ایودھیا: تاریخ در تاریخ۔۔۔۔۔۔ از: ظفر آغا

Source: S.O. News Service | Published on 6th December 2022, 8:13 PM | اسپیشل رپورٹس | ملکی خبریں |

ایودھیا اب ایک تاریخ ہے۔ لیکن ایودھیا اب صرف بھگوان رام سے جڑی تاریخ نہیں ہے۔ ایودھیا جدید ہندوستانی سیاست کا ایک اہم باب بھی ہے۔ ہم نے اس ’تاریخ‘ کو ایک صحافی کی شکل میں بہت قریب سے دیکھا اور تجزیہ بھی کیا ہے۔ فروری 1986 کی وہ ہلکی سردی اب بھی یاد ہے جب اسی ماہ بابری مسجد کا تالا کھلنے کے بعد ہم بابری مسجد کے سامنے کھڑے تھے۔ اندر ٹھیک اسی جگہ پر جہاں مولوی کھڑا ہو کر نماز پڑھاتا ہے، وہاں رام للا وراجمان تھے۔ ہم نے رام للا کے دَرشن کیے اور اسی روز ایودھیا سے دوسرے شہروں کے لیے نکل پڑے۔ اتر پردیش میں اس وقت فرقہ وارانہ فسادات کی آگ پھیل چکی تھی۔ ہم فساد زدہ شہروں کا دورہ کرتے ہوئے واپس دہلی لوٹ آئے۔ بس 2 فروری 1986 کو مسجد کا تالا کھلنے سے لے کر 9 نومبر 2019 تک ایودھیا کا سایہ ہندوستانی سیاست پر کسی نہ کسی شکل میں نہ صرف چھایا رہا بلکہ دھیرے دھیرے اس فرقہ واراہن سیاست نے مختلف مراحل میں ملک کا سیاسی خاکہ ہی بدل دیا۔ اب یہ حالت ہے کہ ہندوستان تقریباً آر ایس ایس کے خوابوں کا ’ہندو راشٹر‘ بن چکا ہے۔ یہ ہندوستانی سیاست کی ایک ایسی تبدیلی ہے جس کی امید ایودھیا واقعہ سے پہلے نہیں کی جا سکتی تھی۔ لیکن اب یہ ایک تلخ سچائی ہے اور اسے ماننا ہی ہوگا۔ لیکن ایودھیا واقعہ میں ایسی کیا بات تھی کہ جس نے ہندوستان کی سیاست ہی نہیں بلکہ ہندوستان میں ایسی سماجی تبدیلی بھی پیدا کر دی جس کا امکان بابری مسجد کا تالا کھلنے سے پہلے کر پانا بہت مشکل تھا۔

ایودھیا معاملہ میں ایسی ہر بات تھی جو فرقہ وارانہ سیاست کے لیے موزوں ہو۔ اس معاملہ میں ہندوستان کے دو اہم طبقات ہندو اور مسلمان کے درمیان عقیدہ کا تصادم تھا۔ ایک طرف اللہ کی مسجد تھی، تو دوسری طرف بھگوان رام سے عقیدت۔ ایک طرف یہ دعویٰ تھا کہ مسجد بھگوان رام کے جنم استھان پر مندر توڑ کر بنائی گئی، تو دوسری طرف یہ دعویٰ تھا کہ یہ مسجد مسلم وقف بورڈ کی ملکیت تھی۔ ظاہر ہے کہ ہندوستانی سماج میں اگر دو مذہبی طبقات میں عقیدہ کے نام پر تصادم ہو جائے تو پھر معاملہ ’ناک‘ کا ہی بن جاتا ہے۔ اس لیے جب بابری مسجد کا تالا کھلا تو پہلے مسلم سماج کی طرف سے ناک بچانے کے لیے راتوں رات بابری مسجد ایکشن کمیٹی کی تشکیل ہوئی۔ اس بابری مسجد ایکشن کمیٹی نے مسجد تحفظ کے لیے مسلم سماج کو منظم کرنا شروع کیا۔ ہندوستان میں اچانک ایک نئی سیاست نے سر اٹھا لیا۔ آزادی کے بعد یہ پہلا بڑا موقع تھا جب مکمل طور پر ایک ایشو پر کسی طبقہ کو منظم کیا جا رہا تھا۔ مسلم سماج کی بڑی بڑی ریلیاں اور ساتھ میں نعرۂ تکبیر اللہ اکبر اور ان ریلیوں میں مسلم قیادت مسجد کے تحفظ کے لیے جان دینے کی بات کرتا تھا۔

