شمالی کینرا پارلیمانی سیٹ کو جے ڈی ایس کے حوالے کرنے پر کانگریسی لیڈران ناراض؛ کیا دیش پانڈے کا دائو اُلٹا پڑ گیا ؟
کاروار 16؍مارچ (ایس او نیوز)ایک طرف کانگریس اور جنتا دل ایس کی مخلوط حکومت نے ساجھے داری کے منصوبے پر عمل کرکے سیٹوں کی تقسیم کے فارمولے پر رضامند ہونے کا اعلان کیا ہے تو دوسری طرف کچھ اضلاع سے کانگریس پارٹی کے کارکنان اور مقامی لیڈران میں بے اطمینانی کی ہوا چل پڑی ہے۔ جس میں ضلع اڈپی کے علاوہ شمالی کینرا بھی شامل ہے۔
دیوے گوڈا کی چال کامیاب: شمالی کینرا سیٹ جہاں پر مسلسل بی جے پی کے اننت کمار ہیگڈے کا قبضہ چلاآرہا ہے، اس وقت یہاں کانگریس پارٹی کے ووٹروں کی تعداد اکثریت میں ہونے کے باوجود یہ سیٹ جنتا دل ایس کے حوالے کردی گئی ہے اور کانگریس کے مقامی لیڈران نے اس فیصلے پر سوال اٹھانا شروع کردیا ہے۔ پارٹی لیڈران کا سب سے اہم سوال یہی ہے کہ کانگریس کے 5لاکھ ووٹوں کو جنتادل کے 50ہزار ووٹوں کے ساتھ جوڑنے کا فیصلہ کہاں تک منصفانہ ہوسکتا ہے؟ جانکاروں کا کہنا ہے کہ جنتادل سپریمو دیوے گوڈا نے اپنے سے بہت کم عمرکانگریسی صدر راہل گاندھی پر اپنی چالاکی اور سیاسی منصوبہ بندی کے تحت سبقت حاصل کرلی ہے اور اپنی پارٹی کا وقار بچائے رکھنے اور اپنے مفاد کے مطابق فیصلہ کروانے میں کامیابی حاصل کرلی ہے۔
بی جے پی کیمپ میں خوشی: کینرا سیٹ پر دونوں پارٹیوں کے درمیان فیصلے کے بعد کانگریسی کارکنان اور لیڈران کے اندر پیدا ہونے والی بے چینی اور اضطراب سے بی جے پی کیمپ میں خوشی اور اطمینان کی لہر دوڑ گئی ہے۔کیونکہ کانگریسی کارکنا ن کے اندر جتنی بے اطمینانی ہوگی ، بی جے پی کے لئے جیت کا راستہ اتنا ہی آسان ہوتا جائے گا ۔ورنہ دونوں پارٹیوں کے کارکنان فرقہ پرست پارٹی کو شکست دینے کے طے شدہ منصوبے پر قائم رہتے ہیں اور تمام اختلافات بھلا کر مشترکہ امیدوار کو ووٹ دیتے ہیں توپھر بی جے پی کے قلعے میں شگاف پڑنا یقینی ہے۔
دیشپانڈے کی آنا کانی : کانگریس کا مسئلہ یہ ہے کہ کینرا سیٹ کے لئے سب سے مضبوط امیدوار سمجھے جانے والے آر وی دیشپانڈے نے خود ہی الیکشن لڑنے سے انکار کردیا تھا۔ گزشتہ ایک مہینے قبل منگلورو میں منعقدہ کانگریس پارٹی کی میٹنگ میں شریک ہونے والے ضلع شمالی کینرا کے بہت سے لیڈروں نے بھی دیشپانڈے کا نام کینرا سیٹ کے لئے سب سے مضبوط دعویدار کے طور پرپیش کیا تھا۔مگر سیٹوں کی تقسیم کا وقت قریب آتے ہی دیشپانڈے نے دوبارہ دوٹوک اعلان کردیا کہ وہ تو الیکشن میں حصہ نہیں لیں گے اور ان کا بیٹا پرشانت بھی اس ریس میں شامل نہیں رہے گا۔
