انھیں خراج عقیدت پیش کیا۔ فارغین نے ایک طرف جامعہ سے استفادہ کی مختلف شکلوں اور کیفیات کو بیان کیا تو دوسری طرف جامعہ کی طرف سے عطا کردہ سہولیات سے بھرپور فائدہ نہ اٹھانے پر افسوس کا بھی اظہار کیا، اپنے اساتذہ و نگراں کی محنتوں کو سراہتے ہوئے ان کے حق میں دعائے خیر کے ساتھ ہی بانیان جامعہ، اور محبان جامعہ کی تگ و دو پر شکر بجالاتے ہوئے جامعہ کی ترقی اور نیک نامی کے لئے دعا کیں۔
الوداعی تقریب کی تیسری اور آخری نشست جمعرات صبح نو بجے منعقد ہوئی، جس کا آغاز حافظ قتادہ رکن الدین کی تلاوت سے ہوا۔ احمد یسع نے استقبالیہ پیش کرتے ہوئے اس بات کی طرف توجہ دلائی کہ ان طلبہ کے احساسات کو قصہ گوئی نہ سمجھیں بلکہ ان کے اہم اور مفید پہلوؤں پر غور کرتے ہوئے عمل میں لانے کی فکر کریں۔
طلبہ نے اپنی زندگی کی روداد میں اپنے بچپن کی اٹھکیلیوں سے لے کر جوانی کی مشقتوں کا تذکرہ کیا اور اپنے سکھ دکھ کے حالات کو بیان کرتے ہوئے مادر علمی سے حاصل شدہ فوائد کو سامعین کے گوش گزار کیا ۔طلبہ نے دارالعلوم، دارالاقامۃ، دارالکتب، کتب خانہ اور لجنہ کی افادیت پر روشنی ڈالی اور جامعہ کے در و دیوار سے اپنا ربط قائم رکھنے کا عزم ظاہر کیا۔ یہاں کے اساتذہ کی نمایاں صفات، جمال تکلم، تواضع و انکساری اور محبت کا ذکر کرتے ہوئے چمن کی آبیاری میں مہتمم جامعہ، سابق صدر جامعہ مولانا اقبال صاحب ملا ندوی اور سابق مہتمم جامعہ مولانا عبدالباری صاحب فکردے ندوی علیھم الرحمۃ کی خدمات کی سراہنا کرتے ہوئے ان کا خصوصی شکریہ ادا کیا اور مرحومین کےلیے دعائے مغفرت کی۔
اس موقع پر عالیہ ثالثہ کی طرف سے رویض عیدروسہ نے فارغین کو الوداعی پیغام میں زمانہ کے حملوں اور مصائب سے نہ گھبرانے اور ڈٹ کر ان کا مقابلہ کرنے کی وصیت کی ، ساتھ ہی حضرت مولانا علی میاں رحمۃ اللہ علیہ کا الوداعی پیغام سنا کر فارغین کو جھنجھوڑ کر کہا کہ
بڑھو آگے ابھی تاریکیوں میں شمع حق لے کر؛ چلو تم نرم گفتاری کی خُو حق کا سبق لے کر
زمانہ لاکھ برہم ہو مگر سچ بولنا ہوگا؛ ڈرائے گا زمانہ پر تمہیں لب کھولنا ہوگا
فراست کی چمک سے دل سدا آباد رکھنا ہے؛ تو حکمت کے بھی موتی اپنے ہونٹوں پر سجانا ہے
اس کے ساتھ اخلاص، جذبہ قربانی، جوہر ذاتی اور اتحاد و اتفاق کی طرف توجہ دلائی اور مادیت پرستی میں گھری انسانیت کو توحید کا جام پلانے پر زور دیا۔
تقریب کے دوران عزیزی دانش شنگیٹی نے مولانا سمعان خلیفہ ندوی کی لکھی ہوئی نظم فارغین کے احساسات کی ترجمانی کو بہت ہی خوبصورت انداز میں پیش کیا، جب کہ عبداللہ عتبان شریف نے فارغین کے لیے تیار کردہ مولوی سالک برماور ندوی کی الوداعی نظم سنا کر اپنی خوش گلو آواز سے سامعین کو محظوظ کیا۔
ملحوظ رہے کہ امسال ناگفتہ بہ حالات کے پیش نظر علیا اولیٰ (فضیلت اول) کا درجہ جامعہ ہی میں رکھا گیا تھا جس میں خصوصاً استاد دارالعلوم ندوۃ العلماء مولانا عبدالرشید صاحب راجستھانی ندوی اپنی تعلیمی خدمات انجام دے رہے تھے، ان طلبہ کی نمائندگی کرتے ہوئے مولوی انظر گوائی نے اپنے تاثرات کا اظہار کیا اور جامعہ کی ان سہولیات پر شکریہ ادا کرتے ہوئے نیک خواہشات کا اظہار کیا۔
جلسہ کی نظامت سلمان کولا، عبدالبر صدیقی، ابوالحسن مولوی اور سہل کولا نے بحسن و خوبی انجام دی، نیز عبدالبر صدیقی نے عالیہ ثالثہ کی طرف سے تمام مہمانان، فارغین و سرپرستان، اساتذہ و ذمہ داران اور جلسہ میں شریک علماء و عمائدین و عوام کا تہہ دل سے شکریہ ادا کیا۔
مہتمم جامعہ مولانا مقبول احمد کوبٹے ندوی نے تمام فارغین اور ان کے سرپرستان کو دلی مبارکباد پیش کی اور فارغین کے علی رووس الاشھاد کیے گئے وعدوں پر قائم رہنے کی تاکید کی۔ بطور خاص سابق صدر جامعہ اور سابق مہتمم جامعہ کا ذکر کرتے ہوئے ایسی نشستوں میں ان کی شرکت اور ہمت افزا کلمات کو یاد کیا۔ اخیر میں سابق مہتمم جامعہ مولانا محمد فاروق صاحب قاضی ندوی نے اس جلسہ کے متعلق اپنے خیالات کا اظہار فرمایا اور دعا پر الوداعی تقریب کا اختتام کیا۔