بابری مسجد ایک معمولی مسجد تو تھی نہیں۔ یہ جگہ ہندوؤں کے لیے رام مندر تھا، وہ بھی ان کے عقیدہ کے مطابق بھگوان رام کا جنم استھل۔ یعنی یہ دو عقیدے کا براہ راست تصادم تھا۔ یہ ہندوؤں اور مسلموں دونوں کے لیے ناک کا سوال تھا۔ بھلا ہندوتوا سیاست کرنے والی تنظیموں کے لیے اس تصادم سے بہتر اور مناسب موقع اور کیا ہو سکتا تھا۔ مسلم سماج بابری مسجد ایکشن کمیٹی کے سایہ تلے پہلے ہی جمع ہونا شروع ہو چکا تھا۔ بلاشبہ اس کا اثر ہندو سماج پر پڑنا بھی شروع ہو چکا تھا۔ ایسے حالات میں سب سے پہلے ہندو عقیدہ کے تحفظ میں وشو ہندو پریشد میدان میں اتر پڑا۔ یہ آر ایس ایس کی طرف سے ایودھیا معاملہ میں پہلی شروعات تھی۔ وی ایچ پی نے اب ہندو ریلیاں شروع کیں۔ ملک میں ’مندر وہیں بنائیں گے‘ کا نعرہ بلند ہونا شروع ہوا۔ پہلے اتر پردیش کے ہر شہر میں وشو ہندو پریشد کی طرف سے ریلیاں ہونے لگیں اور ’مندر وہیں بنائیں گے‘ کا نعرہ لگنے لگا۔ مسجد ہٹاؤ، ہندوؤں کو رام جنم بھومی استھل واپس دو کا مطالبہ گونج اٹھا۔ اُدھر بابری مسجد ایکشن کمیٹی کا یہ اصرار کہ مسجد تو ہماری ہے، ہم اس کو کیوں واپس دیں! دو طبقات اور دو عقیدے اب کھل کر تصادم کے لیے تیار تھیں۔

یہ ہندوستانی سیاست میں ایک نیا موڑ تھا۔ برصغیر ہند کی تقسیم کے بعد یہ پہلا موقع تھا جب دو مذہبی طبقات آمنے سامنے تھے۔ یہ دونوں طبقات اپنے اپنے عقیدہ کے نام پر جدوجہد کر رہے تھے۔ واضح ہے کہ ملک کی سرکردہ سیاسی پارٹیوں کے لیے یہ ایک بالکل نئی صورت حال تھی۔ اب مذہب اور عقیدہ سیاست کا ایک اہم عضو بنتا جا رہا تھا۔ یہ صورت حال صرف اور صرف ہندوتوا نظریہ پر مبنی تنظیموں کے لیے موزوں ہو سکتی تھی۔ اور ایسا ہی ہوا۔ 1984 میں دو لوک سبھا سیٹوں پر محدود بی جے پی مذہب اور عقیدہ کے چڑھے رنگ سے ایسی نکھری کہ 1989 میں اس کی 85 سیٹیں ہو گئیں۔

یہ تو تھا ایودھیا معاملہ کا پہلا مرحلہ، جس نے رام کی عقیدت کی آڑ میں بی جے پی کو ہندوستانی سیاست میں ایک اہم پارٹی کی شکل دے دی۔ ساتھ ہی فرقہ وارانہ سیاست نے کانگریس کو بھی کمزور کر دیا۔ بدعنوانی کو ایشو بنا کر وشوناتھ پرتاپ سنگھ (وی پی سنگھ) ابھر کر سامنے آئے۔ بی جے پی نے ان کو حمایت دی۔ وی پی سنگھ 1989 میں وزیر اعظم بنے۔ لیکن کچھ ماہ میں ان کی پارٹی جنتا دل میں گہری نااتفاقی دیکھنے کو ملی۔ صرف 11 ماہ میں ان کی حکومت گر گئی۔ لیکن وی پی سنگھ نے حکومت جانے سے پہلے ’منڈل کمیشن‘ کی سفارشات پر پسماندہ طبقات کے لیے سرکاری ملازمتوں اور تعلیمی اداروں میں 27 فیصد ریزرویشن کا اعلان کر دیا۔

