شمالی کینرا پارلیمانی سیٹ کو جے ڈی ایس کے حوالے کرنے پر کانگریسی لیڈران ناراض؛ کیا دیش پانڈے کا دائو اُلٹا پڑ گیا ؟

Source: S.O. News Service | By I.G. Bhatkali | Published on 16th March 2019, 2:13 PM | ساحلی خبریں | ریاستی خبریں | اسپیشل رپورٹس |

کاروار 16؍مارچ (ایس او نیوز)ایک طرف کانگریس اور جنتا دل ایس کی مخلوط حکومت نے ساجھے داری کے منصوبے پر عمل کرکے سیٹوں کی  تقسیم کے فارمولے پر رضامند ہونے کا اعلان کیا ہے تو دوسری طرف کچھ اضلاع سے کانگریس پارٹی کے کارکنان اور مقامی لیڈران میں بے اطمینانی کی ہوا چل پڑی ہے۔ جس میں ضلع اڈپی کے علاوہ شمالی کینرا بھی شامل ہے۔

دیوے گوڈا کی چال کامیاب: شمالی کینرا سیٹ جہاں پر مسلسل بی جے پی کے اننت کمار ہیگڈے کا قبضہ چلاآرہا ہے، اس وقت یہاں کانگریس پارٹی کے ووٹروں کی تعداد اکثریت میں ہونے کے باوجود یہ سیٹ جنتا دل ایس کے حوالے کردی گئی ہے اور کانگریس کے مقامی لیڈران نے اس فیصلے پر سوال اٹھانا شروع کردیا ہے۔ پارٹی لیڈران کا سب سے اہم سوال یہی ہے کہ کانگریس کے 5لاکھ ووٹوں کو جنتادل کے 50ہزار ووٹوں کے ساتھ جوڑنے کا فیصلہ کہاں تک منصفانہ ہوسکتا ہے؟ جانکاروں کا کہنا ہے کہ جنتادل سپریمو دیوے گوڈا نے اپنے سے بہت کم عمرکانگریسی صدر راہل گاندھی پر اپنی چالاکی اور سیاسی منصوبہ بندی کے تحت سبقت حاصل کرلی ہے اور اپنی پارٹی کا وقار بچائے رکھنے اور اپنے مفاد کے مطابق فیصلہ کروانے میں کامیابی حاصل کرلی ہے۔

بی جے پی کیمپ میں خوشی: کینرا سیٹ پر دونوں پارٹیوں کے درمیان فیصلے کے بعد کانگریسی کارکنان اور لیڈران کے اندر پیدا ہونے والی بے چینی اور اضطراب سے بی جے پی کیمپ میں خوشی اور اطمینان کی لہر دوڑ گئی ہے۔کیونکہ کانگریسی کارکنا ن کے اندر جتنی بے اطمینانی ہوگی ، بی جے پی کے لئے جیت کا راستہ اتنا ہی آسان ہوتا جائے گا ۔ورنہ دونوں پارٹیوں کے کارکنان فرقہ پرست پارٹی کو شکست دینے کے طے شدہ منصوبے پر قائم رہتے ہیں اور تمام اختلافات بھلا کر مشترکہ امیدوار کو ووٹ دیتے ہیں توپھر بی جے پی کے قلعے میں شگاف پڑنا یقینی ہے۔

دیشپانڈے کی آنا کانی : کانگریس کا مسئلہ یہ ہے کہ کینرا سیٹ کے لئے سب سے مضبوط امیدوار سمجھے جانے والے آر وی دیشپانڈے نے خود ہی الیکشن لڑنے سے انکار کردیا تھا۔ گزشتہ ایک مہینے قبل منگلورو میں منعقدہ کانگریس پارٹی کی میٹنگ میں شریک ہونے والے ضلع شمالی کینرا کے بہت سے لیڈروں نے بھی دیشپانڈے کا نام کینرا سیٹ کے لئے سب سے مضبوط دعویدار کے طور پرپیش کیا تھا۔مگر سیٹوں کی تقسیم کا وقت قریب آتے ہی دیشپانڈے نے دوبارہ دوٹوک اعلان کردیا کہ وہ تو الیکشن میں حصہ نہیں لیں گے اور ان کا بیٹا پرشانت بھی اس ریس میں شامل نہیں رہے گا۔

