60 کروڑ آدھار نمبر پہلے ہی این پی آرسے جوڑے جا چکے ہیں
نئی دہلی،19/جنوری (ایس او نیوز/ایجنسی) اس وقت اس بات کو لے کر تنازعہ چل رہا ہے کہ این پی آر کو آدھار کے ساتھ جوڑا جائے گا یا نہیں۔ کئی میڈیا رپورٹس میں یہ بتایا گیا ہے کہ این پی آر کو آدھار نمبر کے ساتھ جوڑا جائے گا۔ لیکن وزارت داخلہ کا یہ کہنا ہے کہ کسی بھی شخص کو کوئی بھی دستاویز دینے کو مجبور نہیں کیا جائے گا۔ حالانکہ سچائی یہ ہے کہ این پی آر، 2020 کی کارروائی شروع کرنے سے پہلے ہی تقریباً60 کروڑ آدھار نمبر کو این پی آر ڈیٹا بیس کے ساتھ جوڑا جا چکا ہے۔ یہ تعداد کل جاری کئے گئے آدھار نمبر کا لگ بھگ 50 فیصدی ہے۔ دی وائر کے ذریعے حاصل کی گئی دستاویزوں سے یہ انکشاف ہوا ہے۔ ان 60 کروڑ آدھار نمبروں کو این پی آر سے جوڑنے کا کام مودی سرکار کی پچھلی مدت کار کے دوران کیا گیا تھا۔
کمشنر (ہندوستان کے رجسٹرار جنرل) دفتر کی 19/جولائی 2019 کی ایک فائل نوٹنگ کے مطابق، سال 2015 میں آدھار نمبر کو اپ ڈیٹ کرنے کے کام کے دوران اس کو این پی آر کے ساتھ جوڑا گیا تھا۔ نوٹنگ میں آگے لکھا گیا۔ اس کے ساتھ ہی نئے گھر کے ممبروں کی آبادی کی تفصیلات بھی جمع کی گئی تھیں۔ تقریباً 60 کروڑآدھار نمبروں کو این پی آر ڈیٹابیس کے ساتھ جوڑا جا چکاہے۔ واضح ہو کہ دسمبر 2017 میں رجسٹرار جنرل کے دفتر نے این پی آر سے ڈیٹا شیئر کرنے کے ریاستی حکومتوں کے مطالبہ کو ٹھکرا دیا تھا۔ اس کے لیے وجہ دی گئی تھی کہ اس سے پرائیویسی تحفظ کی فکر ہے۔ حالانکہ مرکزی حکومت کے پاس ان اعداد و شمار کا ایکسیس ہے۔ ریاستوں نے مستفید ہونے والوں کو فلاحی اسکیموں کی ادائیگی کے بہتر مینجمنٹ کے لیے ڈیٹا طلب کیا تھا، کیونکہ آدھار کے برعکس این پی آر فیملی اور کاروباری تفصیلات سمیت کسی فرد کے بارے میں زیادہ جانکاری فراہم کرتا ہے۔ دستاویز سے یہ بات بھی صاف ہوتی ہے کہ حکومت نے آدھار نمبر اور پاسپورٹ کی جانکاری بھی اکٹھا کرنے کا منصوبہ بنایا ہے۔ شاید یہ پہلا ایسا موقع ہے جب سرکاری فائلوں کی بنیاد پر یہ واقع ہوتا ہے کہ این پی آر میں آدھار اور پاسپورٹ کی جانکاری دینی ہوگی۔
فائل نونگ کے مطابق، این پی آر میں آدھار اور پاسپورٹ کے علاوہ والدین کی پیدائش کی تاریخ اور جائے پیدائش، پچھلی رہائش، موبائل نمبر، ووٹر آئی ڈی کارڈ نمبر اور ڈرائیونگ لائسنس نمبر اکٹھا کیا جانا ہے۔ خاص بات یہ ہے کہ جہاں ایک طرف وزارت داخلہ یہ دعویٰ کر رہا ہے کہ یہ دستاویز رضاکارانہ ہیں، مطلب کہ اگر یہ دستاویز نہیں ہیں تو فرد کو نہیں دینے ہوں گے۔ حالانکہ سرکاری دستاویزوں میں یہ صاف نہیں کیا گیا ہے۔ اس میں صرف اتنا لکھا ہے کہ یہ تمام جانکاری جمع کی جانی ہے۔حاصل کیے گئے فائلوں سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ سرکار نے پین نمبر بھی این پی آر میں اکٹھا کرنے کا منصوبہ بنایا تھا۔ حالانکہ اکانومک ٹائمس کی حالیہ رپورٹ بتاتی ہے کہ وزارت نے ایک سروے کے بعد یہ فیصلہ کیا ہے کہ پین نمبر نہیں اکٹھا کیا جائے گا۔