ہندوستانی سیاست میں اچانک ’منڈل‘ کے نام پر ایک نیا ہنگامہ اٹھ کھڑا ہوا۔ ایودھیا معاملے نے مذہب اور فرقہ کی سیاست کو ہوا دی، تو منڈل نے ملک میں ذات پر مبنی سیاست کا چلن شروع کر دیا۔ دیکھتے دیکھتے ہندو سماج میں اعلیٰ اور پسماندہ کے نام پر سماجی و سیاسی شگاف پڑ گیا۔ لالو پرساد یادو، ملائم سنگھ یادو اور کانشی رام و مایاوتی نے شمالی ہند میں ذات کی بنیاد پر پسماندہ طبقہ کی سیاست کر کے اعلیٰ ذات کی بالادستی کو توڑ دیا۔ یہ ہندوتوا سماج اور سیاست کے لیے ایک سنگین حالات تھے۔ اب یہ چیلنج تھا کہ ذات کی بنیاد پر سماج میں جو شگاف پیدا ہوا ہے اس کو کیسے ختم کیا جائے۔ اس کا صرف ایک ہی طریقہ تھا، اور وہ تھا اندر کی لڑائی ختم کرنے کے لیے باہر کی ایک لڑائی شروع کر دو۔ اس کے لیے ہندو سماج کو ایک ’باہری دشمن‘ چاہیے تھا۔ وہ دشمن ہندوستان کے تاریخی منظرنامہ میں صرف مسلمان ہی ہو سکتا تھا۔ ایودھیا میں پیدا عقیدہ کے تصادم نے بڑی حد تک مسلمانوں کو پہلے ہی ہندو کا دشمن بنا دیا تھا۔ اس لیے اب ہندوؤں کے سماجی و مذہبی نظام کے پاس صرف آر ایس ایس اور اس کی سیاسی پارٹی بی جے پی کا ہی واحد آسرا تھا۔ اس طرح آر ایس ایس اور بی جے پی اب سماجی نظام کے اہم زاویہ ہو گئے۔ اور اس مرحلہ میں اس کی قیادت لال کرشن اڈوانی نے سنبھالی اب ملک کی سیاست پوری طرح سے اڈوانی کی ’رتھ یاترا‘ کے ارد گرد سمٹتی چلی گئی اور دھیرے دھیرے ہندوؤں کے لیے مسلمان ایک دشمن کی شکل لیتا چلا گیا۔ منڈل سیاست کرنے والی پارٹی اقتدار میں تو سماجی انصاف کے نام پر آئے، لیکن انھوں نے سماجی انصاف کو چھوڑ کر ’یادو اِزم‘ کی سیاست اختیار کر لی۔ پسماندہ میں جو جوش پیدا ہوا تھا اسے سخت ذات پرستانہ سیاست نے دھیرے دھیرے ختم کر دیا۔ اس طرح جو سیاسی خلا پیدا ہوا اس میں مسلم دشمن کی شبیہ کے ساتھ بی جے پی نے مکمل طور پر اپنی شناخت قائم کر لی۔

2014 تک ہندو ذہنیت میں مسلم دشمنی کی شبیہ اتنی مضبوط ہو چکی تھی کہ گجرات میں مسلمانوں کو ’ٹھیک‘ کرنے والے نریندر مودی پورے ملک کے ’ہندو ہردے سمراٹ‘ بن گئے۔ اس طرح ایودھیا کی سیاست سے ملک کا سیاسی اور سماجی نقشہ ہی بدل گیا۔ اب ہندوستان تقریباً ایک ’ہندو راشٹر‘ دکھائی پڑتا ہے، جہاں سے واپس لوٹنا کم از کم ابھی ممکن نہیں دکھائی پڑتا۔ سچ تو یہ ہے کہ جس طرح بابری مسجد منہدم ہو گئی، اسی طرح ہندوستانی سیاست اور سماج میں بابری مسجد میں عقیدہ رکھنے والا طبقہ بھی تقریباً ٹوٹ گیا۔

ایک نظر اس پر بھی

بھٹکل سنڈے مارکیٹ: بیوپاریوں کا سڑک پر قبضہ - ٹریفک کے لئے بڑا مسئلہ 

شہر بڑا ہو یا چھوٹا قصبہ ہفتہ واری مارکیٹ عوام کی ایک اہم ضرورت ہوتی ہے، جہاں آس پاس کے گاوں، قریوں سے آنے والے کسانوں کو مناسب داموں پر روزمرہ ضرورت کی چیزیں اور خاص کرکے ترکاری ، پھل فروٹ جیسی زرعی پیدوار فروخت کرنے اور عوام کو سستے داموں پر اسے خریدنے کا ایک اچھا موقع ملتا ہے ...