ششی بھوشن ہیگڈے ۔بہتر امیدوار: دوسری طرف جے ڈی ایس کی طرف سے ششی بھوشن ہیگڈے کا نام سیاسی گلیاروں میں ابھرنے لگا ہے۔اور ایک مرحلے پر یہ بات سننے میں آئی ہے کہ اس سیٹ کو جے ڈی ایس کے حوالے کرنے اور ششی بھوشن ہیگڈے کو امیدوار بنانے کے لئے خود دیشپانڈے نے ہی ہامی بھری تھی، اس کی وجہ یہ بتائی گئی کہ رام کرشنا ہیگڈے کے خاندان سے خوش گوار تعلقات اور ششی بھوشن ہیگڈے کے اعلیٰ اخلاق و کردار کی وجہ سے دیشپانڈے ان کی حمایت کے لئے راضی ہوئے ہیں۔لیکن بعض ذرائع کا کہنا ہے کہ ششی بھوشن ہیگڈے انتخابی مقابلہ آرائی کے لئے خود تیار نہیں تھے۔ ایسا بھی کہا جارہا ہے کہ ششی بھوشن ہیگڈے چونکہ اعلیٰ ذات سے تعلق رکھتے ہیں اس بناء پر ان کے نام کی ہامی بھری گئی تھی، مگر جے ڈی ایس کی طرف سے ان کے بجائے آنند اسنوٹیکر کا نام سامنے آنے کے بعد سب دائو اُلٹا پڑ گیا ہے۔
کیا دیشپانڈے کاداؤ الٹا پڑ گیا ؟: سمجھا جارہا ہے کہ حالات نے اب دوسرا رخ اختیار کرلیا ہے۔ دیشپانڈے کا سیاسی حساب وکتاب دھرے کا دھرا رہ گیا ہے ۔ دیوے گوڈا اور کماراسوامی نے سیاسی چال میں سبقت لے جاتے ہوئے آنند اسنوٹیکر کا نام آگے بڑھا دیا ہے۔آنند اسنوٹیکر کا نام سنتے ہی اپنی بڑھتی عمر کا حوالہ دے کر انتخابی میدان سے خود کو دور رکھنے کا راگ الاپنے والے دیشپانڈے کا سر چکر ا گیا ہے۔ اب وہ کسی نہ کسی طرح آنند اسنوٹیکر کو میدان میں اترنے سے روکنے کے لئے تدبیریں سوچنے پر مجبور ہوگئے ہیں۔
کیا فائدہ بی جے پی کو ہوگا ؟: لیکن اب ان حالات کو بدلنا اتنا آسان نظر نہیں آتا۔ کانگریسی لیڈروں اور کارکنان کے درمیان پیدا ہونے والی بے چینی سے سیٹ کی تقسیم بدلنے کے امکانات نہ ہونے کی وجہ سے اس کے منفی اثرا ت براہ راست جے ڈی ایس کے امیدوار پر ہی ہونے والے ہیں۔ بظاہر کانگریس کے ضلعی لیڈران مخلوط حکومت کے اس فیصلے کو قبول کرنے اور پارٹی کے حکم کے مطابق مشترکہ طور پر میدان میں اتارے گئے جے ڈی ایس امیدوار کا ساتھ نبھانے کی بات تو کررہے ہیں۔ مگر اندر ہی اندرجو بے چینی چل رہی ہے اس کے دوران اس کی جیت کو یقینی بنانا بڑا ہی مشکل نظر آتا ہے، جس کا سیدھا فائدہ بی جے پی کو پہنچنے والا ہے۔
کیا یہ ہری پرساد کودور رکھنے کا منصوبہ تھا؟: کانگریس پارٹی سے جب دیشپانڈے پارلیمانی سیٹ پر انتخاب لڑنے کے لئے تیار نہیں تھے ، تواس سیٹ کے لئے دوسرا سب سے اہم نام بی کے ہری پرساد کا تھا۔اور ہری پرساد یہاں سے اینٹری کے لئے خود بھی تیار تھے۔اب اس نئی صورتحال پر بی کے ہری پرساد کے حامیوں کاکہنا ہے کہ کانگریس کے کچھ لوگوں کو اور خاص کر کے ضلع انچارج وزیر دیشپانڈے اور سابق وزیر و گورنر مارگریٹ آلوا کو اس حلقے سے بی کے ہری پرساد کا ابھرنا پسند نہیں تھا۔ اس لئے کانگریس کے ایسے لیڈروں نے اندرونی طور پر چال چلتے ہوئے بی کے ہری پرساد کو دور رکھنے کے منصوبے کے تحت ہی یہ سیٹ جے ڈی ایس کو دینے پر رضامندی دکھائی تھی۔