آدھار کو لازمی طور پر اکٹھا کرنے کی ضرورت پر شہریت قانون میں ترمیم کا منصوبہ آدھار پر سپریم کورٹ کے فیصلے اور آدھار اور دوسرے قانون (ترمیم) ایکٹ، 2019 کو دھیان میں رکھتے ہوئے وزارت داخلہ کے تحت رجسٹرار جنرل دفتر نے منسٹری آف الکٹرانکس اور انفارمیشن ٹکنالوجی (ایم ای آئی ٹی وائی) کو خط لکھ کر این پی آر میں آدھار نمبر لینے کی اجازت مانگی تھی۔ اس کو لے کر ایم ای آئی ٹی وائی کے سکریٹری اور آدھار بنانے والی ایجنسی یو آئی ڈی اے آئی کے سی ای او کو 19 جولائی 2015 کو خط لکھا گیا تھا۔ بعد میں 6/ اگست 2015 کو اس کو لے کر منسٹری آف الیکٹرانکس اور انفارمیشن ٹکنالوجی کے جوائنٹ سکریٹری ایس گوپال کرشن کی صدارت میں میٹنگ ہوئی تھی۔اس میٹنگ میں یہ فیصلہ کیا گیا کہ رجسٹرار جنرل دفتر اس طریقے سے این پی آر میں آدھار نمبر لے سکتا ہے جو آدھار (اطلاعات کو شیئر کرنا) ریگولیشن، 2016 کے’کلاز5‘کے اسٹینڈرڈ کے موافق ہو۔ کارڈ کے مطابق، اگر کوئی ایجنسی آدھار نمبر اکٹھا کرتی ہے تو اسے آدھار ہولڈر کو یہ جا نکارمی اکٹھا کرنے کی وجہ اور آدھار نمبر دینا لازمی ہے یا نہیں، یہ بتانا ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ اس خصوصی کام کے لیے فرد کا آدھار نمبر استعمال کرنے کے لیے اس کی مرضی پوچھنی ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ آدھار اکٹھا کرنے والی ایجنسی اس آدھار نمبر کو صرف اسی کام کیلئے استعمال کر سکتی ہے جس کے لیے آدھار ہولڈر سے رضا مندی لی گئی ہے۔ ان شرطوں کی بنیاد پر این پی آر کے لیے آدھار لینے کی اجازت دی گئی تھی۔ اس کے جواب میں 23 اگست 2019 کو نوٹنگ پر ایڈیشنل رجسٹرار جنرل سنجے نے لکھا کہ ہم رضاکارانہ طریقے سے آدھار نمبر کو اکٹھا کر رہے ہیں اور 2015 کے دوران پہلے سے اکٹھا کئے گئے آدھار نمبر کی یو آئی ڈی اے آئی سے تصدیق کی جائے۔
حالانکہ تقریباً دومہینے بعد رجسٹرار جنرل کے دفتر کو یہ احساس ہوا کہ آدھار اکٹھا کرنے کے لیے منسٹری آف الیکٹرانکس اور انفارمیشن ٹکنالوجی کے ذریعے طے کی گئی شرط یعنی ’کلاز5‘ ان کے لیے نافذ نہیں ہوتے ہیں۔ یہاں سے سر کا ر نے یہ طے کیا کہ وہ این پی آر اپ ڈیٹ کرتے ہوئے لازمی طور پر آدھار اکٹھا کر سکتے ہیں۔ 12 اکتوبر 2019 کو ایڈیشنل رجسٹرار جنرل سنجے کے دستخط شدہ فائل نوٹنگ کے مطابق،شہریت قانون، 1955 کی دفعہ 14 اے (5) کے اہتمام کے مطابق، ہندوستان کے شہریوں کے لازمی رجسٹریشن میں اپنائی جانے والی کارروائی ایسی ہوگی جسے پہلے سے طے کیا جا سکتا ہے۔ اس لیے شہریت ضابطوں، 2003 کے ضابطہ (4) کے تحت آبادی رجسٹر بنانے کے لیے این پی آر اپ ڈیٹ کرنے کے دوران ہم آدھار نمبر کو لازمی بنا سکتے۔دفتر نے یہ بھی تجویز رکھی کہ اگر موجودہ ضابطوں کے تحت ایسا نہیں ہو پاتا ہے تو اس کے لیے آدھار ایکٹ اور شہریت قانون میں ترمیم کی جائے۔ اس بارے میں فیصلہ لینے کے لیے مرکزی داخلہ سکریٹری کی صدارت میں 18 اکتوبر 2019 کو ایک اعلیٰ سطحی میٹنگ کی گئی تھی۔ لیکن ابھی یہ پتہ نہیں چل پایا ہے کہ اس میں کیا فیصلہ کیا گیا۔ حالانکہ کچھ میڈیا رپورٹس میں ذرائع کے حوالے سے یہ دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ این پی آر، 2020 میں آدھار رضاکارانہ طور پر لیا جائے گا۔ اس میٹنگ میں یو آئی ڈی اے آئی کے سی ای او، منسٹری آف الیکٹرانکس اینڈ انفارمیشن ٹکنالوجی کے سکریٹری، وزارت قانون کے ملکہ قانون کے سکریٹری اور رجسٹرار جنرل دفتر کے نمائندے شامل تھے۔ این پی آر کی شروعات 2010 میں اس وقت کے وزیر اعظم منموہن سنگھ کی قیادت والی یو پی اے سرکار کے ذریعے کی گئی تھی۔ اس کے پائلٹ پروجیکٹ کی تیاری دو سال پہلے شروع ہوئی تھی جب شیوراج پاٹل (22 مئی 2004 سے 30 نومبر 2008) اور پی چدمبرم (30 نومبر، 2008 سے 31 جولائی، 2012) وزیر داخلہ تھے۔