نئی زندگی چاہتا ہے بھٹکل کا صدیوں پرانا 'جمبور مٹھ تالاب'

بھٹکل کے اسار کیری، سونارکیری، بندر روڈ، ڈارنٹا سمیت کئی دیگر علاقوں کے لئے قدیم زمانے سے پینے اور استعمال کے صاف ستھرے پانی کا ایک اہم ذریعہ رہنے والے 'جمبور مٹھ تالاب' میں کچرے اور مٹی کے ڈھیر کی وجہ سے پانی کی مقدار بالکل کم ہوتی جا رہی ہے اور افسران کی بے توجہی کی وجہ سے پانی ...

بڑھتی نفرت کم ہوتی جمہوریت  ........ ڈاکٹر مظفر حسین غزالی

ملک میں عام انتخابات کی تاریخوں کا اعلان ہونے والا ہے ۔ انتخابی کمیشن الیکشن کی تاریخوں کے اعلان سے قبل تیاریوں میں مصروف ہے ۔ ملک میں کتنے ووٹرز ہیں، پچھلی بار سے اس بار کتنے نئے ووٹرز شامل ہوئے، نوجوان ووٹرز کی تعداد کتنی ہے، ایسے تمام اعداد و شمار آرہے ہیں ۔ سیاسی جماعتیں ...

مالی فراڈ کا نیا گھوٹالہ : "پِگ بُوچرنگ" - گزشتہ ایک سال میں 66 فیصد ہندوستانی ہوئے فریب کاری کا شکار۔۔۔۔۔۔۔(ایک تحقیقاتی رپورٹ)

ایکسپوژر مینجمنٹ کمپنی 'ٹینیبل' نے ایک نئی رپورٹ جاری کی ہے جس میں یہ انکشاف کیا گیا ہے کہ پچھلے سال تقریباً دو تہائی (66 فیصد) ہندوستانی افراد آن لائن ڈیٹنگ یا رومانس اسکینڈل کا شکار ہوئے ہیں، جن میں سے 81 فیصد کو مالی نقصان کا سامنا کرنا پڑا ہے۔

مسلمان ہونا اب اس ملک میں گناہ ہے۔۔۔۔۔۔۔۔از: ظفر آغا

انہدام اب ایک ’فیشن‘ بنتا جا رہا ہے۔ یہ ہم نہیں کہہ رہے بلکہ یہ مدھیہ پردیش ہائی کورٹ کا بیان ہے۔ بے شک مکان ہو یا دوکان ہو، ان کو بلڈوزر کے ذریعہ ڈھا دینا اب بی جے پی حکومت کے لیے ایک فیشن بن چکا ہے۔ لیکن عموماً اس فیشن کا نشانہ مسلم اقلیتی طبقہ ہی بنتا ہے۔ اس کی تازہ ترین مثال ...

کیا وزیرمنکال وئیدیا اندھوں کے شہر میں آئینے بیچ رہے ہیں ؟ بھٹکل کے مسلمان قابل ستائش ۔۔۔۔۔ (کراولی منجاو کی خصوصی رپورٹ)

ضلع نگراں کاروزیر منکال وئیدیا کا کہنا ہے کہ کاروار میں ہر سال منعقد ہونےو الے کراولی اتسوا میں دیری اس لئے ہورہی ہے کہ  وزیرا علیٰ کا وقت طئے نہیں ہورہاہے۔ جب کہ  ضلع نگراں کار وزیر اس سے پہلے بھی آئی آر بی شاہراہ کی جدوجہد کےلئے عوامی تعاون حاصل نہیں ہونے کا بہانہ بتاتے ہوئے ...