ششی بھوشن ہیگڈے ۔بہتر امیدوار: دوسری طرف جے ڈی ایس کی طرف سے ششی بھوشن ہیگڈے کا نام  سیاسی گلیاروں میں ابھرنے لگا ہے۔اور ایک مرحلے پر یہ بات سننے میں آئی ہے کہ اس سیٹ کو جے ڈی ایس کے حوالے کرنے اور ششی بھوشن ہیگڈے کو امیدوار بنانے کے لئے خود دیشپانڈے نے ہی  ہامی بھری تھی،  اس کی  وجہ یہ بتائی گئی کہ رام کرشنا ہیگڈے کے خاندان سے خوش گوار تعلقات اور ششی بھوشن ہیگڈے کے اعلیٰ اخلاق و کردار کی وجہ سے دیشپانڈے ان کی حمایت کے لئے راضی ہوئے ہیں۔لیکن بعض ذرائع کا کہنا ہے کہ ششی بھوشن ہیگڈے انتخابی مقابلہ آرائی کے لئے خود تیار نہیں تھے۔  ایسا بھی کہا جارہا ہے کہ ششی بھوشن ہیگڈے چونکہ اعلیٰ ذات سے تعلق رکھتے ہیں اس بناء پر ان کے نام کی ہامی بھری گئی تھی، مگر جے ڈی ایس کی طرف سے ان کے بجائے  آنند اسنوٹیکر کا نام سامنے آنے کے بعد  سب دائو اُلٹا پڑ گیا ہے۔

کیا دیشپانڈے کاداؤ الٹا پڑ گیا ؟: سمجھا جارہا ہے کہ حالات نے اب دوسرا رخ اختیار کرلیا ہے۔ دیشپانڈے کا سیاسی حساب وکتاب دھرے کا دھرا رہ گیا ہے ۔ دیوے گوڈا اور کماراسوامی نے سیاسی چال میں سبقت لے جاتے ہوئے آنند اسنوٹیکر کا نام آگے بڑھا دیا ہے۔آنند اسنوٹیکر کا نام سنتے ہی اپنی بڑھتی عمر کا حوالہ دے کر انتخابی میدان سے خود کو دور رکھنے کا راگ الاپنے والے دیشپانڈے کا سر چکر ا گیا ہے۔ اب وہ کسی نہ کسی طرح آنند اسنوٹیکر کو میدان میں اترنے سے روکنے کے لئے تدبیریں سوچنے پر مجبور ہوگئے ہیں۔

کیا فائدہ بی جے پی کو ہوگا ؟: لیکن اب ان حالات کو بدلنا اتنا آسان نظر نہیں آتا۔ کانگریسی لیڈروں اور کارکنان کے درمیان پیدا ہونے والی بے چینی سے سیٹ کی تقسیم بدلنے کے امکانات نہ ہونے کی وجہ سے اس کے منفی اثرا ت براہ راست جے ڈی ایس کے امیدوار پر ہی ہونے والے ہیں۔ بظاہر کانگریس کے ضلعی لیڈران مخلوط حکومت کے اس فیصلے کو قبول کرنے اور پارٹی کے حکم کے مطابق مشترکہ طور پر میدان میں اتارے گئے جے ڈی ایس امیدوار کا ساتھ نبھانے کی بات تو کررہے ہیں۔ مگر اندر ہی اندرجو بے چینی چل رہی ہے اس کے دوران اس کی جیت کو یقینی بنانا بڑا ہی مشکل نظر آتا ہے، جس کا سیدھا فائدہ بی جے پی کو پہنچنے والا ہے۔