کانگریس کی پوزیشن زیادہ مضبوط ہے: کانگریسیوں کے حساب وکتاب پر نگاہ دوڑائیں تو صاف معلوم ہوتا ہے کہ ضلع میں جے ڈی ایس کے مقابلے میں کانگریس بہت ہی زیادہ مضبوط اور مستحکم ہے۔بلکہ جے ڈی ایس کی کوئی مضبوط بنیاد ہی ضلع میں موجود نہیں ہے۔ اس کے باوجود مخلوط اور مشترکہ امیدوار کے نام پر اس سیٹ کو جے ڈی ایس کے لئے چھوڑنا ہی کانگریسیوں کی بھنویں چڑھنے کا سبب بن گیا ہے۔ ایک کانگریسی لیڈرنے سوال اٹھایا ہے کہ پارٹی کے کم ازکم 5لاکھ ووٹرس یہاں موجود ہیں ۔ اس کے مقابلے میں جنتا دل ایس کے زیادہ سے زیادہ 50ہزار ووٹرس ہونگے ۔ ایسی حالت میں اس سیٹ کو جے ڈی ایس کے لئے چھوڑ دینا کہاں کا انصاف ہے۔
کیا دیشپانڈے کو علم نہیں تھا؟: ضلع کے کانگریسی کارکنان یہ سوال بھی اٹھا رہے ہیں کہ کینرا سیٹ کو جے ڈی ایس کے حوالے کرنے کا فیصلہ لینے سے قبل یہاں سے سب سے سینئر اور تجربہ کار سیاست دان اور مستقبل کے وزیراعلیٰ سمجھے جانے والے آر وی دیشپانڈے کوضلع کی صورت حال اور کانگریس پارٹی کی پوزیشن کے بارے میں کوئی علم نہیں تھایا اس سیٹ کو جے ڈی ایس کے حوالے کرنے کے سلسلے میں انہیں لاعلم رکھا گیا تھا؟پارٹی کارکنان یہ بھی پوچھ رہے ہیں کہ مخالف پارٹی میں ہونے کے باوجود یاجنتادل سپریمو دیوے گوڈا کے ساتھ بہترین روابط رکھنے والے دیشپانڈے کو کیا دیوے گوڈا نے بھی اس بات کی ہوا نہیں لگنے دی تھی؟ کیا یہ سب کچھ پہلے سے سوچی سمجھی اسکیم کے تحت کیا گیا فیصلہ ہے ؟
اسنوٹیکر کا پتّا کاٹنے کی کوشش زوروں پر: سیاسی گلیاروں سے ملنے والی خبروں کے مطابق مشترکہ امیدوار کے طور پر آنند اسنوٹیکر کا نام سامنے آنے کے بعد کانگریس پارٹی کے اندر جو مخالفانہ آوازیں اٹھ رہی ہیں اور فیصلے پر بے اطمینانی کا جو اظہار کیا جارہا ہے اس میں دن بہ دن اضافہ ہورہا ہے اور اس بات کی کوشش تیز ہوگئی ہے کہ مشترکہ امیدوار کے طور پر آنند کا پتہ کٹ جائے اور انہیں کسی صورت ٹکٹ نہ دیا جائے ۔ دوسری طرف آنند اسنوٹیکر کے حامیوں کا کہنا ہے کہ آنند پسماندہ طبقے کا امیدوار ہونے کی وجہ سے سماج کے اونچے اور بااثر طبقے والے ان کی مخالفت کرنے لگے ہیں۔ ضلع میں چونکہ پچھڑے طبقے کے ووٹرس بھاری تعداد میں موجود ہیں اس لئے آنند کے میدان میں اترنے پر پچھڑے سماج کے ووٹ حاصل کرنا ان کے لئے کوئی مسئلہ نہیں رہے گا۔یعنی کہا جاسکتا ہے کہ اب یہ معاملہ سیاسی مقابلے سے بڑھ کر ذات پات اور سماج و برادری کے مقابلے میں بدل گیا ہے۔