سورت میں کانگریس کے امیدوارنیلیش کمبھانی کی نامزدگی منسوخ؛ بی جے پی امیدوار بلامقابلہ منتخب؛ کانگریس نے میچ فیکسنگ کا لگایا الزام

گجرات کی سورت لوک سبھا سیٹ سے بی جے پی امیدوار مکیش دلال بلا مقابلہ منتخب ہو گئے ہیں۔ ان کے انتخاب کو بی جے پی کی جانب سے لوک سبھا انتخابات کا پہلا نتیجہ قرار دیا جا رہا ہے۔ مگر مکیش دلال کے اس بلا مقابلہ منتخب ہونے کے عمل کا تجزیہ کرتے ہوئے کانگریس نے اسے جمہوریت کے لیے خطرہ اور ...

وزیراعظم مودی کا مسلمانوں کی مخالفت میں نفرت انگیزخطاب؛ کانگریس کی طرف سے الیکشن کمیشن کو کی گئی17 شکایتیں

وزیراعظم نریندر مودی نے مسلمانوں کی مخالفت میں جس طرح کا نفرت انگیز خطاب کیا ہے ، اس پر ملک  کے اکثر عوام حیرت کا اظہار کررہے ہیں۔ اس ضمن میں کانگریس کی طرف سے الیکشن کمیشن کو ١٧ شکایتیں دی گئی ہیں، اور ان کےخلاف کاروائی کا مطالبہ کیا گیا ہے جبکہ سوشیل میڈیا پر ان کے بیان کو لے ...

انڈیا بلاک اقتدار میں آنے پر قانون میں لائی جائے گی تبدیلی ؛ چدمبرم نے کہا ؛ زیر سماعت قیدی جب مجرم نہیں ہوتے تو اُنہیں جیل میں رکھا جانا غلط

سابق مرکزی وزیر اور کانگریس لیڈر پی چدمبرم نے  کہا ہے  کہ اگر انڈیا  بلاک مرکز میں برسراقتدار آتا ہے، تو وہ   سپریم کورٹ کے قائم کردہ  "ضمانت ایک اصول ہے، اور جیل ۔ استثناء ہے" کو لاگو کرنے کا قانون لائیں گے۔ چدمبرم نے کہا کہ  ضمانت دینے کے اُصول  پر نچلی اور ضلعی عدالتوں میں ...

ملک بڑی تبدیلیوں کے لیے تیار ہے: چیف جسٹس چندرچوڑ

17ویں لوک سبھا کے دوران پارلیمنٹ کے ذریعے تین اہم قوانین منظور کیے گئے،  سی آر پی سی،  آئی پی سی سے لے کر ایویڈنس ایکٹ کو ختم کرنے تک، تین نئے قوانین متعارف کرائے گئے۔ یہ قوانین یکم جولائی 2024 سے نافذ العمل ہوں گے۔ اس کے بارے میں سپریم کورٹ کے چیف جسٹس ڈی وائی چندر چوڑ نے مودی ...

چار ریاستوں میں گرمی کی شدید لہر، درجہ حرارت 43 ڈگری سے متجاوز، محکمہ موسمیات کا الرٹ جاری

ہندوستان کے محکمہ موسمیات (آئی ایم ڈی) نے ہفتہ کے روز آئندہ دو دنوں کے لئے ملک کی چار ریاستوں میں گرمی کی لہر کا الرٹ جاری کیا ہے۔ یہ ریاستیں بہار، جھارکھنڈ، اوڈیشہ اور مغربی بنگال ہیں، جن میں ہفتہ کو درجہ حرارت 42 ڈگری سیلسیس سے زیادہ تھا۔

بابا رام دیو کو ایک اور ’سپریم‘ جھٹکا، اب یوگ کیمپس کے لیے ادا کرنا ہوگا سروس ٹیکس

ایلوپیتھی کے خلاف گمراہ کن اشتہارات کے معاملے کے بعد سپریم کورٹ نے رام دیو کو ایک اور زوردار جھٹکا دیتے ہوئے ، ان کے یوگ کیمپوں کو سروس ٹیکس ادائیگی کے زمرے میں لا دیا ہے۔ سپریم کورٹ نے یوگ کیمپ پر ٹیکس ادائیگی کے ٹریبونیل کے اس فیصلے کو برقرار رکھا ہے، جسے پتنجلی یوگ پیٹھ ٹرسٹ ...