کیا یہ ہری پرساد کودور رکھنے کا منصوبہ تھا؟: کانگریس پارٹی سے جب دیشپانڈے پارلیمانی سیٹ پر انتخاب لڑنے کے لئے تیار نہیں تھے ، تواس سیٹ کے لئے دوسرا سب سے اہم نام بی کے ہری پرساد کا تھا۔اور ہری پرساد یہاں سے اینٹری کے لئے خود بھی تیار تھے۔اب اس نئی صورتحال پر بی کے ہری پرساد کے حامیوں کاکہنا ہے کہ کانگریس کے کچھ لوگوں کو اور خاص کر کے ضلع انچارج وزیر دیشپانڈے اور سابق وزیر و گورنر مارگریٹ آلوا کو اس حلقے سے بی کے ہری پرساد کا ابھرنا پسند نہیں تھا۔ اس لئے کانگریس کے ایسے لیڈروں نے اندرونی طور پر چال چلتے ہوئے بی کے ہری پرساد کو دور رکھنے کے منصوبے کے تحت ہی یہ سیٹ جے ڈی ایس کو دینے پر رضامندی دکھائی تھی۔ 

کانگریس کی پوزیشن زیادہ مضبوط ہے: کانگریسیوں کے حساب وکتاب پر نگاہ دوڑائیں تو صاف معلوم ہوتا ہے کہ ضلع میں جے ڈی ایس کے مقابلے میں کانگریس بہت ہی زیادہ مضبوط اور مستحکم ہے۔بلکہ جے ڈی ایس کی کوئی مضبوط بنیاد ہی ضلع میں موجود نہیں ہے۔ اس کے باوجود مخلوط اور مشترکہ امیدوار کے نام پر اس سیٹ کو جے ڈی ایس کے لئے چھوڑنا ہی کانگریسیوں کی بھنویں چڑھنے کا سبب بن گیا ہے۔ ایک کانگریسی لیڈرنے سوال اٹھایا ہے کہ پارٹی کے کم ازکم 5لاکھ ووٹرس یہاں موجود ہیں ۔ اس کے مقابلے میں جنتا دل ایس کے زیادہ سے زیادہ 50ہزار ووٹرس ہونگے ۔ ایسی حالت میں اس سیٹ کو جے ڈی ایس کے لئے چھوڑ دینا کہاں کا انصاف ہے۔

کیا دیشپانڈے کو علم نہیں تھا؟: ضلع کے کانگریسی کارکنان یہ سوال بھی اٹھا رہے ہیں کہ کینرا سیٹ کو جے ڈی ایس کے حوالے کرنے کا فیصلہ لینے سے قبل یہاں سے سب سے سینئر اور تجربہ کار سیاست دان اور مستقبل کے وزیراعلیٰ سمجھے جانے والے آر وی دیشپانڈے کوضلع کی صورت حال اور کانگریس پارٹی کی پوزیشن کے بارے میں کوئی علم نہیں تھایا اس سیٹ کو جے ڈی ایس کے حوالے کرنے کے سلسلے میں انہیں لاعلم رکھا گیا تھا؟پارٹی کارکنان یہ بھی پوچھ رہے ہیں کہ مخالف پارٹی میں ہونے کے باوجود یاجنتادل سپریمو دیوے گوڈا کے ساتھ بہترین روابط رکھنے والے دیشپانڈے کو  کیا دیوے گوڈا نے بھی اس بات کی ہوا نہیں لگنے دی تھی؟  کیا  یہ سب کچھ پہلے سے سوچی سمجھی اسکیم کے تحت کیا گیا فیصلہ ہے ؟

