بھٹکل میں قائم پرائمری کوویڈ کیئر سینٹر سے اب تک 81 مریضوں نے کیا استفادہ، سانس لینے میں دشواری ہوتے ہی سینٹر سےرجوع ہونے ذمہ داران کی اپیل
بھٹکل 23 ستمبر (ایس او نیوز) اپریل اور مئی میں بھٹکل میں کوویڈ کے بڑھتے مریضوں اور بعض لوگوں کے جان سے ہاتھ دھونے کے معاملات سامنے آنے کے بعد اگست کے پہلے ہفتہ میں قائم پرائمری کوویڈ کیئر سینٹر سے اب تک 81 افراد نے استفادہ کیا جس میں سے اکثر مریض سینٹر میں ہی زیرعلاج رہ کر صحت یاب ہوئے جبکہ 21 مریضوں کو مینگلور یا دیگر اسپتالوں میں شفٹ کرایا گیا۔ اس بات کی جانکاری پرائمری کوویڈکئیر سینٹر کے کنوینر جناب ایس ایم ارشد نے دی۔ وہ یہاں قومی سماجی ادارہ مجلس اصلاح و تنظیم دفتر میں بدھ کی دوپہر اخبار نویسوں کو معلومات فراہم کررہے تھے۔
جناب ارشد نے بتایا کہ کورونا وباء جب بھٹکل میں پھیلنے لگی تھی تو یہاں کے عوام کو علاج کی خاطر خواہ سہولت نہیں تھی، اکسیجن کی کمی ہونے پر مینگلور یا اُڈپی لے جانا ضروری تھا اور تین چار گھنٹوں کے سفر پر مینگلور کے اسپتالوں میں داخلہ ملنا بھی آسان نہیں تھا، عوام کی پریشانیوں کو دیکھتے ہوئے مجلس اصلاح و تنظیم، انڈین نوائط فورم اور بھٹکل مسلم خلیج کونسل کے مشترکہ تعاون سے بھٹکل میں ہی پرائمری کوویڈ کیئر سینٹر قائم کیا گیا جہاں تین ماہر ڈاکٹروں کی بھی خدمات حاصل کی گئی اور بالخصوص سانس لینے میں تکلیف ہونے پر اس سینٹر میں فوری طور پر مریض کو اکسیجن فراہم کرنے کی سہولت فراہم کی گئی۔
جناب ارشد کے مطابق اگر کسی میں سانس لینے کی تکلیف ہو یا اکسیجن میں کمی ہوتو گھر والوں کو چاہئے کہ وہ فوری بھٹکل میں قائم پرائمری کوویڈ کئیر سینٹر میں مریض کو پہنچائیں اور اس تعلق سے بالکل غفلت نہ برتیں۔ انہوں نے بتایا کہ اکسیجن میں کمی ہونے کی وجہ سے اگر بروقت مریض کو اکسیجن فراہم نہیں کی جائے گی تو پھر اس کا اثر گردوں پر یا ہارٹ پر پڑ سکتا ہے اور اگر جسم کے دیگر آرگن اس سے متاثر ہوں گے تو پھر مریض کو بچانا ممکن نہیں ہوگا، یہی وجہ ہے کہ اکثر لوگ مریضوں کو سانس لینے میں دشواری ہونے کے باوجود ڈاکٹروں سے رجوع نہیں کرتے اور انہیں فوری طور پر اکسیجن فراہم نہیں کرتے، اور ڈاکٹر سے رجوع اس وقت کرتے ہیں جب مریض آخری سانسیں گن رہا ہوتا ہے، ایسا کرنے سے مریضوں کو جان سے ہاتھ دھونا پڑتا ہے۔ اگر آخری مراحل میں مریض کو سینٹر لایا جائے گا تو پھر انہیں بچانا مشکل ہوجائے گا، انہوں نے کہا کہ آج کل بھٹکل میں کورونا کو لے کر لاپرواہی دیکھی جارہی ہے اور مریض کو بالکل آخری لمحوں میں کوویڈ کئیر سینٹر لایاجارہا ہے جس کی وجہ سے مریض کو ابتدائی طبی امداد فراہم کرنے کے بعد مینگلور اسپتال زائد علاج کےلئے روانہ کرنا پڑتا ہے۔ لیکن اگر اکسیجن کی کمی ہونے کی بات معلوم ہوتے ہی فوری علاج کے لئے کوویڈ کئیر سینٹر لائیں گے تو انہیں اُسی وقت اکسیجن فراہم کرائی جاسکتی ہے اور کورونا وائرس کو جسم کے دیگر حصوں کو متاثر کرنے سے روکا جاسکتا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ بھٹکل پرائمری کوویڈ کئیر سینٹر میں اکسیجن فراہم کرنے کا بہترین انتظام کیا گیا ہے ، یہاں مریضوں کے لئے 28 بستروں کا انتظام کیا گیا ہے، مریض کو فوری طور پر اُڈپی یا مینگلور شفٹ کرانا ہو تو مکمل سہولیات والی ایمبولنس بھی دستیاب ہے۔ ماہر اور تجربہ کار ڈاکٹروں کے علاوہ پوری میڈیکل ٹیم یہاں موجود ہے، وقت ضرورت مینگلور کے ماہرین سے بھی مشورہ لیا جاتا ہے۔ ایس ایم ارشد نے بتایا کہ بھٹکل کے ساتھ ساتھ قریبی علاقوں ہوناور اور ہوناور کے شراوتی بیلٹ، کمٹہ، سرسی اور ساگر وغیرہ علاقوں سے بھی مریض اس سینٹر سے استفادہ کررہے ہیں۔
مینگلور یا اُڈپی اسپتالوں میں جہاں ایک کوویڈ مریض کو داخل کرنے پر روزانہ چھ ہزار، آٹھ ہزار اور دس ہزار روپیہ وغیرہ چارج لیا جاتا ہے، بھٹکل پرائمری کوویڈ کیئر سینٹر میں صرف 2500 روپیہ فی دن کے حساب سے چارج لیا جاتا ہے، جس میں ڈاکٹر سمیت نرسنگ فیس بھی شامل ہے۔ اگر مریض کو فوری طور پر مینگلور لے جانے کی ضرورت ہوئی تو ایمبولنس سروس بھی فراہم کی گئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ سینٹر عوام کی سہولت کے لئے قائم کیا گیا ہے اور اس سینٹر پر ماہانہ لاکھوں روپیہ پاکٹ سے خرچ کیا جارہا ہے اور اس کا اصل مقصد ہی یہی ہے کہ کوویڈ کے مریضوں کا فوری طور پر علاج معالجہ کیا جاسکے اور انہیں مینگلور یا اُڈپی جانے کی ضرورت نہ پڑے۔
پریس کانفرنس کی صدارت تنظیم کے صدر جناب ایس ایم پرویز نے کی، تنظیم نائب صدراور پرائمری کوویڈ کئیر سینٹر کے جوائنٹ کنوینر عتیق الرحمن مُنیری بھی اس موقع پر موجود تھے جنہوں نے عوام سے کوویڈ کئیر سینٹر سے استفادہ حاصل کرنے کی درخواست کی، تنظیم جنرل سکریٹری عبدالرقیب ایم جے ندوی، انڈین نوائط فورم کے صدر عبدالمجید جوکاکو، جنرل سکریٹری معاذ جوکاکو، بھٹکل مسلم خلیج کونسل کی طرف سے محی الدین رکن الدین و دیگر ذمہ داران نے بھی اپنے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