اسنوٹیکر کا پتّا کاٹنے کی کوشش زوروں پر: سیاسی گلیاروں سے ملنے والی خبروں کے مطابق مشترکہ امیدوار کے طور پر آنند اسنوٹیکر کا نام سامنے آنے کے بعد کانگریس پارٹی کے اندر جو مخالفانہ آوازیں اٹھ رہی ہیں اور فیصلے پر بے اطمینانی کا جو اظہار کیا جارہا ہے اس میں دن بہ دن اضافہ ہورہا ہے اور اس بات کی کوشش تیز ہوگئی ہے کہ مشترکہ امیدوار کے طور پر آنند کا پتہ کٹ جائے اور انہیں کسی صورت ٹکٹ نہ دیا جائے ۔ دوسری طرف آنند اسنوٹیکر کے حامیوں کا کہنا ہے کہ آنند پسماندہ طبقے کا امیدوار ہونے کی وجہ سے سماج کے اونچے اور بااثر طبقے والے ان کی مخالفت کرنے لگے ہیں۔ ضلع میں چونکہ پچھڑے طبقے کے ووٹرس بھاری تعداد میں موجود ہیں اس لئے آنند کے میدان میں اترنے پر پچھڑے سماج کے ووٹ حاصل کرنا ان کے لئے کوئی مسئلہ نہیں رہے گا۔یعنی کہا جاسکتا ہے کہ اب یہ معاملہ سیاسی مقابلے سے بڑھ کر ذات پات اور سماج و برادری کے مقابلے میں بدل گیا ہے۔

ایک نظر اس پر بھی

منڈگوڈ میں ڈاکٹر انجلی نمبالکر  نے کہا : وزیر اعظم صرف من کی بات کرتے ہیں اور جن کی بات بھول جاتے ہیں  

لوک سبھا کے لئے کانگریسی امیدوار ڈاکٹر انجلی نمبالکر نے منڈگوڈ کے ملگی نامی علاقے میں انتخابی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ گزشتہ دس برسوں میں وزیر اعظم نریندرا مودی نے صرف من کی بات کی ہے اور انہیں کبھی جن کی بات یاد نہیں آئی ۔

اُتر کنڑا میں چڑھ رہا ہے سیاسی پارہ - پرچار کے لئے وزیر اعظم نریندر مودی اور کرناٹک کے وزیراعلیٰ سدا رامیا کریں گے ضلع کا دورہ

لوک سبھا انتخابات کے دوسرے مرحلے کے لئے اُتر کنڑا میں سیاسی پارہ پوری قوت سے اوپر کی طرف بڑھ رہا ہے کیونکہ اپنے اپنے امیدواروں کے پرچار کے لئے وزیر اعظم نریندرا مودی اور وزیر اعلیٰ سدا رامیا کے دورے طے ہوئے ہیں ۔

اُتر کنڑا میں آج سے 30 اپریل تک چلے گی عمر رسیدہ، معذور افراد کے لئے گھر سے ووٹ دینے کی سہولت

ضلع ڈپٹی کمشنر گنگو بائی مانکر کی طرف سے جاری کیے گئے بیان کے مطابق الیکشن کمیشن کی طرف سے معذورین اور 85 سال سے زائد عمر والوں کے لئے گھر سے ووٹ دینے کی جو سہولت فراہم کی گئی ہے، اتر کنڑا میں آج سے اس کی آغاز ہو گیا ہے اور 30 اپریل تک یہ کارروائی چلے گی ۔

انجمن گرلز کے ساتھ انجمن بوائز کی سکینڈ پی یو میں شاندار کامیابی پر جدہ جماعت نے کی ستائش؛ دونوں پرنسپالوں کوفی کس پچاس ہزار روپئے انعام

انجمن گرلز پی یو کالج کے ساتھ ساتھ انجمن بوائز پی یو کالج کے سکینڈ پی یو سی میں قریب97  فیصد نتائج آنے پربھٹکل کمیونٹی جدہ نے دونوں کالجوں کے پرنسپال اور اساتذہ کی نہ صرف ستائش اور تہنیت کرتے ہوئے سپاس نامہ پیش کیا، بلکہ ہمت افزئی کے طور پر دونوں کالجوں کے پرنسپالوں کو فی کس ...

بیدر میں وزیراعلیٰ سدرامیا نے وزیراعظم مودی پر کی سخت تنقید 

بیدر کے انتخابی دورہ پر کرناٹک کے وزیراعلیٰ سدرامیا نے وزیراعظم نریندر مودی پر  یہ کہہ کر سخت تنقید کی کہ  اُنہیں انتخابات کے موقع پر ہی  کرناٹک کی یاد آتی ہے۔ شہر کے گنیش میدان میں منعقدہ کانگریس پارٹی کے انتخابی جلسہ سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ریاست میں شدید خشک سالی ...

مودی-شاہ دکاندار ہیں اور اڈانی-امبانی خریدار، کانگریس صدر ملکارجن کھرگے کا مودی حکومت پر سخت حملہ

کانگریس کے قومی صدر ملکارجن کھرگے نے کرناٹک کے کلبرگی میں پی ایم مودی اور وزیر داخلہ امت شاہ پر آج سخت ترین حملہ کیا۔ انہوں نے ایک عوامی ریلی سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ کئی دہائیوں قبل قائم کی گئی حکومت کی ملکیت والی فیکٹریوں کو مودی-شاہ امبانی-اڈانی کے ہاتھوں فروخت کر رہے ہیں۔

لوک سبھا انتخابات کے دوسرے مرحلہ کی تشہیری مہم کا تھم گیا شور؛ کرناٹک کے 14 حلقوں سمیت 12ریاستوں میں کل جمعہ کو ہوں گے انتخابات

لوک سبھا انتخابات کے لئے دوسرے مرحلے کی تشہیری مہم بدھ کی شام  5؍ بجےختم ہوگئی۔اس مرحلے میں یوپی ،بہار،ایم پی اورراجستھان سمیت کرناٹک میں ہونے والے دو مراحل  میں سے پہلے مرحلہ کے انتخابات کے ساتھ ساتھ 13؍ریاستوں کی 88؍ سیٹوں پر بھی  کل جمعہ 26 اپریل کوانتخابات ہوں گے۔  تمام ...

اُتر کنڑا میں چڑھ رہا ہے سیاسی پارہ - پرچار کے لئے وزیر اعظم نریندر مودی اور کرناٹک کے وزیراعلیٰ سدا رامیا کریں گے ضلع کا دورہ

لوک سبھا انتخابات کے دوسرے مرحلے کے لئے اُتر کنڑا میں سیاسی پارہ پوری قوت سے اوپر کی طرف بڑھ رہا ہے کیونکہ اپنے اپنے امیدواروں کے پرچار کے لئے وزیر اعظم نریندرا مودی اور وزیر اعلیٰ سدا رامیا کے دورے طے ہوئے ہیں ۔

کرناٹک کی کانگریس حکومت کا اہم قدم؛ ملازمتوں اورتعلیمی اداروں میں ریزرویشن کے لیےمسلمانوں کو کیا او بی سی میں شا مل

کرناٹک کی کانگریس حکومت نے ریاست کے مسلمانوں کو ملازمتوں اور تعلیمی اداروں میں ریزرویشن دینے کے  مقصد سے  او بی سی  (یعنی دیگر پسماندہ طبقات) کے زمرے میں شامل کیا ہے۔ اس تعلق سے  معلومات فراہم کرتے ہوئے  نیشنل کمیشن برائے پسماندہ طبقات (NCBC) نے بدھ کو کرناٹک حکومت کے اعداد و ...

بی جے پی مذہب کے نام پر لوگوں کو تقسیم کر رہی ہے: وائی ایس شرمیلا ریڈی

کانگریس کی آندھرا پردیش یونٹ کی صدر وائی ایس شرمیلا ریڈی نے منگل کو بی جے پی پر مذہب کے نام پر لوگوں کو تقسیم کرنے کا الزام لگایا۔ بی جے پی کو ملک کے لیے ایک بڑا خطرہ بتاتے ہوئے انہوں نے ایسی پارٹی سے تعلق برقرار رکھنے پر وزیر اعلیٰ وائی ایس سے کہا کہ ۔ جگن موہن ریڈی اور ٹی ڈی پی ...

یہ الیکشن ہے یا مذاق ؟ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔آز: ڈاکٹر مظفر حسین غزالی

ایک طرف بی جے پی، این ڈی اے۔۔ جی نہیں وزیر اعظم نریندرمودی "اب کی بار چار سو پار"  کا نعرہ لگا رہے ہیں ۔ وہیں دوسری طرف حزب اختلاف کے مضبوط امیدواروں کا پرچہ نامزدگی رد کرنے کی  خبریں آرہی ہیں ۔ کھجوراؤ میں انڈیا اتحاد کے امیدوار کا پرچہ نامزدگی خارج کیا گیا ۔ اس نے برسراقتدار ...

بھٹکل سنڈے مارکیٹ: بیوپاریوں کا سڑک پر قبضہ - ٹریفک کے لئے بڑا مسئلہ 

شہر بڑا ہو یا چھوٹا قصبہ ہفتہ واری مارکیٹ عوام کی ایک اہم ضرورت ہوتی ہے، جہاں آس پاس کے گاوں، قریوں سے آنے والے کسانوں کو مناسب داموں پر روزمرہ ضرورت کی چیزیں اور خاص کرکے ترکاری ، پھل فروٹ جیسی زرعی پیدوار فروخت کرنے اور عوام کو سستے داموں پر اسے خریدنے کا ایک اچھا موقع ملتا ہے ...

نئی زندگی چاہتا ہے بھٹکل کا صدیوں پرانا 'جمبور مٹھ تالاب'

بھٹکل کے اسار کیری، سونارکیری، بندر روڈ، ڈارنٹا سمیت کئی دیگر علاقوں کے لئے قدیم زمانے سے پینے اور استعمال کے صاف ستھرے پانی کا ایک اہم ذریعہ رہنے والے 'جمبور مٹھ تالاب' میں کچرے اور مٹی کے ڈھیر کی وجہ سے پانی کی مقدار بالکل کم ہوتی جا رہی ہے اور افسران کی بے توجہی کی وجہ سے پانی ...

بڑھتی نفرت کم ہوتی جمہوریت  ........ ڈاکٹر مظفر حسین غزالی

ملک میں عام انتخابات کی تاریخوں کا اعلان ہونے والا ہے ۔ انتخابی کمیشن الیکشن کی تاریخوں کے اعلان سے قبل تیاریوں میں مصروف ہے ۔ ملک میں کتنے ووٹرز ہیں، پچھلی بار سے اس بار کتنے نئے ووٹرز شامل ہوئے، نوجوان ووٹرز کی تعداد کتنی ہے، ایسے تمام اعداد و شمار آرہے ہیں ۔ سیاسی جماعتیں ...

مالی فراڈ کا نیا گھوٹالہ : "پِگ بُوچرنگ" - گزشتہ ایک سال میں 66 فیصد ہندوستانی ہوئے فریب کاری کا شکار۔۔۔۔۔۔۔(ایک تحقیقاتی رپورٹ)

ایکسپوژر مینجمنٹ کمپنی 'ٹینیبل' نے ایک نئی رپورٹ جاری کی ہے جس میں یہ انکشاف کیا گیا ہے کہ پچھلے سال تقریباً دو تہائی (66 فیصد) ہندوستانی افراد آن لائن ڈیٹنگ یا رومانس اسکینڈل کا شکار ہوئے ہیں، جن میں سے 81 فیصد کو مالی نقصان کا سامنا کرنا پڑا ہے۔

مسلمان ہونا اب اس ملک میں گناہ ہے۔۔۔۔۔۔۔۔از: ظفر آغا

انہدام اب ایک ’فیشن‘ بنتا جا رہا ہے۔ یہ ہم نہیں کہہ رہے بلکہ یہ مدھیہ پردیش ہائی کورٹ کا بیان ہے۔ بے شک مکان ہو یا دوکان ہو، ان کو بلڈوزر کے ذریعہ ڈھا دینا اب بی جے پی حکومت کے لیے ایک فیشن بن چکا ہے۔ لیکن عموماً اس فیشن کا نشانہ مسلم اقلیتی طبقہ ہی بنتا ہے۔ اس کی تازہ ترین مثال ...